• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) نگر خاص جانا ۔ راکا پوشی کے جلوے دانیال شو ۔ محبتوں کے چند پھول کیپٹن بابر کے حضور/سلمیٰ اعوان(قسط20-ب)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) نگر خاص جانا ۔ راکا پوشی کے جلوے دانیال شو ۔ محبتوں کے چند پھول کیپٹن بابر کے حضور/سلمیٰ اعوان(قسط20-ب)

تقریباً ایک گھنٹہ یہ تماشا ہوتا رہا۔ پھر دو مضبوط نوجوان وہاں آئے۔ دانیال ان کے کندھے پر بیٹھا اور محفل سے چلا گیا۔
جیپ میں بیٹھ کر میں نے اکبر سے پوچھا۔
‘‘ان پیشین گوئیوں میں کچھ سچائی بھی ہوتی ہے یا نری فراڈ باز ی ہے۔
اکبر نے گاڑی سٹارٹ کی۔
‘‘میں ان توہمات پر یقین نہیں رکھتا۔ دل لگی اور دل بہلاوے کے لئے یہ کھیل تماشے ٹھیک ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں’’۔
شفقت کا موڈ سخت خراب۔ وہ میرے اوپر خفا ہو رہی تھی۔
‘‘کمبخت دہشت سے جو مجھے ہارٹ اٹیک ہو جاتا تب ۔کیسے مزے سے وہاں بیٹھی رہیں؟ پلٹ کر ایک بار نہ پوچھا کہ زندہ ہے یا مر گئی’’۔
وہ تو دانیال کو بھی بے بھاؤ کی سنا رہی تھی۔
اکبر کی رسیلی باتوں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
‘‘آپ جب گلگت واپس جائیں۔ وہاں کسی دانیال عورت سے ضرور ملیں۔ دلچسپ باتیں سننے کو ملیں گی اور کچھ منتروں سے بھی آگاہی ہو جائے گی۔
‘‘آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ اکبر بھائی’’ شفقت کے لہجے میں تلخی ہی تلخی تھی۔
‘‘وہ تو ویسے ہی آگ ہے۔ اس نے میری طرف آنکھوں سے اشارہ کیا اور آپ اس پر تیل ڈال کر مزید بھڑکا رہے ہیں۔ نہ اس نے جنتر منتر سیکھ کر کیا پیری مریدی کا اڈا کھولنا ہے’’؟
‘‘کھول لینے میں ہرج بھی کیا ہے۔ چٹے ان پڑھ ‘جاہل اور فراڈئیے یہ کاروبار دھوم دھڑکے سے کر رہے ہیں۔ مجھ جیسی تو کچھ خدا خوفی بھی کر لے گی’’۔
اکبر اور خانم ہماری نوک جھونک سے محظوظ ہو رہے تھے۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ننگے پتھریلے پہاڑ، سروقد درخت، ٹوٹی پھوٹی سڑک، شور مچاتا دریائے نگر۔
‘‘بھوک لگ رہی ہے’’۔
شفقت اپنا سارا غصہ بھول کر میرے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی۔ میں نے غصیلے انداز میں اُسے گھورا۔
‘‘اتنی جلدی ہابڑا پڑ گیا ہے’’۔
پسٰن اور مناپن کے خوبصورت میدانی گاؤں کی دلفریبی موہ لینے والی تھی۔ مناپن وہ وادی ہے جہاں سے مہم جو راکا پوشی کی چوٹی سر کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھتے ہیں۔
میری آنکھوں کے سامنے وہ سب چہرے آگئے تھے جنہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے میں اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی۔ نوجوان ‘خوبصورت ‘امنگوں اور ولوں سے لدے پھندے وجود کچھ کر گزرنے کے خواہاں‘ تاریخ میں اپنا نام محفوظ کرنے کے آرزو مند۔ ان سے رخصت ہوتے سمے میں نے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ ان کی کامیابی کے لئے دعا مانگی تھی۔ یہ جرمن قراقرم کوہ پیماؤں کی ایک پارٹی تھی۔
مناپن کے پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر میرے دل نے ان جیالوں کے لیے دعا مانگی۔
‘‘خدایا ان کی یہ مہم سلامتی سے تکمیل کو پہنچے۔’’
وادی مناپن کی زرخیزی دیکھ کر میں حیرت زدہ تھی۔ لوگ جفاکش اور محنتی نظر آتے تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر دریا کے کناروں تک کوئی جگہ ایسی نہ تھی جسے آباد نہ کیا ہو۔ ناشپاتی’ خوبانی اور سیب کے درختوں کی بہتات تھی۔
ہم ایک چھوٹے سے گاؤں سے گزر رہے تھے۔
‘‘توشوٹ’’۔
اکبر نے گاڑی چلاتے چلاتے کہا۔
‘‘یہ بابر کا گاؤں ہے اور بابر کو تو آپ جانتی ہی ہوں گی’’۔
میں نے باہر دیکھا۔ چالیس پچاس گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی وادی۔ جنگ آزادی گلگت و بلتستان کے ہیرو کرنل مرزا حسن خان کے دست راست ‘گشپور شہزادے بابر کا گاؤں ‘‘توشوٹ’’
‘‘گاڑی کیوں بھگائے لئے جاتے ہو۔ رکونا یہاں۔ اس ہیرو کو خراج عقیدت دئیے بغیر ہی گزر جائیں گے’’۔
مجھے اکبر کے یوں بگٹٹ بھاگے جانے پر پہلی بار غصہ آیا تھا۔ شہتوت کے درختوں تلے گاڑی رک گئی۔
میں جس بیتابی سے باہر نکلی تھی شاید مجھے اس کا احساس نہیں تھا۔ لیکن غنچہ خانم نے محسوس کیا تھا اور جب میں اپنے گردوپیش کی ان فضاؤں میں کھوئی ہوئی تھی جن میں اس جیالے کے سانسوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ اس نے میرے قریب آکر کہا تھا۔
‘‘آپ کو اِس شخصیت سے بہت پیار لگتا ہے’’۔
میں نے فقط اسے دیکھا۔ جواب نہیں دیا۔ کچھ لمحوں کو گونگا ہ رکھنے میں ہی ان کا حسن مضمر ہوتا ہے۔ میں بھی چمکتی دھوپ میں لہراتے بل کھاتے فضاؤں میں ناچتے اچھلتے ان لمحوں کو اپنے جذبات کی کوئی زبان دنیا نہیں چاہتی تھی۔
پر یہ حقیقت تھی۔

شمالی علاقہ جات پر لکھنے کے لئے جب میں نے اس علاقے پر لکھا گیا لٹریچر پڑھا۔ جنگ آزادی کے جیالوں کی داستانوں کا مطالعہ کیا۔ ان کے بارے میں لوگوں سے سنا تب مجھے احساس ہوا تھا کہ میں مرزا حسن بابر اور شاہ خان سے بہت متاثر ہوں۔
پر بابر کی تصویروں نے مجھے لوٹ لیا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں سے پھوٹتی چمک تصویروں سے باہر آرہی تھی۔ اس کی فراخ پیشانی پر رقم اس کا عزم ‘اس کے چہرے کا بانکپن‘ ہونٹوں کے خوبصورت خم ‘اور ان پر گھنیری مونچھیں۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ قرون اوّل کے ان ہیروؤں جیسا تھا جن پر نسیم حجازی نے معرکتہ الآرا ناول لکھے تھے۔
‘‘یہاں آپ نے کیا کرنا ہے؟ فاتحہ پڑھ لیں اور چلیں۔ میں آپ کو نگر کے راجہ کا محل دکھانا چاہتا ہوں جو قدیم ہونے کے باوجود فن تعمیر کا نادر شاہکار ہے۔ وہاں بھی وقت چاہیے اور واپسی بھی کرنی ہے’’۔
اکبر میرے جذبات نہیں سمجھ سکتا تھا۔
میری نظریں پہاڑوں’ درختوں’ راستوں اور گھروں پر تھیں جن میں اس کا بچپن اور جوانی گزری تھی۔ پتہ نہیں کتنی دوشیزاؤں کے دل اس کے نام پر دھڑکتے ہوں گے۔ پر جانے ان میں وہ خوش نصیب کون سی ہو گی؟ جس نے اس کی روانگی کو نم آلود آنکھوں سے دیکھا ہو گا۔جب وہ فوجی وردی پہن کر میان میں تلوار لٹکا کر اور گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر وادی سے جہاد کے لئے نکلا ہو گا۔
اور اُجالے لاتی صبحوں اور تاریکیاں لاتی شاموں کے جلو میں جانے کتنی بار اس کے ہاتھ اس کی عافیت کے لئے اٹھے ہوں گے اور جب وہ غازی بن کر آیا ہو گا تب جانے کس والہانہ انداز میں اس نے اس کا استقبال کیا ہو گا ؟اور کیسے اس کے سینے سے چمٹی ہو گی۔ خوشی کے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے بہے ہوں گے؟
میں نے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ میری آنکھیں بند تھیں جب میں اس جیالے کے لئے فاتحہ پڑھ رہی تھی جو راجوں کی اولاد تھا۔ وہ راجے جنہیں ڈوگرہ حکومت سے بے شمار مراعات حاصل تھیں اور جن کی اکثریت پاکستان سے الحاق کی حامی نہ تھی۔ مگر اس نے مفادات کے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ دلیری اور بہادری کی نئی داستان کو رقم کیا تھا۔ قرون اول کے مسلمانوں کے نقش پاکو اپنایا تھا۔
‘‘بابر ہمیں  تم پر نازاں ہیں’’۔
میں جیپ میں بیٹھ گئی۔ میری آنکھیں نم تھیں جنہیں میں نے اپنی پوروں سے صاف کیا تھا۔

توشوٹ سے آگے زیادہ اونچائی کا سفر تھا۔ جیپ کی رفتار زیادہ تیز نہ تھی۔ بھوک زوروں پر تھی اور اکبر کہتا تھا کہ اسکر داس چل کر کھانا کھائیں گے۔ شفقت مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی تھی اور میں بھوک پیاس دونوں سے بے نیاز سیاحت کے مزے لوٹ رہی تھی۔
پھکر کے میدانی گاؤں کے بعد ہکوچر کا گرم پانی کا چشمہ دیکھا۔ یہ چشمہ انتہائی خوفناک جگہ پر واقع ہے۔ ہم اسکر داس کی خوبصورت وادی میں داخل ہو رہے تھے۔ گھڑیاں ساڑھے بارہ کا اعلان کر رہی تھیں اور وادی دن کے ڈھلنے کا۔ اسکر داس میں ٹکر پانی کے لئے جس گھر میں جا کر اترے ۔ماشاء اللہ وہاں مہمانوں کا ایک جم غفیر پہلے ہی موجیں مار رہا تھا۔ برآمدے میں سرخ سبز چادروں والی عورتیں ہی عورتیں اور آنگن میں بچے ہی بچے۔ مہمانوں اور میزبانوں میں تمیز کرنا مشکل تھی۔ باورچی خانے سے مصالحوں اور گوشت کی خوشبوئیں پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ شفقت سانس زور زور سے کھینچتے ہوئے کسی قدر مایوسی سے بولی۔
خوشبوئیں تو پاگل کئے دے رہی ہیں۔ بوٹی کوئی نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ اللہ جانتا ہے۔
‘‘شانتی رکھو۔ ایک بڑے عالم دین کے مہمان ہوئے ہیں۔ گھر والے خود بھوکے رہ لیں گے پر ہمیں بوٹیاں ضرور دیں گے۔
میں نے تسلی دی۔
اسکرداس اور اس سے ملحقہ گاؤں سمائر عالم دین’ مبلغین اور مشائخ پید اکرنے میں خصوصی شہرت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اسلامی علوم کی مختلف اصناف میں تحقیقی کام سے بہت نام پید اکیا ہے۔
میزبانوں کی اب کچھ کچھ پہچان ہونے لگی تھی۔ دو نوجوان عورتیں جن کا زیادہ وقت باورچی خانے میں گزر رہا تھا۔ توبہ شکن حسن کی مالک تھیں۔ سبز آنکھوں سے پھوٹتی روشنی براہ راست دل پر اثر کرتی تھی۔

ظہر کی نماز پڑھنے کا وقت ہو رہا تھا۔ ہمارے کہنے پر فوراً جائے نماز بچھا دئیے گئے۔ پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ وضو کرنے کے ساتھ تھوڑا پیا بھی۔ حلق سے پیٹ تک ٹھنڈک کا خوشگوار احساس ملا۔
کسری فرض ادا کرنے کے بعد دعائیں مانگنے میں کچھ وقت لگا۔ جب فارغ ہوئے۔ کھانا چن دیا گیا تھا۔ گھر میں آنے والے مہمان دو قسم کے تھے۔ ایک نیچے کے۔ دوسرے اوپر کے۔ اوپر کے مہمان ہسپر گاؤں سے آئے تھے اور نیچے والے پنجاب سے۔ دونوں کو کھانا ان کے رواج کے مطابق دیا گیا۔

دو بڑی پراتوں کے گرد عورتیں اپنے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ روٹی کی بُرکیاں اور شوربہ پراتوں میں اور بوٹیاں ہاتھوں میں کھانے کے ساتھ ساتھ ‘‘شنا’’ میں باتوں کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری تھا۔
ہمارے لئے کھانا کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ آلو گوشت کا شوربہ۔ بڑی بڑی تنوری روٹیاں۔ پیاز کھیرا اور ٹماٹر کٹے ہوئے۔
ہم تینوں نے گرسنہ انداز میں چیزوں کو دیکھا اور پل پڑے۔ بھوک کی شدت کا وہ عالم تھا کہ شفقت نے ڈونگے سے بوٹیاں نکالنے میں جب ذرا دیر کی۔ مجھ سے صبر نہیں ہو سکا بے اختیار بول پڑی۔
‘‘کچھ باقیوں کا بھی خیال کرو۔ ساری اچھی بوٹیاں تمہیں چاہئیں۔ ہاں ذرا جلدی کرو،کسی اور نے بھی سالن ڈالنا ہے’’۔

سیانے سچ کہتے ہیں۔ انسان کی پرکھ کے دو بڑے ذریعے سفر او رکھانے کا دسترخوان ہے۔ بندے کا اندر ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
سالن بہت لذیذ تھا۔ بھوک زوروں پر تھی۔ ڈٹ کر کھایا۔ سونے کے رنگ جیسے قہوے نے بہت لطف دیا۔

خوبصورت میزبان عورتیں ہمارے پاس بیٹھی ٹکر ٹکر ہمیں دیکھتی تھیں۔ ہم چاند جیسے انکے چہروں کو دیکھتے ہوئے پیدا کرنے والے کی صناعی کی داد دے رہے تھے اور سوچے جاتے تھے کہ آخر حسن جیسے انمول عطیات سے ہم کیوں محروم رہے۔ خانم مترجم کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۔ کیونکہ ہسپر گاؤں سے مہمان اور اسکر داس کے میزبان دونوں اردو کا ایک لفظ بھی نہ بول سکتی تھیں اور نہ سمجھ۔
شفقت نے یونانی خدوخال والی فزا کی طرف دیکھتے ہوئے خانم سے کہا ذرا پوچھو۔ تو میاں اسے دیکھنے کے لئے گھر کے کتنے چکر لگاتا ہے؟
‘‘یا اللہ فزا! شرمائی اور لجائی۔ اس کے چہرے پر قوس  ِ  قزح کے دھنک رنگ بکھرے۔ سچی بات ہے کہ فزا اور بتول فاطمہ حسن و رعنائی کے وہ شاہکار تھے کہ جنہیں بندہ سامنے بٹھا کر دیکھتا رہے اور جی نہ بھرے۔
خانم نے بتایا کہ ہسپر گاؤں کی خواتین وہاں آنے کی دعوت دے رہی ہیں۔
‘‘لو خود تو مہمان بنی بیٹھی ہیں’’۔ میں ہنسی۔
باہر سے بلاوا آگیا تھا۔ اس وقت جی چاہتا تھا کہ پھولوں والے نمدے پر دراز ہو جائیں۔ تکیہ سر کے نیچے رکھیں اور اس دنیا میں پہنچ جائیں۔ جسے خوابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ کسی نئی جگہ کو دیکھنے کی تمنا نہیں تھی۔ تھکن اور نیند دونوں غالب تھیں۔
سب سے فرداً فرداً گلے ملے۔ ان کے رخساروں پر پیار کیا ور جواباً پیار لیا۔ جب گھر میں داخل ہوئے تھے تو کسی قدر بیگانگی اور اجنبیت نے خیر مقدم کیا تھا اور جب رخصت ہو رہے تھے’ محبت اور خلوص کی چمک دامن گیر تھی۔
اسکر داس سے حیدر خان حیدر ہمارے ساتھ شامل ہوا۔ اکبر کا دوست اس کا ہم عمر’ نوجوان اٹھائیس تیس کے سن میں۔ علاقے کے چپے چپے سے واقف۔
جیپ میں بیٹھتے ہی بولا۔
‘‘آپ کے لئے بہتر ہو گا کہ رات نگر خاص میں قیام کریں۔ صبح ہسپر وادی دیکھیں۔ ہسپر دیکھے بغیر نگر آنے کا فائدہ! یقین کیجئے میرے پاس الفاظ نہیں جو ہسپر کے حسن کو بیان کر سکیں’’۔
میں نے شفقت کی طرف اور شفقت نے میری طرف دیکھا۔
میرا خیال تھا وہ کہے گی ‘‘دفع کرو۔ ایسے ہی ننگے بچھے پہاڑ وہاں ہوں گے۔ بہتیرے دیکھ لئے ہیں۔’’
پر میری حیرت کی انتہا تھی جب وہ بولی
‘‘چلو دیکھ لیتے ہیں۔ اتنا پینڈا مارا ہے۔ حسرت تو نہ رہے گی کہ اتنے قریب پہنچ کر یونہی واپس لوٹ آئے’’۔

ہم ایک خوبصورت جامع مسجد کے سامنے تھے۔ عالیشان مسجد پچی کاری و چوب کاری کے بہترین کام سے مزین و آنکھوں اور دل کو طمانیت بخشتی کچھ ایسا ہی حال امام باڑے کا تھا۔ گھنٹہ یہیں لگ گیا۔
اتنی شدید تھکن تھی کہ نمدے پر بیٹھی تو پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیم دراز ہوئی اور کب سو گئی؟ جب آنکھ کھلی کمرے میں لالٹین جلتی تھی اور دسترخوان بچھا ہوا تھا اور شفقت اشتیاق بھری نظروں سے کھانے کو دیکھتی تھیں۔
خاتون خانہ نوجوان تھی۔ چاربچوں کی ماں پر ایسے متناسب جسم کی مالک تھی کہ ایک کی بھی ماں نہیں لگتی تھی۔
بڑا لذیذ پلاؤ تھا۔ کھا کر لطف آگیا۔
میں تو چائے پیئے بغیر ہی دوبارہ لیٹ کر سو گئی۔ صبح جلدی آنکھ کھل گئی۔ میں باہر جانا چاہتی تھی۔ مگر سب لوگ سو رہے تھے۔ بیرونی دروازے کا بھی نہیں پتہ تھا کہ کس طرف ہے؟ بہرحال چپکی لیٹی رہی۔ کمرہ اوسط درجے کی فیملی کا نمائندہ تھا۔
اس وقت بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب ناشتہ ہمارے سامنے لا کر رکھا گیا۔ چینی کی چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں پگھلا ہوا گھی معلوم ہوتا تھا۔ پلیٹوں میں موٹی موٹی روٹیاں تھیں۔ نمکین چائے کے پیالے تھے۔
اکبر ہنسا اور بولا
‘‘خالص مقامی ناشتہ ہے یہ۔ کھائیے۔’’
‘‘اسے درم پھٹی کہتے ہیں۔’’ حیدر خان نے وضاحت کی۔
گندم کو پانی میں بھگو کر دھوپ میں رکھنے سے کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ اسے سکھا کر آٹا بنایا جاتاہے اس آٹے میں بہت مٹھاس ہوتی ہے۔ ان پیالیوں میں گھی وی نہیں ہے۔ اخروٹ کا تیل ہے۔ لقمے توڑئیے اس تیل میں ڈبوئیے اور کھائیے۔
پہل حیدر خان نے کی۔ ہم بھی پیچھے چلے۔ سچی بات ہے۔ بہت لطف آیا۔ چائے پی اور شاد ہوئے۔
نگر خاص سے ہی ہماری واپسی ہو گئی۔ صاحب خانہ بتا رہے تھے۔ راستہ بہت خراب ہے۔ وہ حصہ تو یوں بھی ان دنوں نگر سے کٹا ہوا ہے۔ کچی سڑک بہت تنگ اور جابجا ٹوٹی پھوٹی ہے۔ اکبر کو بہت افسوس ہوا۔ وہ اپنے اخبار کے لئے کچھ فوٹو گرافی کرنا چاہتا تھا۔ پر سب سے زیادہ افسوس تو ہمیں ہو رہا تھا۔ حیدر خان نے ہسپر کے بارے میں جس انداز میں ہم سے باتیں کی تھیں۔ اس نے بہت مشتاق کر دیا تھااور اب کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے پیاسے انسان کو شربت کا گلاس تھما کر اس سے گلاس چھین لیا جائے۔
واپسی کے سفر میں ہسپر ہی زیر بحث رہا۔

ایک انوکھی اور منفرد وادی برف کے پہاڑوں سے گھری ہوئی۔ دامن سے چوٹی تک برف ہی برف’ نام کو کوئی درخت نہیں۔
حیدر کا کہنا تھا اگر ورڈز ورتھ کا کہیں ادھر سے گزر ہو جاتا تو وہ اس پر اتنا لکھتا کہ پوری دنیا میں ہسپر گونج جاتا۔ یہاں Mountain Golden کو دیکھنے کے لئے سیاح دور دور سے آتے ہیں۔ یہ پہاڑ چوٹی سے دامن تک سنہرا ہے۔
دریائے نگر کا منبع بھی یہی گاؤں ہے اور بلتستان کی وادی شگر میں بھی اس کے برفانی پہاڑوں پر سے جایا جا سکتا ہے۔
کاش میں ہسپر جا سکتی کاش میں گلیشیروں پر سے ہوتی ہوئی شگر پہنچ سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply