ایک غزل گو شاعر دوست کے نام ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا مکتوب

ستیہ پال آنندکا ایک مکتوب۔ایک غزل گو شاعر دوست کے نام، جس ک ترنم کی وجہ سے اس کی شہرت کا ڈنکا بر صغیر اور باہر کے ملکوں میں بھی بجتا ہے۔ مکتوب الیہ کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب گلو کاروں کا لیکھا جوکھا آج ہمارے سامنے ہے، جنہوں نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں غزل گائیکی کے فن کو عروج تک پہنچایا۔یہاں تک کہ بسا اوقات شاعر سے اس کی غزل سنانے کے لیے فرمائش کرتے وقت یہاں تک شائقین کا ذوق گواہی دیتا ہے، کہ جگجیت سنگھ والی غزل سنایئے ۔۔۔۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ بیسویں صدی سے پہلے یعنی اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں غزل گائیکی کی کوئی روایت ہندوستان میں نہیں تھی؟ مزید برآں یہ کہ کیا ایران میں فارسی غزل کے دور شباب میں غزل کو صرف تحت اللفظ پڑھا گیا یا اس کی قرآت سازندوں کے اشتراک سے بھی کی گئی؟

اس کے علاوہ کیا ہمیں اس بات کا بھی کچھ پتہ چلتا ہے کہ فارسی میں غزل کی عظیم اور دیر پا روایت کے دوران، جو صدیوں پر محیط رہی، کیا مشاعروں یا محفلوں میں اسے ترنم سے بھی پڑھا گیا؟ میرے ایرانی طلبہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آج بھی، یعنی اکیسویں صدی میں بھی، محافل میں غزل ، جسے بسا اوقات قصیدہ کہا جاتا ہے، ایران میں ترنم سے نہیں  پڑھی جاتی، بلکہ تحت اللفظ ہی سنائی جاتی ہے۔

غور فرمائیے، “سنائی جاتی ہے” ۔۔۔ “پڑھنا” اور “سنانا” ان دو الفاظ میں بہت فرق ہے۔

ہمارے ہاں غزل “سنائی” جاتی ہے، “پڑھی” نہیں جاتی۔۔۔۔لفظ “سنانا” ہماری زبانوں میں جس عمل کی عکاسی کرتا ہے، وہ یورپ کی سب زبانوں میں نا پید ہے۔ میری “غیر ناقص” معلومات کے مطابق اردو کے اس جملے کا انگریزی میں (یا یورپ کی کسی زبان میں بھی) ترجمہ گھما پھرا کر تو کیا جا سکتا ہے، لیکن براہ راست نہیں کیا جا سکتا۔ جملہ یہ ہے : “میں نے اسے اپنی غزل سنائی”۔ فارسی میں بھی اس جملے کا ترجمہ تشنہ ء تکمیل رہ جاتا ہے۔

کیا اب میں یہ کہنے کی جرات کروں کہ صنف غزل “ادب بالذات” (لٹریچر پراپر) کی شرا ئط پر پوری نہیں اُترتی۔ اسے “اوریچر” یعنیOrature (Oral Literature)
کہنے میں کیا حرج ہے؟ جب کہ ہم کبھی یہ نہیں کہتے،کہ ہم نے ایک غزل “لکھی”۔ ہم کہتے ہیں، غزل “کہی”۔ اسی مناسبت سے “کلام” اور “سخن کی تلمیحات استعمال کی جاتی ہیں۔ متن یا “ٹیکسٹ” کی نہیں۔”

اخترالایمان (مرحوم) نے میری کتاب “لہو بولتا ہے” کے دیباچے کے ایک پیراگراف میں لکھا تھا۔ “ہم میں سے بیشتر نقاد صفت شاعریا قاری جب نظم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں تو غزل کے لوازمات کو پیمانہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے یہ بھی شکایت ہے کہ غزل اور بے غزلی کی بحث میں پڑنا ادب اور بے ادبی کی بحث میں پڑنے کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔ میں تو صلح کُل انسان ہوں، اس لیے میں نے اس بحث کو طول دینا مناسب نہیں سمجھا، ستیہ پال آنند مردِ  میدان ہیں اور چونکہ اپنی بات سیدھے اور چبھتے ہوئے الفاظ میں کہتے ہیں اس لیے اس عتاب کے حقدار بھی ہیں جو ان پر نازل ہو رہا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

غزل کی تفسیر جس پر آج بھی ہم چل رہے ہیں، وہ یہ تھی۔ “بازی کردن ِ محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث ِ محبت و عشق زناں۔”

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply