میر واہ کی راتیں (قسط4)۔۔۔ رفاقت حیات

گزشتہ قسط:
’وہ دیکھو… اُس طرف! ہاں، وہ جو سیمنٹ سے بنی ہوئی صاف ستھری عمارت ہے نا، وہ ہمارے گوٹھ کی یونین کونسل ہے۔ کبھی بھول کر بھی اس کے قریب سے مت گزرنا۔ یونین کونسل کا چوکیدار شام ڈھلتے ہی اس کے باہر کتے چھوڑ دیتا ہے۔ ۔

نذیر دیکھ رہا تھا کہ پکوڑافروش دن بھر قصبے میں جوتیا ں چٹخانے کے بعد اس وقت تھکن سے چور تھا اور نشے کی زیادتی کی وجہ سے اس کے اعصاب مضمحل لگ رہے تھے۔

اس نے مسکراتے ہوے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’یہ گوپانگ ہم جوگیوں کی عزت پر داغ ہیں۔ مگر ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں کر سکتے! ان بھڑووں کو اپنے گوٹھ سے نہیں نکال سکتے کیونکہ ہمارے وڈیرے ایک نمبر کے رنڈی باز ہیں۔‘‘

میر واہ کی راتیں (قسط3)۔۔۔ رفاقت حیات
نئی قسط:
اس کی بےتکی باتیں سن کر نذیراونگھنے لگا تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی جلا کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ نورل سے چرس کا سگریٹ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے اس کے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں شدید تھکان کے سبب بند ہو رہی تھیں۔

نورل جوگی کے ہاتھوں نے چابکدستی سے سگریٹ بنا کر اس کی طرف بڑھایا۔ نذیر نے اسے دیاسلائی سے سلگاتے ہوئے ایک زوردار کش لگایا۔ سگریٹ پینے کے بعد وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پوری طرح اپنے ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لی اور اس کے بعد ڈنڈ نکالنے لگا۔

وہ رات کے اس پہر ویران سڑک پر چلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ جھاڑیوں کے ساتھ ہی گنے کے کھیت واقع تھے۔ وہ جھاڑیوں کے بیچ چلتے چلتے گنے کے کھیتوں میں داخل ہو گئے۔ گنے کے قدآور پودے ان کے جسموں سے ٹکرا ٹکرا کر دھیما سا شور مچانے لگے۔ نورل نے اس کے پاس آ کر سرگوشی میں کہا، ’’تمام گوٹھوں کے عاشقوں کے لیے کماد کی فصل خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔‘‘

یہ بات سن کر نذیر خود کو ہنسنے سے نہ روک سکا۔

گنے کی فصل میں کچھ دور تک چلنے کے بعد وہ رک گئے۔ انھوں نے فصل سے باہر سر نکال کر اِدھراُدھر دیکھا، پھر احتیاط سے دبے پاؤں چلتے ہوئے گاؤں کی طرف جانے والا راستہ پار کیا اور تیزی سے پرلی طرف کے کھیت میں گھس گئے۔ چلتے چلتے نذیر کی چپلیں گیلی مٹی لگنے کی وجہ سے بھاری ہو گئی تھیں۔ مزید آگے جا کر پانی بہنے کی سرسراہٹ سنائی دی۔ یہ آواز پانی کے نالے سے آ رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد انھیں وہ نالہ دکھائی دینے لگا۔ سیمنٹ سے بنے ہوئے اس نالے کے پاس جا کر فصل ختم ہو جاتی تھی۔

نورل نذیر کو نالے کے پاس، شیشم کے ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا ہونے کا مشورہ دے کر غائب ہو گیا۔ نذیر پگڈنڈی پر تیزی سے چلتے اس کے پیروں کی دھپ دھپ سنتا رہا۔ اس کے بعد وہ گردوپیش نگاہ ڈال کر آہستہ آہستہ چلتا شیشم کے پیڑ کی اوٹ میں جا کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ کھڑا رہ رہ کر تھک گیا تو نالے پر جا کر بیٹھ گیا۔ نالے کا سیمنٹ اس وقت یخ ہو رہا تھا۔

گوٹھ کے مکانوں کا پچھلا حصہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ وہ ان مکانوں میں شمیم کا مکان تلاش کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ بائیں طرف بنے ہوئے تین پختہ مکانوں میں سے ایک میں شمیم رہتی تھی۔ کپاس کی لکڑیوں اور شرینہہ کے پیڑوں کے سایوں کی وجہ سے وہ ان مکانوں کے دروازے نہیں دیکھ سکا۔

وہ شیشم کے جس طویل قامت پیڑ کے نیچے کھڑا تھا اس نے جب اس کے موٹے سے تنے کو دیکھا تو اس کے رگ و پے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ بچپن میں سنے ہوئے بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے اسے یاد آنے لگے۔ وہ زمین پر پھیلے ہوئے اس درخت کے سائے کو دیکھتا رہا۔

نجانے کیوں باربار اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ یہاں نہیں آئے گی، مگر اس کے باوجود وہ دیر تک وہاں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس نے گھڑی پر وقت بھی نہیں دیکھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اب شاید رات کے دو بجنے والے ہوں گے۔ وہ اپنے تخیل کی مدد سے سوچنے لگا۔ ’’شاید وہ اپنے کمرے سے باہر آ گئی ہو مگر اپنے شوہر کو دھوکا نہ دینا چاہتی ہو اور برآمدے میں ٹہلتی ہوئی کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش میں ہو۔‘‘

اچانک ایک لرزا دینے والے خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں پکوڑافروش نے اسے کوئی فریب نہ دیا ہو؛ کہیں اس کی سنائی ہوئی ساری باتیں جھوٹی نہ ہوں اور کہیں اس نے اس کے خلاف کوئی سازش تیار نہ کر رکھی ہو۔ اس کا ذہن مختلف وسوسوں اور اندیشوں سے بھر گیا۔ اسی کیفیت کے زیرِاثر وہ سیمنٹ کے نالے سے اُٹھ کر چلتا ہوا کماد کے کھیت میں جا چھپا۔ بہت دیر تک وہ وہاں چھپا سامنے کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کی نگاہ شرینہہ کے دیوقامت پیڑوں کے سایوں پر جمی تھیں۔

اچانک اسے کسی کے قدموں کے نیچے کپاس کی سوکھی لکڑیوں کے کچلنے کی دھیمی دھیمی سی چرمراہٹ سنائی دی۔ اس کے بعد اس نے چاندنی میں وہاں ایک سائے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گنے کی فصل سے باہر نکلا اور شیشم کے درخت کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اب وہ واضح طور پر دیکھ رہا تھا کہ شمیم ہولے ہولے قدم اٹھاتی اس کی طرف بڑھتی آ رہی تھی، مگر چلتے چلتے وہ اچانک کھڑی ہو گئی۔ چادر میں لپٹی ہوئی شمیم نے اسے اشارہ کرتے ہوئے اپنی طرف بلایا۔ اس کے اشارے پر وہ حواس باختگی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا تیزی سے اس کے قریب پہنچا۔

شمیم لجاتے اور کسمساتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔ ’’نزدیک ہی ایک محفوظ جگہ ہے۔ آؤ چل کر وہاں بیٹھتے ہیں۔‘‘

سردیوں کی رات کے گہرے سکوت میں اس کی آواز نذیر کو کسی شیریں نغمے جیسی محسوس ہوئی۔ وہ اس کی آواز کی تعریف کرنا چاہتا تھا مگر سر جھکائے چپ چاپ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ سردی کے سبب اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔ اس کے بند ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ آگے چلتی، کپڑوں میں سمٹی ہوئی عورت کو دیکھ رہا تھا جو بےآواز قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔

کچھ دور جا کر وہ ٹھہر گئی۔ اسے دیکھ کر نذیر بھی رک گیا۔ نذیر نے جگہ کے انتخاب کی بہت تعریف کی۔ شمیم اسے بتانے لگی کہ اسے اس علاقے کے چپے چپے کی خبر تھی۔

آج بھی اس نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپایا ہوا تھا۔ اندھیرے کے سبب وہ اس کی تابناک آنکھوں کو نہیں دیکھ سکا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی چادر سے باہر نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے دو قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب اُتار دیا۔

نذیر بہت غور سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر اس وقت اسے بےحد پُر کشش محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سندھی گانوں کی مدد سے اس کی تعریف کرنے لگا۔ اس کے چہرے کو چاند اور آنکھوں کو ستاروں سے تشبیہ دینے لگا۔ ایک نوجوان لڑکے سے اپنی تعریفیں سن کر شمیم مسکرانے لگی۔ وہ کئی برسوں کے بعد کسی کے ہونٹوں سے اپنی اتنی تعریف سن رہی تھی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ اسے اپنی معمولی زندگی کی معمولی سی باتیں مزے لے لے کر سنانے لگی۔

نذیر کو حیرت ہو رہی تھی کہ اب تک اس نے اپنے شوہر کے خلاف کوئی جملہ نہیں کہا تھا، جبکہ پکوڑافروش نے اسے بتایا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے۔

شمیم کو نذیر سے ملاقات کے لیے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ان کا بیان مبالغہ آرائی سے کرتی رہی۔ اس کی گنگناتی آواز سنتے ہوئے وہ اپنی تمام اذیت بھول گیا۔ وہ صرف اس کی صورت دیکھتا اور اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے اس کے نزدیک کھڑے ہو کر اس کے بالوں کی مانگ کو دیکھا، پھر اس کی پیشانی اور اس کی آنکھوں کو، اس کے بعد اس کے ہونٹوں اور گالوں کو۔ اس نے اس کی جلد کی سفید رنگت کو دیکھا۔ اس کی کلائی کی چوڑیوں کو دیکھا جو باربار خودبخود کھنک پڑتی تھیں۔ اس کا مترنم اور دھیما لہجہ اس پر فسوں طاری کر رہا تھا۔ اوڑھی ہوئی چادر کے باوجود اس کے سینے کا ابھار صاف دکھائی دے رہا تھا۔

شمیم بھی اس کی نظروں سے غافل نہیں تھی۔ وہ اس کی نگاہوں کی خاموش تعریف سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچانک کسی احساس کے زیرِاثر اس کے لہجے کی بےساختگی ختم ہو گئی اور وہ اٹک اٹک کر باتیں کرنے لگی۔

نذیر کے لیے یہ لمحات اس کی زندگی کے سب سے زیادہ مسرور لمحات تھے۔ ایک شادی شدہ جوان خاتون اس کے پہلو میں تھی اور اس کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگا کراس سے ملنے آئی تھی۔ وہ دونوں آنے والے دنوں میں اپنی ملاقاتوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔

شمیم نے اسے بتایا کہ آئندہ اس کے لیے رات کے وقت کھیتوں میں آنا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ خوفزدہ تھی۔ اس نے کہا کہ وہ اس سے ملنے کے لیے کوئی اور بندوبست کرے گی۔ اس نے اپنے دل میں امڈتی ہوئی محبت کا اظہار کیا اور نذیر کی تعریفیں کرنے لگی۔ وہ مسکرایا اور اس نے موج میں آ کر، آگے بڑھ کر شمیم کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس نے پہلی بار نسوانی جسم کے اضطراب اور اس کی نرمی کو محسوس کیا۔ اسے لگا کہ وہ ریشم کے نرم و ملائم تھان سے لپٹ گیا ہے۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسمسانے لگی۔ اس کے بدن سے اٹھتی کسی عطر اور پاؤڈر کی خوشبو اسے بےحد مسحورکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے پہلابوسہ اس کے داہنے ہاتھ پر دیا، وہ جس کی مدد سے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نذیر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے دونوں ہاتھ ہٹا کر اس کے نرم ہونٹوں کو چومنے لگا۔ وہ ان لمحوں کے ذریعے اپنی زندگی بھر کی محرومی کو سیراب کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی چادر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس میں چھپی ہوئی اس کی چھاتیوں کو محسوس کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے نجانے کیا ہوا کہ وہ اس کی چادر کو چومتے چومتے اس کے سینے سے نیچے آیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔

شمیم گڑبڑا گئی۔ اس نے اس کے بوسوں کے خلاف برائے نام مزاحمت کی۔ اس نے اپنے نوآموز عاشق کے وحشی پن کا برُا نہیں مانا اگرچہ اس کے تیزوتند بوسوں نے اس کے انگ انگ میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ نذیر بھی اپنے آپ میں نہیں تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر اس کی ٹانگوں کو بھینچتا رہا۔ اس صورتِ حال میں شمیم کو خود کو سنبھالنے کا موقع مل گیا۔

کچھ دیر بعد وہ زمین سے اٹھا اور اس نے دوبارہ اس کی کمر کے گرد بازو ڈالنے کی کوشش کی مگر اس مرتبہ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے دھیمے لہجے میں اسے سرزنش کی۔

عورت کے جسم سے پہلی ہم آغوشی نے نذیر کو نشے سے چُور کر دیا تھا۔ وہ اس کے ہمراہ زمین پر اگی ہوئی گھاس پر، گنے کے کھیتوں میں، شیشم کے پیڑ کے نیچے، غرض ہر جگہ بوس و کنار کرنا چاہتا تھا، اس کے جسم کو آغوش میں لے کر رقص کرنا چاہتا تھا، مگر شمیم نے اگلے ہی ثانیے اسے دھکا دے کر سب کچھ ختم کر دیا۔ وہ نذیر پر طاری ہونے والی پیار کی وحشت سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس سے الگ ہوتے ہی وہ اپنی بھٹکتی ہوئی سانسوں کو سنبھالنے لگی۔ نذیر نے اس کے قریب آ کر اس سے اپنے رویے پر معذرت کی تو وہ مسکرانے لگی۔

اگلے ہی لمحے اس نے رخِ روشن نقاب میں چھپا لیا۔ نذیر سے مخاطب ہو کر اس نے اسے’’اللہ وائی‘‘ کہا اور اس کے بعد پلٹ کر سبک خرامی سے چلتی ہوئی، دیوقامت شرینہہ کے درختوں کے سائے میں غائب ہو گئی۔

اس کے جانے کے فوراً بعد نذیر کو احساس ہوا کہ شاید اس نے اپنے رویے سے اسے سہما دیا۔ اپنے احمقانہ رویے کی تلافی کی خاطر اس نے اسے آواز دی مگر اس کی آواز گوٹھ کے مکانوں کے درودیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئی۔ وہ دیر تک وہیں پر مبہوت کھڑا اسی سمت دیکھتا رہا، کچھ دیر پہلے وہ جس طرف گئی تھی۔

گھر سے گوٹھ ہاشم جوگی کی جانب آتے ہوئے خوف کے سبب نذیر کے رگ و ریشے میں جو کپکپی طاری تھی، واپس جاتے ہوئے اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ آتے ہوئے اسے جو راستہ طویل اور لامتناہی محسوس ہو رہا تھا، واپسی پر اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ سبک روی سے چلتا ہوا گھر تک پہنچ گیا۔

صبح کو چاچی خیرالنسا اس کی چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر اسے جگانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے گنگناتے ہوئے دھیمے لہجے میں دو تین مرتبہ اس کا نام پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی گہری نیند پر وہ حیرت سے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہ لحاف اوڑھے اوندھے منہ بستر پر سو رہا تھا۔ اس کا جسم مکمل طور پر بےحس تھا اور اس کی اکھڑی ہوئی، بےترتیب سانسوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ آخر تنگ آ کر چاچی نے اس کے چہرے سے رضائی اُتار دی۔ اس کی آنکھیں زور سے مندی ہوئی تھیں اور اس کے ہونٹ آپس میں ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔

وہ اس کے ہونٹوں کی سرخی کو اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ اکثر خوابوں میں وہ اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم چکی تھی۔ مگر اس وقت وہ اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ چاچی نے جھجکتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا، پھر اس کے گالوں اور ہونٹوں کو مس کیا۔ اسے اس کی پیشانی، گالوں اور ہونٹوں سے خفیف سی گرم لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ا س نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور گھبرائی ہوئی کمرے کے دروازے سے اندرجھانکنے لگی۔

اس کا شوہر وہاں گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد وہ دوبارہ نذیر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے۔ اس نے جھک کر اس کے کندھے کو دھیرے سے ہلایا مگر اس مرتبہ بھی اس نے کوئی جنبش نہ کی۔

اس نے فکرمندی سے آس پاس نظر دوڑائی اور صحن میں بڑھتی ہوئی روشنی کو دیکھا۔ فجر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اس نے نذیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور خود دیوار پر کیل میں لٹکا ہوا مصلّیٰ اتار کر اسے زمین پر بچھانے لگی۔

ابھی اس نے مصلیٰ بچھایا ہی تھا کہ اسے نذیر کے منھ سے نکلتی بےمعنی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے جسم نے اضطراب سے ایک کروٹ لی اور اس کا لحاف اس کے جسم سے اتر کر نیچے جا گرا۔

نذیر کی طرف دیکھتے ہی چاچی کو فوراً محسوس ہوا کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ ایک سنسنی سی اس کے تن بدن میں گہرائی تک دوڑتی چلی گئی۔ کسی مقناطیسی کشش نے اس کی آنکھوں کو اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ اپنی نظر کو وہاں سے نہیں ہٹا سکی۔ اس کی آنکھیں چند لحظوں تک اس کی مرضی کے خلاف پلکیں جھپکے بغیراس منظر کو دیکھتی رہیں۔ اس کا چہرہ ذرا سی دیر میں سرخ ہو گیا اور اس کے کانوں کی لویں گرم ہونے لگیں۔ اس نے زیرِلب مسکراتے ہوئے اوڑھی ہوئی چادر کا کونا اپنے دانتوں میں دبا لیا، مگر اگلے ہی لمحے وہ توبہ استغفار کرتی ہوئی اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی۔

مصلّے کو دیوار پر دوبارہ لٹکا کرایک مرتبہ پھر اس نے کمرے میں جھانکا اور اطمینان کرنے کے بعد وہ دھیرے دھیرے چلتی چارپائی کے قریب گئی۔ وہ دانستہ طور پر اب کوشش کر رہی تھی کہ اس کی نظر نذیر کے جسم پر نہ پڑیں۔ اس نے اپنی نظریں پرے لے جاتے ہوئے زمین سے رضائی اٹھا کر اسے دوبارہ اُوڑھا دی۔

اپنی نگاہوں کی کوتاہی پر وہ اپنے آپ کو سرزنش کرنے لگی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا وضو ٹوٹ چکا ہے۔ ہینڈپمپ سے نکلتے ٹھنڈے پانی کے باوجود اسے دوبارہ وضو کرنا پڑا۔

اس دوران صحن اور برآمدے میں روشنی پھیل گئی تھی۔ اس نے پڑوسیوں کی چھت پر گرتی سورج کی شعاعوں کو دیکھا تو ایک مرتبہ پھر استغفار کرتی، جلدی سے مصلیٰ بچھا کر نماز قضا کر کے پڑھنے لگی۔

نذیر کے جسم کے منظر کو ذہن سے نکالنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے جیسے تیسے نماز ختم کر کے یہ فرض ادا کیا۔ اس کے بعد اس نے کمرے میں جا کر اپنے شوہر کو نیند سے جگایا اور خود باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔

کچھ دیر کے بعد غفور کھانستا ہوا صبح کی چائے پینے کے لیے باورچی خانے میں آیا تو وہ اسے نذیر کی صحت کے بارے میں بتانے لگی۔ ’’پتا نہیں آج اسے کیا ہو گیا ہے۔ میں نے کئی دفعہ اسے جگایا مگر ایک بار بھی اس کی آنکھ نہیں کھلی۔‘‘

جب وہ دونوں چائے پی چکے تو اٹھ کر برآمدے میں سوئے ہوئے نذیر کے پاس گئے۔ چاچی ذرا پیچھے ہٹ کر فاصلے پر کھڑی ہو گئی جبکہ غفور اپنے بھتیجے کو جگانے میں مصروف ہو گیا۔ جھنجھوڑے جانے پر نیند کے عالم میں اس کا بدن کسمسایا اور اس نے عجیب انداز سے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ان دونوں کو تکنے لگا۔

’’کیا بات ہے نذیر؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ غفور چاچا نے فکرمندی سے پوچھا۔

’’ہاں، میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کے اٹھ کر بیٹھنے پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔

’’جوانی کی نیند بہت دیوانی ہوتی ہے،‘‘ چاچے نے شرارت آمیز نظر سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

نذیرانگڑائی لے کر اٹھنے کے بعد کچھ دیر ٹانگیں لٹکائے اور سر جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر چارپائی سے اٹھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’پتا نہیں کیوں، آج میرے جسم میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ اس کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں اور اس کا چہرہ کمزور لگ رہا تھا۔

’’اچھا، آج تُو گھر پر آرام کر لے۔ دکان میں چلا جاتا ہوں،‘‘ غفور چاچا نے تشویش سے اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔

’’ٹھیک ہے،‘‘ جواب دیتے ہوئے وہ غسل خانے کی طرف چلا گیا۔

واپس آ کر نذیر دوبارہ چارپائی پرلیٹ گیا۔ اس کے سر میں تیز درد ہو رہا تھا۔ اس کے منہ کا ذائقہ شاید کل رات چرس پینے کی وجہ سے اب تک کڑوا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی سی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کا حلق اس طرح سوکھ رہا تھا جیسے اس نے کئی دن پانی پیے بغیر طویل مسافت طے کی ہو۔ وہ لحاف میں دبکا ہوا اپنی عجیب حالت پر سوچ رہا تھا۔ کل شب کے لذت بھرے واقعے کی وجہ سے اس کے بدن کو سبک اور لطیف ہونا چاہیے تھا، مگراس وقت اس کے بدن کا عضو عضو درد سے اینٹھ رہا تھا۔ اس کے باوجود اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اسے باربار شمیم کے ہونٹوں کی نرمی یاد آ رہی تھی۔ وہ حیرانی سے سوچ رہا تھا۔ شب کے تیسرے پہر اس مہربان عورت کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک زمین پر گھٹنے ٹیکے، اسے جاتے ہوئے تکتا رہا تھا۔ اس وقت اس نے اپنے آپ کو وہ زمین خیال کیا تھا جس کی چھاتی پر پاؤں دھرتی ہوئی وہ جس طرف سے آئی تھی اسی طرف واپس لوٹ گئی۔ رات میں فضا سے گرنے والی اوس نے ناصرف اس کے کپڑوں کو گیلا کیا تھا بلکہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کا سبز رنگ بھی ان پر لگ گیا تھا۔ اس وقت وہ خوف کی جگہ سخت اذیت میں مبتلا تھا۔ اس کے پیٹ میں عجیب سے مروڑ اٹھ رہے تھے اور اس کی ٹانگوں سے جیسے ساری جان نکل گئی ہو۔ مسکراتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا، ’’ایسی حسین اور دلربا رات کی خاطرایسی لاکھ اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو کر لینی چاہئیں۔ اس سخی عورت کی وجہ سے آخر میری انگلیوں نے پہلی بار خالص نسوانی لمس کا ذائقہ چکھا ہے اور میرے ترسے ہوئے ہونٹ بوسوں کی لذت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے ایک لذیذ سی آہ بھرتے ہوئے بستر پر کروٹ لی۔

کچھ دیر بعد چاچی خیرالنسا اس کے لیے چائے کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے چارپائی کے پاس آئی اور اسے مخاطب کر کے چائے پینے کے لیے کہا۔ نذیر نے اٹھ کر اس کے ہاتھوں سے چائے کا پیالہ لیتے ہوئے اپنی انگلیاں اس کے پورے ہاتھ کے ساتھ مس کیں۔ نذیر نے جرأت سے اپنا سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی نظریں جھکا لیں اور اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی فوراً چلی گئی۔ وہ گم سم ہو کر اس کے ہاتھوں سے بنی میٹھی چائے کی چسکیاں لینے لگا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد چاچا غفور اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لینے اور آرام کرنے کی تنبیہ کرکے گھر سے باہر چلا گیا۔

چاچی خیرالنسا اسٹیل کی تھالی میں اس کے لیے دو اُبلے ہوئے انڈے لے آئی۔ اس کی چارپائی پر اس کے قریب بیٹھ کر وہ انڈوں پر سے چھلکے اُتارنے لگی۔ اسے کام میں محو دیکھ کر وہ اپنی آنکھوں سے چاچی کا جسم ٹٹولنے لگا۔ وہ بھی اپنے لباس کی شکنوں سے بےنیاز تھی۔ معاً وہ انڈے چھیلتے ہوئے کہنے لگی، ’’مجھے لگتا ہے کہ تجھے بخار ہو گیا ہے۔ اور دیکھ! سردی کا بخار اچھا نہیں ہوتا۔ میں دن میں تین بارانڈے ابال کر تجھے کھلاؤں گی۔ تیرا چاچا دکان سے کسی کے ہاتھ مرغی کا گوشت بھی بھجوا دے گا۔ یخنی پی کر تیری صحت بہتر ہو جائے گی۔ سوتے میں تجھے اپنی رضائی کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ رضائی اترنے سے تجھے سردی لگ گئی ہے۔‘‘

وہ انڈے کا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھتے ہوئے بولا، ’’معاف کرنا چاچی، میری وجہ سے تجھے تکلیف کرنی پڑی۔ تیری پریشانی ختم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ چاچا بھلاچنگا ہوا تو اب میں بیمار پڑ گیا۔‘‘

اپنی صبح سے اب تک کی مصروفیت کا حال سنانے کے بعد چاچی نے اس سے کہا، ’’تُو آرام سے بیٹھ کر یہ کھا، میں تیرے لیے صحن میں چارپائی بچھا دیتی ہوں۔ تجھے دھوپ اچھی لگے گی۔ کام سے فارغ ہو کر میں تیرے سر کی مالش بھی کر دوں گی۔ ‘‘

’’ہاں چاچی، واقعی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ دل جمعی سے انڈے کھانے لگا۔ انڈے کا آخری ٹکڑا منہ میں رکھ کر وہ اٹھا اور تیز دھوپ میں جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا تو دیکھ نہیں سکا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ لمبے سانس بھرنے لگا۔

اس نے چاچی خیرالنسا کو جھک کر چارپائی اٹھاتے ہوئے دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ وہ اس کی قمیض سے باہر آتی چھاتیوں کو تکتا ہی رہ گیا۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے اچانک اس کا سر چکرایا۔ وہ صحن میں گرتے گرتے بچا۔

چارپائی کے صحن میں بچھتے ہی وہ تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ گہری نیند سو گیا۔

دو روز تک اس کا بخار نہیں اترا اور وہ گھر سے باہر نہ جا سکا۔

شمیم سے ملاقات کی یاد دھیرے دھیرے اس کے ذہن سے محو ہوتی جا رہی تھی۔ جب بھی اس ملاقات کا عکس اس کی نگاہوں میں جھلملاتا تو خودبخود چپکے چپکے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتی اور وہ جلدازجلد صحت یاب ہونے کی خواہش کرنے لگتا۔

اسے غسل کیے ہوئے بھی تین روز گزر گئے تھے۔ اس کی گردن پر میل کی تہہ جم گئی تھی اور اسے اپنے بدن میں سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

بخار کے پہلے روز تو وہ چاچی خیرالنسا کی خدمت سے بہت لطف اندوز ہوا۔ اسے کھاٹ پر اُبلے ہوئے انڈے، گرم یخنی اور چائے وغیرہ ملتی رہی۔ شام کو اس نے اس کے لیے خس خس کا حلوہ بھی تیار کیا۔ دوسرے دن چاچی سرسوں کے تیل سے اس کے سر کی مالش کرنے لگی تو وہ تلملا اُٹھا۔ اس کے بھاری ہاتھوں کی رگڑ اتنی تیز تھی کہ اس نے اس کی منّتیں کر کے اپنی جان چھڑائی۔ اسے حیرت ہوئی کہ جن ہاتھوں کو کئی مرتبہ اس نے چومنے کی خواہش کی تھی وہ درحقیقت کتنے سخت اور کٹھور نکلے۔

چارپائی پرلیٹے لیٹے وہ عاجز آ گیا تھا۔ کئی بار وہ اٹھ کر صحن میں چہل قدمی کرنے لگا اور دروازے کے پاس جا کر گلی میں بھی جھانکنے لگا۔

گھر میں رہتے ہوئے اس نے کسی معاملے پر بھی احتجاج نہیں کیا۔ وہ اپنی پیاری چاچی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ اس کے سر کی مالش کر رہی تھی تو اس دوران اس کا سر بارہا نرم اور گداز چھاتیوں سے ٹکرایا تھا اور ہر بار چاچی نے کسمسا کر، ذراسا لجا کر اپنے سینے کو پیچھے ہٹا لیا تھا۔ ایک آدھ بار اس نے بڑبڑا کر خود کو ملامت بھی کی تھی۔ نذیر کو سر کی مالش کروانا پسند نہیں تھا مگروہ زبردستی اس کے سر کی مالش کرتی رہی تھی۔

ایک مرتبہ تو نذیر کی صحت یابی کے لیے اس نے گیارہ دفعہ سورۂ یٰسین پڑھ ڈالی اور جب اس پر پھونک مارنے کے لیے وہ اس کے قریب ہوئی تو نذیر نے شرارت کرتے ہوئے اچانک اپنا سر اٹھا کر اس کے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا تھا، جس پر وہ اس سے کچھ دیر کے لیے خفا بھی ہو گئی تھی۔ وہ ایک بوسہ اس کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا مگر وہ زیادہ عرصے تک اس بوسے کو یاد نہیں رکھ سکا۔

آج کا سورج بھی غروب ہو چکا تھا اور آسمان پر پھیلی شفق معدوم ہوتی جا رہی تھی۔

اسے اپنے معمولات کی یکسانیت پر وحشت سی ہونے لگی تھی۔ آج پورے تین دن ہو گئے تھے اور اس نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ اسے معلوم تھا، اس کے لیے نئی ملاقات کا سندیسہ لے کر نورل جوگی قصبے کی گلیوں اور چائے خانوں میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہو گا۔

اس کے دل میں چاچی کے لیے کینہ توز مخاصمت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جان گیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کرے گی۔ اس کے رویے میں ہمیشہ ایک پراسراریت رہے گی۔ وہ کبھی اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا کہ وہ آخر اس سے کس بات کی متقاضی تھی؟ وہ پورے ایک دن تک اس سے اس کے معمولی بوسے پر خفا رہی جبکہ مالش کے دوران وہ خود اپنا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکراتی رہی تھی اور اس پر خود ہی نادم بھی ہوتی رہی تھی۔

نذیر نے سوچا کہ شمیم تک رسائی کے بعد اسے غیرضروری چیزوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔ چاچی خیرالنسا کے معاملے میں اس کا جلد یا بدیر احساسِ گناہ سے دوچار ہونا طے ہو چکا تھا اور اس گناہ کے نتیجے میں خاندان بھر میں اس کا ذلیل و رسوا ہونا بھی طے ہو چکا تھا۔

شام ڈھلتے ہی گھر کے دروازے پر تیز دستک ہوئی۔ نذیر نے جا کر کنڈی کھولی تو باہر حیدری کھڑا اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے جلدی سے بتایا کہ نورل جوگی پہلوان کے چائے خانے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ نذیر کے دل میں نجانے کیا سمائی کہ وہ چاچی خیرالنسا کو بتائے بغیر اس کے ساتھ چل دیا۔

راستے میں حیدری اس سے چھیڑچھاڑ کرتا رہا۔ اس نے شکایت کی کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اسے نظرانداز کر رہا ہے۔ وہ دراصل اب اس کے راز جاننا چاہتا تھا، مگر نذیر ہوشیار تھا، اس نے اسے عام سی باتیں بتا کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اس نے دوست کا دل رکھنے کی خاطر روکھے پھیکے انداز سے رات کی اپنی مہم کو بیان کیا۔ پھر اسے اپنی بیماری کے متعلق بتانے لگا۔

پہلوان دستی کے چائے خانے تک پہنچنے تک حیدری کی ساری چونچالی ختم ہو گئی اور وہ دل ہی دل میں اپنے دوست سے حسد کرنے لگا کیونکہ اس کی کسی عورت سے دوستی نہیں تھی۔

نذیر گھر میں اپنی تین دن کی اسیری سے نکل کر چائے خانے کے ماحول میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے رفیقوں سے درخواست کی کہ وہ قصبے سے باہر نکلنے والی سڑک پر چہل قدمی کے لیے اس کے ساتھ آئیں۔

وہ تینوں اپنی بےتکی باتیں کرتے ہوئے سڑک پر ٹہلنے لگے۔ سڑک پر واقع دکانیں کچھ دور تک جا کر ختم ہو گئیں۔ وہ متعلقہ ہسپتال کے قریب سے گزرے، پھر آگے چل کر ٹاؤن کمیٹی اور سیشن کورٹ کی عمارتیں آئیں۔ واٹرسپلائی کی اونچی ٹنکی تاریکی میں کسی دیو کی طرح کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ سڑک پر بجلی کے کھمبوں میں بلب نہیں تھے۔

نورل جوگی اپنی اندھی عقیدت کے جوش میں چند روز پیشتر گردونواح میں رونما ہونے والے ایک معجزے کا ذکر کرنے لگا۔ اس کے خیال میں یہ معجزہ قیامت کے نزدیک آنے کی علامت تھا۔ وہ جوشِ عقیدت سے کہہ رہا تھا، ’’ہم ظالم لوگ ہیں، ظالم لوگ! سادات خاندان کے معصومین پر ہونے والے جبر کو چپ چاپ سہہ گئے۔ ہم باطل کی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ پہلے سیہون شریف میں سیاہ عَلم پر حضرت امام حسین کا سر دکھائی دیا ہے۔ ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کی مسکراہٹ حقیقت میں حق کی فتح ہے۔ سیہون شریف کے بعد اب سیٹھارجہ اور پیر وسن میں بھی امام عالی مقام کی شبیہ نظر آئی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہاں۔ معجزہ ہے، معجزہ!‘‘

نذیر اور حیدری اس کی باتوں پر اور اس کے جذباتی انداز پر ہنستے رہے۔

حیدری نے مذاقاً اس کے چٹکی لی۔ ’’بھنگ اور چرس پی کر تو چاروں طرف شبیہیں ہی شبیہیں نظر آتی ہیں۔‘‘

نورل جانتا تھا کہ اس کا والد وہابی ہے مگر وہ اس بات پر حیران بھی تھا کہ اس کے وہابی باپ نے آخر کیا سوچ کر اس کا نام حیدری رکھ دیا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر حیدری پھٹ پڑا۔ نذیر بہ مشکل ان دونوں میں صلح کروا کر انھیں چپ کروا سکا۔

وہ تینوں ہائی  سکول کے میدان میں جا بیٹھے۔ کھیل کا یہ میدان ناہموار تھا اور وہاں جابجا خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ نذیر کی فرمائش پر نورل چرس کا سگریٹ بنانے لگا۔ اس دوران حیدری چرس اور شراب کا موازنہ کرنے لگا۔ اس کے خیال کے مطابق شراب چرس سے بہت بہتر تھی۔ اس کی باتیں سنتے ہوئے پکوڑافروش کے لیے خاموش رہنا محال ہو گیا۔ وہ اس کے خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے چرس کی خوبیاں بیان کرنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ دونوں آپس میں الجھتے رہے۔ نذیر خاموشی سے گردوپیش کے ماحول کو دیکھتا رہا۔

چاند مشرقی سمت سے آسمان پر طلوع ہو چکا تھا۔ شام کی مدھم مدھم ہوا چل رہی تھی۔ سڑک تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بہت دور واقع پٹرول پمپ کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔

نورل نے چرس کا سگریٹ بنانے کے بعد اسے دیاسلائی دکھا کر سر کیا اور اس کا طویل کش لیا۔ اس کے بعد وہ کھنکھار کر گلا صاف کرنے کے بعد سنجیدگی سے کہنے لگا، ’’کل شمیم میری بیوی سے ملنے آئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی، کل وہ سچل سرمست کے مزار پر حاضری کے لیے درازہ شریف جائے گی۔ اس کے ساتھ اس کے شوہر کے علاوہ میری بیوی بھی ہو گی۔ وہ سب وہاں رات گزار کر صبح واپس آ جائیں گے۔‘‘

’’کیا اس نے میرے لیے کوئی پیغام بھیجا ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ میں بھی وہاں آؤں؟‘‘

’’ہاں، اس نے پیغام بھیجا ہے کہ تم ضرور آؤ،‘‘ نورل نے اسے سگریٹ تھماتے ہوئے کہا۔

نذیر نے سوال پوچھا، ’’کیا تم نہیں چلو گے؟‘‘

’’میں نہیں جاؤں گا بوہتار۔‘‘

’’اگر میں تم سے چلنے کی درخواست کروں تو؟‘‘

پکوڑافروش جواب دینے کے بجائے مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کی رضامندی پنہاں تھی۔

نذیر کے لیے پوری رات گھر سے باہر گزارنا مشکل تھا۔ اگر وہ چاچی سے اجازت مانگتا تو وہ اسے چاچے سے بھی اجازت دلا دیتی مگر وہ چاچی سے مدد مانگنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس کی گھر سے باہر شب گزاری کے حوالے سے خوامخواہ شک میں مبتلا ہو سکتی تھی۔

حیدری کے تعاون سے اس کی یہ دشواری حل ہو گئی۔ اس نے دکان پر جا کرچاچے غفور سے درخواست کی کہ کل رات ہنگورجہ میں اس کے رشتےدار کی شادی ہونے والی ہے اور وہ نذیر کو وہاں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ حیدری سے یہ سن کر چاچے غفور کو حیرت ہوئی کہ اس کے گھروالوں نے شادی کے موقع پر اس سے کپڑے کیوں نہیں سلوائے؟ حیدری نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ ان کے دور پرے کے رشتےدار ہیں اور دور کے رشتے داروں کی شادی کے لیے ایسے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوط دلیل سن کر چاچا غفورنے نذیر کو جانے کی اجازت دے دی۔

سچل سرمست کے مزار پر شب گزارنا دونوں دوستوں کی پرانی خواہش تھی۔ حیدری نے بھی اپنے والد سے جھوٹ بول کر درازہ شریف جانے کی اجازت حاصل کر لی۔

پکوڑافروش نے انھیں پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ وہ لوگ ڈھائی بجے والی بس سے پہلے ہنگورجہ جائیں گے، پھر وہاں سے بس تبدیل کر کے درازہ شریف کے لیے دوسری بس میں سوار ہوں گے۔

وہ دونوں قصبے کے مختصر سے بس اسٹاپ پر دوپہر ڈھائی بجے سے پہلے ہی پہنچ گئے اور کھڑکھڑاتی ہوئی گول باڈی بس کے قریب کھڑے ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ دوپہر کو قصبے سے باہر جانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی انھوں نے بس کی سیٹوں پر ایک رومال رکھ کر اپنے لیے نشستیں محفوظ کر لیں۔ وقت گزارنے کے لیے وہ دونوں مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔

کچھ دیر بعد انھوں نے دو عورتوں اور دومردوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ٹولی کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔ مرد آگے چل رہے تھے جبکہ دونوں عورتیں ان کے پیچھے آ رہی تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ پکوڑافروش تو اپنے پرانے اور بوسیدہ لباس میں تھا جبکہ شمیم کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر عجیب رنگ میں نظر آ رہا تھا۔ اس نے کلف سے اکڑا ہوا سفید لباس اور اس پر سرخ رنگ کی واسکٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ گردن میں اجرک، سر پر شیشے کے کام والی سندھی ٹوپی اور آنکھوں پر سیاہ چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ وہ میلہ گھومنے نکلا تھا۔

نذیر نے برقعے میں شمیم کو پہچان لیا۔ آج نذیر کو اس کی آنکھیں کچھ زیادہ ہی تابناک لگ رہی تھیں۔ نورل کی ادھیڑعمر بیوی بھی آج برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ شمیم نے بس پر سوار ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر اپنے ابرو سے ایک اشارہ کیا۔ نذیر اس اشارے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

تھوڑی دیر بعد جب انھوں نے ڈرائیور کو اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے دیکھا تو وہ دونوں بھی اندر جا بیٹھے۔ بس جو کھڑی ہوئی بہت دیر سے کانپ رہی تھی، بالآخر سٹاپ سے چل پڑی۔

پردہ دار عورتیں ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی تھیں جبکہ نورل اور ٹیلی فون آپریٹر داہنی طرف کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ نذیر سوچ رہا تھا کہ ہنگورجہ تک شمیم کا اسے اپنی گردن موڑ کر دیکھنا مشکل ہو گا۔ وہ حیدری سے اسی لیے اونچی آواز میں باتیں کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی آواز شمیم تک پہنچتی رہے۔ وہ باربار پہلو بدلتے اس کے جسم کی بے چینی کو محسوس کر رہا تھا۔ دفعتا ًاس کی نگاہ ڈرائیور کے سامنے لگے آئینوں پر جا کر ٹھہر گئی اور اس کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ سامنے لگے ہوئے ہر آئینے میں اسے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ نذیر کی آنکھیں ان آئینوں کے درمیان بھٹکنے لگیں۔

اس نے برقع پوش شمیم کو بھی ان آئینوں میں جھانکتے ہوئے دیکھ لیا۔ ان دونوں کی نظریں آئینوں میں باہم ملنے لگیں۔ اس نے اپنے شوہر کی موجودگی کی پروا کیے بغیر اپنا نقاب ذرا سا الٹ دیا اور زیرِلب مسکراتی اپنے نوخیز عاشق کو مستی بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔

نذیر بہت چوکنا بیٹھا تھا اس لیے اس نے کچھ ہی دیر میں بھانپ لیا کہ اس کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی کی طرف متوجہ تھا۔

شمیم کی نشیلی آنکھوں میں گم خود اسے باہر سے گزرتے ہوئے مقامات کا کوئی پتا نہ تھا۔ گول باڈی بس گرد اڑاتی سڑک پر چلتی رہی۔ اس کے اطراف میں کہیں گندم کا کھیت نظر آتا تو کہیں کماد کی فصل، کہیں لیموں تو کہیں کھجور کا باغ، اور کہیں کہیں سیم و تھور سے متاثرہ زمینیں بھی گزرتی جا رہی تھیں۔

سوا گھنٹے بعد وہ ہنگورجہ پہنچ گئے۔ یہ قصبہ سپر ہائی وے کے ساتھ ہی واقع تھا۔ اسٹاپ پر بس کے رکتے ہی سارے مسافر ذرا سی دیر میں نیچے اُترگئے۔ وہاں سے کوئی سواری سیدھی درازہ شریف نہیں جاتی تھی، اس لیے وہ لوگ مجبوراً سکھر جانے والی بس پرسوار ہو گئے جس نے انھیں رانی پور میں بابِ سچل سرمست کے قریب اتار دیا۔

وہاں سے ایک سوزوکی پر بیٹھ کر وہ درازہ پہنچے۔ شام ڈھلنے میں تھوڑی سی دیر باقی تھی، جب وہ سچل سرمست کے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔

مزار پر واقع مسجد میں لوگ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ہوا سے ہلتا، پھریرے کھاتا ہوا مزار کا سیاہ علم بہت بلندی پر قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ کشادہ اور وسیع لنگرگاہ میں ان قمقموں کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وضوخانے کے نلوں سے پانی بہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ مزار کے وسیع و عریض احاطے میں واقع قبروں پر فاتحہ پڑھتے اور لنگرگاہ کے فرش پر بیٹھ جاتے۔

حیدری اور نذیر مزار سے باہرٹھیلے والوں کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور چلغوزے خرید کر کھانے لگے۔ مزار پر پہنچتے ہی شمیم نے برقع اُتار دیا اور سر پر صرف چادر اوڑھ کر مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں اندر مزار کے احاطے کی طرف نہیں گئے۔ انھوں نے ٹیلی فون آپریٹر کے شک کو بھانپ لیا تھا۔ کسی بدمزگی سے بچنے کی خاطر انھوں نے فاصلے پر رہنے کا ارادہ کر لیا تھا۔

وہ دونوں چلغوزے کھاتے ہوے باہر ہی ٹہلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد نورل جوگی ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کے ہاتھ میں بھی کچھ چلغوزے تھما دیے اور مزار کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر واقع ہوٹل کی طرف چل پڑے۔

کوٹھڑی نما ہوٹل لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ وہاں اندر وی سی آر پر کوئی پنجابی فلم چل رہی تھی۔ وہ دونوں باہر چولھے کے پاس بنچ پر بیٹھ گئے جبکہ حیدری پنجابی فلم دیکھنے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔

نورل نذیر کے پاس بیٹھ کر ٹیلی فون آپریٹر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ نذیر کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے ہوٹل کے بیرے کے چائے کی پیالی لاتے ہی اس نے موضوع بدل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply