بلراج کومل کی افسانہ نگاری اور تنوع/شاہد عزیز انجم

بلراج کومل کے افسانوں میں جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ ان کے افسانوں کا “تنوع” ہے۔ یہ تنوع موضوع کا بھی ہے، تکنیک کا بھی اور اسلوب کا بھی۔ تنوع کی یہ کثرت اگر ایک طرف رنگا رنگی کا احساس پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف افسانہ نگار کی اس کوشش کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ زندگی اور اس کے واقعات اور مفروضات کو، طرح طرح سے دیکھا جائے۔

 

 

 

 

بلراج کومل کی نظموں میں ایک شائستہ، دھیما اور خوش اسلوب آہنگ ملتا ہے۔ یہ آہنگ تمام نظموں میں کم و بیش مشترک ہے۔ اس کے برخلاف افسانوں میں نثر کا آہنگ ہر جگہ ایک جیسا نہیں، کہانی کہنے کا انداز بھی ایک جیسا نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ افسانہ نگار اپنا آہنگ تلاش نہیں کر سکا ہے، بلکہ یہ ہے کہ افسانہ نگار کا نقطہء نظر بدلتا رہا ہے۔

زندگی اس کے سامنے تجربے سے زیادہ مشاہدہ کی شکل میں آتی ہے۔ تجربے کی شکل میں حاصل ہونے والی زندگی میں تجربے سے گزرنے والا شخص اپنے تاثرات اس طرح شامل کر دیتا ہے کہ سب تجربے ایک شکل میں سے مماثل معلوم ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک فطری صورتحال ہے اس سے گریز ممکن نہیں۔ اس کے برخلاف مشاہدے کی صورت میں حاصل ہونے والی زندگی میں مشاہدات کی بوقلمونی برقرار رہتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مشاہدہ بھی شاہد کا محتاج ہوتا ہے۔ اس معنی میں کہ دیکھنے والا جو کچھ دیکھتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ہر منظر میں اپنی شخصیت شامل کر دیتا ہے۔ لیکن یہ شخصیت بہرحال دیکھنے والی شخصیت ہوتی ہے تجربے کو انگیز کرنے والی شخصیت نہیں ہوتی۔ فلسفیوں نے اشیاء کی حقیقت کے معروضی نہ ہونے کا جو حکم لگایا تھا وہ اسی وجہ سے تھا کہ ہر حقیقت دیکھنے والے کو اپنی ہی آنکھوں کے حوالے سے نظر آتی ہے۔
غالبؔ بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں:
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیران ہوں، پھر مشاہدہ ہے کہ اس حساب میں

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مشاہدہ کی ہوئی حقیقت تجربہ کی ہوئی حقیقت سے زیادہ معروضی ہوتی ہے۔ اس لیے زیادہ متنوع ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ جو حقیقت جتنی معروضی نظر آئے گی اتنی ہی سچی بھی ہوگی۔ لیکن یہ الگ بحث ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مشاہدہ کرنے والا تجربہ کرنے والے سے زیادہ دیکھتا ہے۔ اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ”کھیل کے بارے میں تماشائی کو کھلاڑی سے زیادہ علم ہوتا ہے۔“

بلراج کومل کے افسانوں کا تنوع اسی نقطے میں مضمر ہے۔ وہ زندگی کو تماشائی کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے بیانیہ تکنیک کے کئی طریقے استعمال کیے ہیں۔ان کے بعض افسانے غائب اور سب کچھ جاننے والے راوی نے بیان کیے ہیں۔ ( کنواں، کرچیں، تصویر وغیرہ) تو بعض میں راوی واحد متکلم ہے( تیسرا کتا، دل ناتواں)۔ بعض میں راوی واحد متکلم ہے۔ لیکن وہ جن واقعات کو بیان کرتا ہے وہ خود اس پر نہیں گزرتے بلکہ وہ اوروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتا ہے( سائے کے ناخن, ایک آدمی کا قتل) اور کہیں راوی غیب تو ہے مگر جو واقعات ہیں وہ محض ایک شخص کے تاثرات اور مشاہدے ہیں ( آنکھیں اور پاؤں) کسی میں افسانہ در افسانہ ہے اور دونوں راوی واحد متکلم ہیں( روشنی روشنی)۔ کسی میں راوی بالکل مفقود ہے۔ اس کی جگہ تاثرات اور حافظے میں منتشر یادوں اور گزشتہ و آئندہ واقعات کی طرف علامتی اشاروں نے لے لی ہے ( جپسی گڑیا، پری کی رات وغیرہ)۔ جن افسانوں میں واحد متکلم راوی کا کردار کچھ اہمیت رکھتا ہے ان میں بھی اس کی حیثیت مرکزی نہیں بلکہ مشاہدے کی ہے (تیسرا کتا) لیکن بعض افسانوں میں مشاہدے کی شخصیت نمایاں ہونے کے باوجود خود صوفی رنگ بھی موجود ہے ( قلم کے ٹکڑے، ببول) یہ سب افسانے ایک پائے کے نہیں ہیں لیکن فی الحال صرف اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ ان افسانوں میں بیانیہ کے مختلف طریقے کم و بیش کامیابی کے ساتھ برتے گئے ہیں۔ لہٰذا ان کو پڑھتے وقت اس قسم کی تکرار کا احساس نہیں ہوتا جو ہمارے زمانے کے بعض بہت اچھے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ زیادہ تر افسانے ایک ہی کردار یا ایک ہی شخص کے تاثرات پر مبنی ہیں لیکن راوی کے تنوع کی وجہ سے اس بات کا احساس ناگواری کی حد کو نہیں پہنچتا۔

موضوع کے اعتبار سے دیکھیے تو تمام افسانوں میں معاصر دنیا بیان کی گئی ہے۔ لیکن بعض میں انسانوں کی بے حسی، نچلے متوسط طبقے سے ترقی کر کے متوسط طبقے تک پہنچنے والوں کی سطحیت اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ذکر ہے، (تیسرا کتا اور کرچیں)۔ کسی میں جدید زندگی میں تشدد اور اس تشدد کے روبرو ہم لوگوں کی بے پرواہی کا ذکر کیا گیا ہے ( ایک آدمی کا قتل)۔ بعض میں دانشوروں کی لایعنیت اور کھوکھے پن پر طنز ہے (قلم کے ٹکڑے ببول)۔ تو کسی میں زندگی کے غیر متوقع طور پر بھیانک ہو جانے کا ذکر ہے )/(سائے کے ناخن، کنواں اور تصویر ) میں اسرار کی کیفیت نمایاں ہے۔

زندگی عجیب بھی ہے اور پُراسرار بھی بلکہ بڑی حد تک ایبسرڈ بھی ہے۔ کیونکہ تصویر کے دو کرداروں میں سے ایک غریبی سے گزر کر کامیاب بزنس مین کی منزل پر پہنچ چکا ہے اور اپنے ماضی سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ لیکن آزاد نہیں ہو سکتا۔ دوسرا بھی غریب ہے اور کامیاب بزنس مین بننا چاہتا ہے۔ لیکن دونوں اپنی شخصیت اور وجود سے بے خبر بھی ہیں اور اس کے بارے میں عجیب و غریب تاثرات بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ، دونوں ایک تصویر کو اپنی تصویر سمجھتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ کسی پرانے کیلنڈر سے کاٹی ہوئی مجہول تصویر ہے۔ اسی طرح دونوں کی شخصیت اور وجود ایک طرف تو فرضی، اشتہاری اور مصنوعی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پُراسرار اور ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں۔

اسرار کی یہ کیفیت “کنواں” میں اور زیادہ نمایاں ہے۔افسانہ میں جس واقعے کو فریم میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے، وہ خود ناقابلِ فہم ہے۔ جب شہر میں جگہ جگہ پانی کے نل لگ گئے تو کنویں بیکار ہو گئے۔ پھر ایک شخص نے کنویں پھلانگنے کا مشغلہ تفریحاً اختیار کیا اور آہستہ آہستہ اس فن میں طاق اور مشہور ہو گیا۔ افسانہ غائب راوی کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔ اگر راوی واحد متکلم ہوتا تو ممکن ہے ہمیں گماں گزرتا کہ واحد متکلم ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے یا کوئی طنزیہ بات کہہ رہا ہے۔ راوی کے غیب ہونے کی وجہ سے ہمیں اس بات پر یقین کیے ہی بنتی ہے کیونکہ بات کچھ ایسی ناقابل یقین بھی نہیں، ہاں! ناقابلِ فہم ضرور ہے۔ہم سوچتے ہیں آئندہ چل کر بات صاف ہوگی، لیکن تھوڑی ہی دیر میں بات اور الجھ جاتی ہے کیونکہ کنواں پھلانگنے والا، مشق اور ٹریننگ کی غرض سے (کیونکہ اسے مقابلے میں حصہ لینا ہے) کنویں کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ایک کنواں جو اس کی مشق کے لیے بہت مناسب ہے ایک سوکھے سڑے شخص کی آماجگاہ ہے۔ جو تمام دنیا سے بیزار ہے، اسے سب لوگوں نے اپنے جبر و تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ اس کنویں پر خودکشی کے لیے آیا ہے۔ دونوں میں فلسفیانہ قسم کی تلخ کلامی ہوتی ہے۔ آخر کار، کنواں پھلانگنے والا سوکھے سڑے شخص کو اس بات پر راضی کر لیتا ہے کہ پہلے وہ کنواں پھلانگ لے۔ پھر خود کشی کرنے والا خود کشی کرے لیکن کنواں پھلانگنے والے کی پرزور جست ناکام رہتی ہے وہ کنویں میں گر جاتا ہے اور خودکشی کرنے والا وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔

افسانہ ہمارے سامنے کئی سوال کھڑے کرتا ہے لیکن تشفی بخش جواب نہیں ملتے۔ کنواں پھلانگنے والا زندگی کا پرستار، رجائی اور مثبت فکر کا مالک ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک مقابلہ اور ایک سماجی عمل ہے۔ خودکشی کرنے والا ہر چیز سے بیزار ہے، اسے کسی پر اعتبار و اعتقاد نہیں۔ کنواں پھلانگنے والا زندگی پر اصرار کرتا ہے تو خود کشی کرنے والا مرنے پر تلا ہے۔ لیکن موت کنواں پھلانگنے والے کی واقع ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے والا بھاگ لیتا ہے۔ کیا زندگی اس طرح کے غیر متوقع طنزیہ حادثوں کا نام ہے؟کیا وہ خود کشی کرنے والا کنواں پھلانگنے والے کی موت کا فرشتہ اور بہانہ تھا اور جان بوجھ کر اسی کام پر متعین ہوا تھا؟ کیا خودکشی کرنے والے کا فرار ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے، ان لوگوں کو بھی جو موت سے عشق کرتے ہیں؟ کیا کنواں پھلانگنے کے عمل میں کوئی تمثیلی اشارہ پنہاں ہے؟ اگر، ہاں، تو وہ اشارہ یہ ہے کہ کنواں پھلانگنے سے مراد انبیشن ہے اور زندگی ایک پل صراط کی طرح ہے اور جن لوگوں میں ایمبیشن ضرورت سے زیادہ ہے وہ اس پُل سے گر کر نیچے کہیں کنویں میں غرق ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوالات کی اس کثرت اور ممکن جوابوں کی فراوانی کی بنا پر یہ افسانہ کافکا کی یاد دلاتا ہے۔ اس اور بعض دوسرے افسانوں میں راوی کا لہجہ جذبے سے عاری اور بڑی حد تک خشک اور غیر ڈرامائی ہے۔ یہ لہجہ افسانے میں بیان کردہ واقعات کے انوکھے پن کو نمایاں کرتا ہے۔ جہاں جہاں بلراج کومل نے کرداروں کے جذبات اور تاثرات کو براہ راست بیان کرنے کی کوشش کی ہے وہاں استعجابیت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن اپنے بہترین لمحوں میں وہ خشک اور غیر جذباتی لہجے کو واقعات کے مقابلے میں ایک کنٹراسٹ کے طور پر پیش کرنے اور اس طرح اسرار کے تاثر کو شدید کرنے میں پوری طرح کامیاب رہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بلراج کومل کی افسانہ نگاری اور تنوع/شاہد عزیز انجم

Leave a Reply