آئل ٹینکراور تھنک ٹینک

ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب کوئی انہونی بہرحال ہوجاتی ہے تو پھر ہم ملاتے ہیں بیٹھ کر کڑیوں سے کڑیاں ۔ظاہر ہے انہونی ہونے کے بعد ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اسے نہیں ہونا چاہئے تھا مگر ہونی کوکون روک سکتا ہے اوراس کے ہونے کے بعد سر پیٹنا تو ہمارا پیدائشی حق بھی ہے، معاشرتی فرض بھی اور پھر لگ جاتے ہیں ہم آفاقی وجوہات پہ غور کرنے اور ماشاءاللہ سے دوسروں کی غلطیاں پوائنٹ آؤٹ کرنے کیلئے ہمارا تھنک ٹینک اپنی قابل قدر خدمات پیش کرنے کیلئے ہمہ تن حاضر رہتاہے۔ رمضان کی برکتیں ابھی جاری تھیں کہ پاکستان کے غریب عوام پر آفتیں ٹوٹنا شروع ہوگئیں۔ غریبوں کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ہر مصیبت یا آفت صرف غریبوں پہ نازل ہوتی ہے ،امراءشرفا کی حفاظت کیلئے تو آسمان سے مدد اترتی ہے اور قطر سے شہزادے۔
غریب کی بیٹی بیوہ بھی ہوجائے تو سرکار تک مدد کو نہیں آتی کیونکہ انهیں غریب علاقوں میں پہنچنے کیلئے موسمی تغیرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے ہیلی کاپٹرز نہیں اتر پاتے اور میں جو ہمیشہ فوج کے گن گاتی ہوں اس واقعہ پر شدید دکھ اور افسوس ہے کہ پارا چنار میں عید سے پہلے ان کا ہیلی کاپٹر نہیں اتر پایا ۔بہرحال وہ عید کے بعد وہاں پہنچ گئے اور جہاں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوں اور پوری دنیا کے عزت مآب ممالک کی طرح اسے دہشت گردی قرار دئیے جانے کی بجائے مذہبی اور لسانی تفرقے کا رنگ دیا جارہاہو ملک میں افراتفری ہو کراچی میں لوگ بارش سے مررہے ہیں تو پنجاب میں آئل ٹینک سے پوراملک پے در پے سانحات سے لڑکھڑا رہا ہو اور ایسے میں ہمارے وزیراعظم اپنی عظیم فیملی کے ساتھ لندن میں عید منانے پہنچ گئے ویسے اصولاًتو لوگ لندن سے عید منانےپاکستان پہنچ رہے ہوں گے مگر بات یہ ہے کہ آپ کی فیملی آپ کا گهر کہاں ہے تو وزیراعظم اور ان کی فیملی کے قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے گهر تو واقعی لندن میں ہی ہیں کتنا تکلیف دہ وقت تها پاکستان کیلئے جہاں وزیراعظم کو جائے سانحات پہ پہنچنا چاہئے تها وہ سب کو بهاڑ میں ڈال عید منارہے تهے اور سارا حساس معاشرہ یہ سوچ رہاتها کونسی عید، کاہے کی عید ۔ہم نئے کپڑے پہنیں کہ مرنے والوں کے دکھ میں ان کے گهر والوں کے ساتھ شریک ہوکر اس تکلیف میں کسی حد تک کمی کا باعث بن سکیں۔
لوگوں نے تیل کے ٹینکر سے مرنے والوں کے بارے میں بہت سے مفروضے قائم کئے۔ اخلاقیات والوں نے اپنا دفتر الگ کهولا ہم یہ بهول گئے کہ یہ مارا ماری تو ہم پاکستانیوں کا مقدر ہے تیل سے جلنے والوں کا صرف ایک ہی المیہ تها غربت اور جہالت ۔لوگوں نے کہا کہ نہیں جی ادهر کوئی غریب نہیں تها سب گاڑیوں والے تهے جو تیل چرا رہے تهے، تیل تو مال غنیمت تها تیل کے پیچهے تو پوری دنیا ہے تو یہ تو بیچارے چند لوگ تهے غربت سے زیادہ بڑا مسئلہ جہالت کا تها جو پاکستان کا واقعی میں سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جہالت ایک اکائی نہیں بلکہ یہ پورا افق ہے جس میں اخلاقیات سے پیدل بندہ کچھ بهی کرسکتا ہے ۔ہماری یونیورسٹیاں تو جاہلوں کو ڈگریوں سے بهی نوازتی ہیں لالچ، حرص، ہوس، حسد یہ سب جہالت ہے مگر جہالت کا سیدها سادہ پہلو تو یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے جہاں آئل کا ٹینکر ہوگا ادهر آگ کا لگنا بہت عام سی بات ہے۔ یہ کوئی اتنا بڑا معمہ نہیں تها کہ مال غنیمت سمیٹنے والے سمجھ نہ سکے ہوں۔ سڑک پہ کوئی آئل ٹینکر جارہاہو تواس کے پیچهے بڑا بڑا لکها ہوتا ہے”خطرہ!فاصلہ رکهیں”لیکن پاکستانی قوم ثابت کرنا چاہ رہی تهی کہ وہ بہت بہادر ہیں کسی چیز سےنہیں ڈرتے یہ بہادری ملک کے دفاع کیلئے دکهائی ہوتی تو اصلی والے شہید ہوتے ویسے بهی ہمارے ملک میں نام نہاد شہیدوں کی تعداد دن بہ دن بڑهتی جارہی ہے اصلی شہید بیچارے منظرِعام تک آہی نہیں پاتے ۔
ہمارے ملک میں لاقانونیت ہر جگہ اور ہر موقع پر وافر مقدار میں موجود ہے۔ اپنے فرائض سے کوتاہی، دوسروں کی طرف امدادی امیدیں رکهنا لیکن کیا جائے سانحہ پر پہنچنے والوں کا یہ فرض تها کہ وہ پولیس اور ریسکیو والوں کو کال کرتے تاکہ کی بڑی آفت سے بچا جا سکتا ،مگر سب نے اپنے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی طرح اپنے ٹینک بهرنا شروع کردئیے، مگر افسوس امرا کبهی ختم نہیں ہوتے اور غریبوں کی چهوٹی سی چوری بهی پکڑی جاتی ہے قدرت کاقانون ہے یا ہماری کوتاہیاں۔ ہماری بے حسی بهی شاید ان واقعات کو فروغ دیتی ہے کیونکہ یہ بےحسی ہے جو بتاتی ہے کہ ہمارے دل کس قدر مردہ ہیں کہ ہم پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا ہمارے بازار ، ہماری رونقیں سب ویسے ہی قائم رہیں مطلب دو دن میں سینکڑوں بندے مرگئے اور ہماری میچنگ ہی ختم نہ ہوپائی عید کو منانے کی مگر کیا ہم واقعی عید ہی منارہے ہوتے ہیں ۔کرپشن جو کہ ہماری رگ رگ میں خون سے زیادہ رچ بس گئی آخر کئی نسلوں کی محنت ہے او پهر تین نسلوں کی محنت نے پاکستان کا بیڑا غرق کرکے رکها ہوا ہے اب یہ جو کرپشن شدہ خوراک اور آب و ہوا موجودہ نسلوں کو مل رہی ہے یہ ہماری قوم کو کس دہانے پر کهڑا کرے گی ۔
کرپشن کا جنم تب ہی ہوتا ہےجب وسائل سے زیادہ حاصل کرنے کی تڑپ لگ جاتی ہے اور بہت افسوس ہے کہ ہمارا میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور اندهادهند تقلید، حسد، حسرت بے جا دکهاوا ہمیں بہت تیزی سے اسی جانب لیکے جارہا ہے جہاں اچهے برے، حلام حرام اور اپنے پرائے میں کوئی تمیز باقی نہ رہے ہمارے تهنک ٹینک کو اپنا اصل رول ادا کرنا ہوگا ورنہ ہم سب ہوس میں راک اینڈ رول کرتے رہ جائیں گے آگ لگنا تو پهر یقینی ہے نا

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply