سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(2)-عدیل ایزد

زندگی کے آخری ایام:
آخری ایام میں اس نے حضرت مو ٰسی پر ایک تحقیقی کتا ب لکھی،جس کا نام مو ٰسی اور وحدت پرستی (Moses and Monotheism)ہے ۔یہ کتاب ۱۹۳۶ء میں لکھی جارہی تھی جو اس کی زندگی کا اسی واں سال تھا ۔دو سال بعد اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ویانا کو چھوڑنا پڑا کیونکہ نازیوں نے آسٹریا پر حملہ کردیا تھا۔ ڈاکٹر نعیم احمد فرائیڈ کی ویانا کو نہ چھوڑنے اورمجبوراً وہاں سے ہجرت کو اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :۔
۱۱مئی ۱۹۳۸ء کو نازی افواج نے آسٹریا پر حملے شروع کر دیے۔ اگرچہ فرائیڈ کی خواہش تھی کہ اس  کی بقیہ زندگی ویانا میں گزرے لیکن فرائیڈ کے لیے ویانا میں رہنا بہت مشکل ہو گیا چنانچہ اس نے ایک بار پھر بنی اسرائیل کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن سے ہجرت کی اور لندن میں پناہ گزیں ہوا ۔

حملے سے قبل ہی فرائیڈ حالات کی نزاکت سے باخبر تھا۔کیونکہ برلن کے چوک میں اس کی تصانیف نذرِ  آتش کی گئیں تھیں اور اس کا نام نازیوں کے معتوبین کی صف اول میں شامل تھا۔جب حالات زیادہ خراب ہونے لگے توفرائیڈ کے خاص دوستوں میں سے ڈاکٹر ارنسٹ جونز لندن سے اور یونان کی شہزادی میری پیرس سے ویا نا پہنچے ۔ویانا میں مسزڈوراتھی برمنگھم سے آکر فرائیڈ کے ہا ں پہلے سے ہی رہ رہی تھی ۔ ان تینوں نے اپنے اپنے ملک کے سفیروں پر زور ڈالا کہ وہ فرائیڈ کی حفاظت کے لیے کوئی قدم اٹھائیں لیکن فرائیڈ چونکہ آسٹریا کا باشندہ تھا وہ اس کو اپنی پناہ میں نہیں لے سکتے تھے ،ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ایک سفیر کی توجہ سے فرائیڈ زیادہ ظلم و ستم سے محفوظ رہا۔آخر کار حکومت انگلستان نے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ضروری اجازت نامہ بھی مل گیا لیکن نازیوں نے نارواسلوک روا رکھتے ہوئے فرائیڈ کے پاس جو کچھ بھی تھا چھین لیا۔فرائیڈ کی بیٹی انا فرائیڈ اور بیٹے ڈاکٹر مارٹن فرائیڈ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا ۔ان تمام مشکلات کے باوجود فرائیڈ جب پیرس پہنچا توامریکہ کے سفیر نے اس کا استقبال کیا ۔انگلستان نے اس کی کافی آؤ بھگت کی اور مختلف تنظیموں،سوسائیٹیوں اوراداروں نے اس کے شان شایان اس کی تعظیم کی ۔ایک طرف انگلستان جنگ کی لپیٹ میں تھا اور دوسری طرف فرائیڈ زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا۔یہاں وہ زیادہ دیر تک اپنے علمی مشاغل جاری نہ رکھ سکا کیونکہ اسے جبڑے کا کینسر تھا۔جبڑے کے کینسر اوراس کے درد کی وجہ سے اس کی حالت خراب تر ہوتی گئی اور یہی بیماری اس کی موت کا سبب بنی ۔اسی طرح فرائیڈ ۲۳ستمبر ۱۹۳۹ء کو اس جہا ِن فانی سے رخصت ہو گیا۔

ویانا کا سیاسی و سماجی پس منظر:
سگمنڈ فرائیڈ کی ابتدائی ذہنی نشوونما ، شخصیت ،افکار اور نظریات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے فرائبرگ کے قصبے اور ویانا کا سرسری عصری جائزہ لیاجائے۔محل وقوع کے اعتبارسے فرائبرگ جس کا لغوی معنی آزاد پہاڑ ہے ،سلیشیا (Silesia) کی سرحد کے ساتھ جنوب مشرقی موراویا کا ایک قصبہ ہے اور ویانا ایک سو پچاس میل دور شمال مشرق میں واقع ہے۔فرائبرگ میں زیادہ تر رومن کتھولک آباد تھے اور کم تعداد پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی بھی تھی۔یہودی آبادی بامشکل دو فی صد تھی جس کی وجہ سے فرائیڈ اور اس کا خاندان اس ماحول میں اجنبیت محسوس کرتا تھا ۔
جب ہم فرائیڈکے زمانے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ویانا کی سوسائٹی میں عام طور پر ریا کاری اور کافی حد تک منافقت نظر آتی ہے ۔اسی طرح اس زمانے میں اگرچہ کھلے بندوں جنس کے متعلق بات کرنا قابل نفرین اور معیوب تصور کیا جاتا تھا ۔بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
فرائیڈ سے قبل ’’جنس‘‘ سے مراد وہ مخصوص کارکردگی تھی جس کا مر کزی نقطہ جنسی فعل کو قرار دیا جا سکتا ہے اس لئے عام لوگوں کے لیے یہ لفظ اچھا خاصہ ’’ ہَوّا‘‘ بنا ہوا تھا ۔ اور اس کے استعمال میں اتنا تکلف برتا جاتا کہ معالجین بھی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے جھجکتے تھے ۔لیکن نوجوان چھپ چھپا کر ممنوعہ لٹریچر خوب خوب پڑھا کرتے، عریاں ادب کی کتابیں عام تھیں اور انہیں بچے تک لے کر پڑھتے تھے کئی ادیب جو آج اپنے ادبی معیار کی وجہ سے نامور گنے جاتے ہیں جن میں فرانسیسی ناول نگار ایمل زولا سب سے زیادہ مقبول ہے اس زمانے میں اس کی کتابیں اس وقت کے نوجوانوں کے لیے زہر قاتل سمجھی جاتی تھیں اور نوجوان عورتوں کو ان کے پڑھنے پر پابندی تھی۔اس طرح اس کتابوں کی مقبولیت اور جاذبیت اور بھی بڑھ جاتی ۔اسی زمانے میں ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ متوسط طبقے کے ذہنوں پر اشتراکی ادب تسلط جما رہا تھا ۔اسی زمانے میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پاٹی کے لیڈر بیبل (Bebel) نے ایک کتاب شائع کی جس میں عورت کے حقوق پر بات کی گئی تھی ۔اس کتاب میں عورتوں کے مسائل پر جرأتمندانہ انداز میں بحث کی گئی تھی ۔اور باور کرایا گیا تھا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس کتاب نے کافی شہرت حاصل کی اور اس سے رجعت پسند حلقوں میں کھلبلی مچ گئی، ممنوعہ مسائل پر اس بے باکی سے تنقید کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ اگر اس قوم کا سیاسی پہلو دیکھا جائے تو اس وقت کے آسٹریا میں آئینی بادشاہت قائم تھی ۔آزادی کا دستور موجود تھا۔پارلیمان کے دو ایوان تھے اور ذمہ دار وزراء کی کابینہ بھی ،خود مختار عدالتیں اور حکومت کی پوری مشینری بھی موجود تھی۔لیکن اس کے باوجود داخلی طور پر یہ سارے ادارے بے جان تھے ۔ان کو ذرا بھر اختیار نہ تھا بلکہ حکومت کا سارا اختیا ر آسٹریا کے اسی (۸۰) خاندانوں میں تقسیم تھا ۔یہ امراء کی ایسی زبر دست جماعت تھی جس کی مخالفت کرنا تقریباً ناممکن تھا ۔ان امراء نے آپس میں رشتے ناتے کرلیے تھے اور یہی اسی خاندان ایک کنبہ بن گیا تھا۔

شیر محمد اختر اس دور کی سیاسی صورت حال کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔
اس دور میں زندگی کے ہر شعبہ میں ابہام تھا ظاہری طور پر سیاسی جماعتیں موجود تھیں ،انتخاب لڑے جاتے تھے، پارلیمنٹری مباحثے ہوتے تھے ،قانون پاس کیے جاتے تھے اور ان کی  تعمیل کے لیے دفاتر بھی موجود تھے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ ملک میں جمہوریت کے اصولوں پر حکومت کا نظام چل رہا ہے ۔لیکن یہ محض دکھاوا اور دھوکا تھا۔جس سے بیرونی دنیا کو مغالطہ دیا جاتا ۔ اس زمانے میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ’’اوپری طبقے‘‘ کی شفارش ہو، اگر کوئی برا ِہ راست ان تک نہ پہنچ سکتا تو اسے ایسے لوگوں کی تلاش ہوتی جن کو اس طبقے نے اختیا ر دے رکھے تھے۔اگر کوئی یہ چاہتا کہ قانون کی حدود کے اندر رہ کر اپنا مقصود حاصل کر لے تو یہ نا ممکن تھا۔مطلب براری کے لیے ایسے ذرائع اختیا ر کرنا لازمی تھا ۔عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے جو اعلانات کیے جاتے ان کی تعلق اصل فیصلے سے کم ہوتا تھا ۔قول و فعل میں کافی تضاد تھا ۔متوسط طبقے کے لوگ اشرافیہ کے نقش قدم پر چلنا فخر سمجھتے تھے اور نقل کرنے میں معمولی سے معمولی بات کا بھی دھیان رکھتے ۔ان کی دیکھا دیکھی میں یہودیوں کا امیر طبقہ بھی آگے بڑ ھ آ یا تھا اب مذہب بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ رہا تھا۔بلکہ دولت کی بہتات سے امیر یہودی اور غریب یہودی میں فرق ہونے لگا ۔ویانا کے لوگ موسیقی اور ڈراما کے دلدادہ تھے۔سترھویں صدی میں ویانا ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں عوامی تھیٹر کا رواج ہوا جب کہ یورپ میں بھی ابھی اس کا آغاز ہی تھا۔ادبی شہ پاروں کی بجائے ،پریوں کی کہانیوں اور مزاحیہ ڈرامے پیش کیے جاتے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فرائیڈ زندگی بھر ان چیزوں سے بے بہرہ رہا اور یہی ایک ایسا فن تھا جس سے اسے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ویانا کے لوگوں کو ان تمام باتوں میں دلچسپی کے باوجودانہوں نے ان معماروں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جنہوں نے ویانا کو اپنے کما ِل فن سے رونق بخشی تھی۔سنگیت کا عظیم فنکار اپنی زندگی کے آخری دور میں بے توجہی کا شکار رہا۔ اسی طرح کئی دوسرے ادیب،سائنسدان اور مفکروں کو بھی وہ عزت نہ ملی جس کے وہ حقدار تھے ۔ خود فرائیڈ نے ویانا کے لوگوں کی بے حسی کا ذکر کیا ہے کہ ’’تجزیہ نفس ‘‘کی تحریک کی مخالفت میں اہل ویانا نے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔دنیا کے کسی اور حصے میں تعلیم یافتہ طبقوں نے اتنی مخالفت نہ کی جتنا کہ اس کے اپنے شہر کے لوگوں نے کی ۔ فرائیڈ کی شخصیت ، طبیعت اور خیالات اس ماحول کے بالکل بر عکس تھے جو ویانا کاتھا ۔جس میں ایک طرف ریاکاری اوپری دلکشی اور تصنع پایا جاتا تھا۔اس کے ردعمل میں فرائیڈ نے بڑی شدت سے تلخ حقیقتوں کے قبول کرنے پر زور دیا تحقیقات کے ذریعے وہ باتیں دریافت کیں جن کا وہاں تصور بھی محال تھا۔ اور یہ کہنا درست ہو گاکہ فرائیڈ کے نظریات ایک طرح کا ویانا کے ماحول کا ر ِدعمل اور وہاں کے سماج سے بغاوت کا نتیجہ تھے۔

’’ تجزیہ نفس ‘‘کی مجالس:
سگمنڈ فرائیڈ کا یہ معمول رہا کہ ہر ہفتے کی شام وہ ویانا یونیورسٹی کے حال میں چند مخصوص لوگوں کو جو اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے ان کے سامنےاپنے نظریات بیان کرتاتھا ۔ ان لیکچرز کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہا اور سننے والوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ۔ان میں بیشتر لوگ علم حاصل کرنے یا سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے فضول بحث،اعتراضات، تنقیداور اپنی علمیت جتانے چلے آتے تھے جس سے ان لیکچرز کا اصل مقصد فوت ہونے لگا اور آخر کار یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ۔اس کے بعد فرائیڈ کبھی کبھار ہی تقریر کیا کرتا یا پھر تجزیہ نفس کی مجالس میں خطبات دیتا ۔ تجزیہ نفس کی مجالس کی چیدہ چیدہ باتیں یہ تھیں:۔
• شروع میں با قا عدہ ممبران کی تعداد چھ سات ہوا کرتی بعد میں یہ تعداد بڑھ کر پندرہ تک جا پہنچی۔یہ وہی لوگ تھے جو بعد میں تجزۂ نفس کے رکن بنے ۔
• اس زمانے میں جو مسائل سامنے آتے یا نئے نظریات کا پرچار ہوتا ان پر مجالس میں بحث و مبا حثہ ہوتا ۔خواب کی تعبیر ،لا شعور،جنسی دباؤ ،نیوروسس کی ترکیب ان مجالس کے محبوب ترین موضوعات تھے ۔
• اراکین مجالس نے انہی نظریات کی روشنی میں آرٹ ،ادب اور سماجی مسائل کی چھان بین شروع کی جس سے نیورسسز اور خوابوں پر تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ۔
• ان مجالس میں بحث کے دوران فرائیڈ کا کہا ہو ا حرف آخر نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنے نظریا ت دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتا ۔چنانچہ تجزیہ نفس کی مجلس میں بر ملا اعتراضات کیے جاتے ۔ان پر گرما گرم بحثیں ہوتیں ،فرائیڈ اس میں بڑ چڑ ھ کر حصہ لیتا اوریہ بھی ہے کہ وہ اپنے مخالفوں پربھی بڑھ چڑھ کر تنقید کرتااور ان کی تحلیل نفسی پرتنقید کا جواب دینے میں سخت سے سخت بات کہنے سے نا چوکتا۔ان بحثوں میں اس نے کئی بار سخت الفاظ بھی کہے مگر کبھی علمی بحث کو ذاتیات یا انا کا مسئلہ نہیں بننے دیا اور ساتھ ہی کبھی اصولوں سے انحراف بھی نہیں کیا ۔

فرائیڈ کے رفقائے کار اور شاگرد:
الفریڈ ایڈلر :
تجزیہ نفس کی مجلس کا کام وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا جس کے متعلقہ امور کو نمٹانے کے لیے کسی قابل اور ہونہار ساتھی کی ضرو رت محسوس ہوئی ،تو فرائیڈ نے یہ کام اپنے ایک دوست ڈاکٹر الفریڈ ایڈرلر کے سپرد کر دیا ۔ اسےاس مجلس کا صدر مقرر کیا گیا۔فرائیڈ اور ایڈلر اپنی اپنی تحقیق میں جٹے رہے اور تجزیہ نفس کی بہت سی باتوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ جہاں اس اضافے نے تحقیق کی نئی راہیں کھولیں وہیں دونوں کے درمیاں کئی اختلافات کو بھی جنم دیا۔آخر کار اس کا نتیجہ ایڈلر اور فرائیڈ میں اختلافات کی صورت میں نکلا ۔

فرائیڈ اور ایڈلر کے اختلافات:
بچے میں جنس کی موجودگی ،دباؤ (Repression) اور لاشعور کے متعلق دونوں کے درمیان اختلافات درآئے تھے۔ایڈلر کا ان اہم مسائل سے انکا ر تجزیہ نفس کے بنیادی اصولوں سے انکار تھا ۔جس کی وجہ سے اسے اس تحریک سے جدا ہونا پڑا ۔یہ اختلافات تحریک کے لیے بہت بڑ نقصان اور فرائیڈ کے لیےبھی کٹھن مرحلہ تھا۔ کیونکہ بہت سے دوسرے ارکان بھی تجزیہ نفس کی تحریک چھوڑ کر ایڈلر کے پاس چلےگئے ۔ان لوگوں میں کچھ لوگ وہ بھی تھے جنھوں نے فرائیڈ کے سخت اصولوں کے خلاف احتجاجاًرد عمل ظاہر کرتے ہوئے فرائیڈ کو چھوڑ دیا۔اب اس تحریک میں دو گرو ہ تھے ۔ایک فرائیڈ کے ہم خیال ،دوسرے ایڈلر کے۔ ایڈلر نے اپنی تحریک کا نام سوسائٹی فار فری سائیکو انیلسز(آزاد تجزیہ نفس کی انجمن ) رکھا لیکن بعد اس کے بجائے ’’انفرادی نفسیات‘‘ کا نام تجویز کیا گیا۔

فرائیڈ اور ژونگ
فرائیڈ کے دوستوں میں دوسرا بڑا نام ژونگ کا تھا۔ایڈلر کے بعد ژونگ ہی، فرائیڈ کے ساتھیوں اور دوستوں میں سے لائق اور قابل اعتبار شخص تھا۔ فرائیڈ نے ایڈلر کی علیحدگی کے بعد ژونگ کواپنی تحریک کا صدر منتخب کیا۔ ۱۹۰۷ءمیں فرائیڈ اور ژونگ مل کر کام کر نے لگے ،فرائیڈ ژونگ کی قابلیت کا اعتراف کرتا تھا اوراسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا ایڈی پس الجھن، تلازمہ خیال کا تجزیاتی طریقہ ژونگ ہی کی دَین ہے۔یہ رفاقت بھی کچھ زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور ایڈلر کی طرح فرائیڈ اور ژونگ میں بھی اختلافات سر اٹھانے لگے اور نوبت علیحدگی تک جا پہنچی ۔علی عباس جلال پوری ان دو نوں کے تعلقات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔
۱۹۰۷ء میں فرائیڈ اور ژونگ مل کر کام کرنے لگے ۔ ایڈی پس الجھن بھی ژونگ کی دین ہے۔شروع شروع میں فرائیڈ نے اسے قبول کرنے میں تامل کیا لیکن بعد میں اسے اپنا لیا اور اسے تحلیل نفسی کا سنگِ بنیاد قرار دیا ۔تلازمۂ خیال کا تجزیاتی طریقہ کار بھی ژونگ ہی کا وضع کیا ہو اہے جس کا فرائیڈ اور اس کے پیرووں نے خیر مقدم کیا اور اس سے کام لیا ۔چھ برس کی رفاقت کے بعد فرائیڈ اور ژونگ کے درمیان اختلافات رونما ہونے لگے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ژونگ نے شخصی لاشعور اور اجتماعی لاشعور میں فرق کرنا شروع کیا جو فرائیڈ کو کسی طرح گوارہ نہ تھا ۔اس کے ساتھ دوسرے امور میں بھی اختلاف رائے ہوگیا اور ژونگ فرائیڈ سے الگ ہو گیا ۔

فرائیڈ اور ژونگ کے اختلافات کے چیدہ چیدہ نکات
۱۔ ژونگ نے فرائیڈ کے لاشعور پر اپنے اجتماعی لاشعور کا اضافہ کیا ہے ۔ژونگ نےفرائیڈ کےلا شعور (Unconscious) (Ego) ایگو اور سپرایگو (Super Ego) جیسی بنیادی اصطلاحات کو رد کر دیا جو اس کے نظریات کا بنیادی ستون تھے۔
۲۔ فرائیڈ اختلال نفس کے اسباب و علل،بچپن کے لاشعوری دباؤ میں تلاش کرتا ہے جبکہ ژونگ لاشعوری دباؤ کا نہیں مانتا اس کے خیال میں لوگ شعوری طور پراپنے ناگوار تجربات کو دبا دیتے ہیں ۔ژونگ اختلا ل نفس کی تشخیص میں ماضی کے بجائے حال کی واردات کو اہمیت دیتا ہے اور وہ فرائیڈ کے ایڈی پس الجھن کے نظریے کو بھی اہمیت نہیں دیتا ۔
۳۔ ژونگ طفلی جنسیت کوبھی نہیں مانتا اور نہ ہی ذہنی ارتقاء پر اس کےاثرات کا قائل ہے ۔وہ ایک برس سے چار برس تک کی عمر کے مرحلے کو ماقبل جنسیاتی دور کہتا ہے ۔بچوں میں ایذا کوشی اور ایذا پسندی کو بھی نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ یہ رحجانات صرف بالغوں میں ہی ہوتے ہیں ۔
۴۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ الجھنیں صرف علالت کی علامات ہیں ۔ژونگ کہتا ہے کہ صحت مند لوگوں کے ذہنوں میں بھی الجھنیں پائی جاتی ہیں ۔
۵۔ ژونگ نے خواب کے عمل میں فرائیڈ کے جلی و خفی پہلوؤں ،محتسب اور ثانوی ترتیب سے انکار کیا ہے ۔فرائیڈ کہتا ہے دبائی جانے والی قوت خوابوں کی اصل شکل و صورت بگاڑ دیتی ہے ۔بقول ژونگ خواب اصل شکل و صورت میں آتے ہیں اور داخلی صداقت کی ترجمانی کرتے ہیں نیز خوابوں میں پیش گوئی کا عنصر موجود ہوتا ہے ۔اور خواب کی ظاہر ی شکل ہی اس کی اصل صورت ہوتی ہے ۔ژونگ فرائیڈ کی طرح خواب کی تحلیل نہیں کرتا بلکہ اجتماعی لاشعور کے حوالے سے ان کی تشریح کرتا ہے۔
۶۔ فرائیڈ مذہب کو فریب احساس سمجھتا ہے لیکن ژونگ کہتا ہے کہ انسان فطری طور پر مذہبی احساس سے متصف ہے۔فرائیڈ خدا کے تصور کو ابوی الجھن کی پیداوار سمجھتا ہے ۔روح کو قدیم انسان کاواہمہ قرار دیتا ہے اور حیات بعد ممات کی تشریح آرزو پروری سے کرتا ہے جبکہ ژونگ کہتا ہے کہ یہ عقائدبوڑھے لوگوں کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں اور ان کو موت سے مفاہمت کرنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔
۷۔ فرائیڈ کے خیال میں آرٹ روز خوابی (Day Dreaming)کا نتیجہ ہوتے ہیں جس کے ذریعے فنکا ر اپنی ناآسودہ خواہشات کی تشفی کر لیتا ہے اس کے برعکس ژونگ آرٹ میں بھی اجتماعی لاشعور اور اس مظاہر ضمیاتی قصوں وغیرہ کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ فنکار اپنے آرٹ کے ہاتھو ں میں آلہ کا ر کی ماند ہوتا ہے۔ علی عباس جلال پوری فرائیڈ اور ژونگ کے نظریات میں بنیادی اور اہم وجہ لاشعور کے تصور کو سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں:
فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی اور ژونگ کی تحلیلی نفسیات آج کل اسے الجھن کی نفسیات کہا جاتا ہے میں بنیادی فرق لاشعور کے تصور کا ہی ہے ۔جس باعث ژونگ کو فرائیڈ سے جدا ہونا پڑا تھا ۔اجتماعی لاشعور کو ژونگ کے مداح اس کا سب سے بڑا اجتہاد اور فرائیڈ کے پیرووں اس کی سب سے بڑی بدعت سئیہ سمجھتے ہیں۔
الغرض فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی اور ژونگ کی تحلیلی نفسیات میں بنیادی فرق لاشعوو کے تصور کا ہی ہے ۔جس کی وجہ سے ژونگ کو فرائیڈ سے جدا ہونا پڑا ۔

شاگردانِ فرائیڈ
ان اختلافات اور علیحدگیوں کے بعد فرائیڈ نے اپنا حلقہ بہت محدود کر دیا تھا۔صرف دو شاگرد باقی رہ گئے جو اس کے کام میں مدد کرتے تھے ۔ ان میں ایک ہنس ساچس (Hans Sachs) اور دوسرا آٹو رینک (Otts rank) تھا۔ہنس ساچس آخر تک فرائیڈ کا وفادار رہا ۔آٹو رینک نے طویل عر صہ ساتھ گزارنے کے بعد علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا ایک نیا نظریہ قائم کر لیا۔آٹو رینک جب تک فرائیڈ کے ساتھ رہا کافی بڑا کام کیا ، تجزیہ نفس کے رسائل کی ترتیب میں اس کا اہم کردار رہا ۔تجزیہ نفس کے عملی پہلوؤں پرروشنی ڈالتے ہوئےاس نے ایک کتاب بھی شائع کی جس میں نئی نئی باتیں بیان کی گئیں ۔فرائیڈ کو اس پر بہت زیادہ اعتماد تھا لیکن اس نے اچانک ہی ایک ایسا نظریہ پیش کر دیا جس میں اس کے زندگی بھر کے کام پر پانی پھیر دیا ۔فرائیڈ کونہ چاہتے ہوئےبھی خود کو اس سے جدا کرنا پڑا۔

ب۔افکار و نظریات
فرائیڈ ذہنی حا لتوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ انہیں وہ اڈ (Id)، ایگو(Ego) اور سپر ایگو (Super Ego) کانام دیتا ہے۔ذہنی طور پر صحت مند فرد کی شخصیت کے یہ تینوں نظام آپس میں متوازن،مربوط اور ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔روزمرہ کے معمولات میں یہ اسی صورت میں نارمل اور متوازن رہ سکتے ہیں جب ان تینوں نظاموں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پائی جائے ۔اگر یہ توازن قائم نہ رہ سکے تو اس میں عدم تسویہ (Mal adjustment) اور ایب نارمل رویہ پیدا ہوتا ہے ۔جس سے فرد سماجی زندگی میں کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔اس سے قبل کہ ہم اڈ ،ایگو اور سپر ایگوپر تفصیلی روشنی ڈالیں اس سے پہلے شعور ،قبل شعور اور لاشعور جیسی اصطلاحات جنہیں فرائیڈ نے پہلے پہل اڈ،ایگواور سپر ایگو کے متبادل استعمال کیا تھا،پرنظر ڈالنا ضروری ہے۔جس کی تفصیل  اگلی قسط میں :

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply