رابندر ناتھ ٹیگور کا بچپن۔۔سلمیٰ اعوان

۱۹۶۹ اور۱۹۷۰ میں جب میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی ٹیگور سے میری محبت کا آغاز ہوا تھا۔ٹیگور بارے میں نے کسی ایک سے کسی ایک وقت میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں سے مختلف ٹکڑوں میں سنا۔ میں انہیں لکھ لیتی تھی۔ یہی لکھے ہوئے کاغذ ڈھاکہ یوینورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میرے ساتھ لاہور چلے آئے تھے۔ انہی سنبھالے ہوئے ٹکڑوں کو میں نے کھولا ہے۔

7نومبر1969ء

ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی کا دھیرے دھیرے اضافہ ہو رہا ہے۔ اوپر تلے کی کلاسوں نے تھکا دیا ہے۔ میں نے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے چادر کو اپنے اوپر ڈال لیا اور آنکھیں ذرا آرام کی غرض سے موندلی ہیں۔

تبھی فینی میری روم میٹ کی ’’ باپ رے باپ ‘‘ کی آواز نے چونکا دیا ہے۔ کیا ہوا؟ میری آنکھوں میں استفہامیہ سی علامات محسوس کرتے ہوئے وہ بولی۔

’’رابندر ناتھ ٹیگور چودہ بہن بھائی تھے اور وہ ٹھاکر گھرانے کا آخری بچہ تھا۔‘‘

فینی اپنے سامنے ایک موٹا سارسالہ کھولے پڑھتے ہوئے چونکی تھی۔

’’ تو اس میں کونسی تعجب کی بات ہے؟ میری نانی کے گیارہ بچے تھے۔ پرانے وقتوں میں بچوں کا یہی حساب کتاب ہوتا تھا۔ ہاں تم ٹیگور کو پڑھ رہی ہو۔‘‘

’’ ہاں آسائنمنٹ بنانی ہے۔‘‘

میری دلچسپی دیکھتے ہوئے اُس نے بلند آواز میں پڑھنا اور بتانا شروع کر دیا تھا۔ مہینہ مئی کا تھا۔ تاریخ سات اور سال 1861ء ۔ کلکتہ شدید گرمی اور حبس کی لپیٹ میں ہے۔ شہرکے قدیمی علاقے جوڑا سانگو کی ایک معزز شخصیت ریبندر ناتھ ٹھاکر کے گھر چودہواں بچہ پیدا ہوا ہے ۔اس نے رسالے کا ایک صفحہ کھولتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے کیا۔

’’یہ ہے وہ گھر۔‘‘

ایک عظیم الشان دو منزلہ کلاسیکل طرز تعمیرکی حامل عمارت جس کی بلند وبالا کھڑکیوں کی لمبی آ ہنی سلاخوں اور چوبی پٹوں نے بڑی انفرادیت دے رکھی تھی۔ درختوں اور پھول بوٹوں سے گھری کشادہ انگنائی والی ٹھاکر باڑی۔

ٹوپی اور کامدار پٹی والا گھیر دار مغلیہ سٹائل کا فراک پہنے چودہ سالہ خوبصورت لڑکا بھی فینی نے دکھا دیا تھا۔

گھر میں رابندر ناتھ کی بجائے رابی کے نام سے پکارا جانے والا یہ بچہ اپنے بچپن ہی سے بڑا منفرد اور عجیب سی عادات کا حامل تھا۔ بچے کی حرکات وسکنات بتاتی تھیں کہ ذہانت وفطانت میں غیر معمولی ہے۔ روایتی تعلیم سے اُسے کوئی رغبت نہ تھی۔ اسکول داخل کروایا تو بھاگ کر گھر آگیا۔ سرے سے ہی منکر ہو گیا کہ اسکول تو جانا ہی نہیں۔ میراتو وہاں دم گھٹتا ہے۔ مجھے تو متلی ہوتی ہے۔ اورینٹل سمیناری کے بعد بنگال اکیڈیمی اور پھر مشہور زمانہ سینٹ زیوئرس میں بھیجا گیا مگر کسی جگہ بھی یہ فطین بچہ ٹکنے کا نام نہ لے رہا تھا۔

کیسا بچپن تھا جو کھلونوں سے محروم تھا۔ کھلونوں سے کھیلنے ہی نہیں دیا گیا۔ سارا دن گھر کی چار دیواری میں رہتا۔ باہر نکلنے کا تب نہ رواج تھا اور نہ اجازت ملتی تھی۔ ٹیگور گھرانے کے اصول بڑے پختہ اور سخت تھے۔

فینی نے میری طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔

’’کیا یہ غیر فطر ی نہیں کہ آپ ایک بچے سے اُس کا بچپن ہی چھین لیں؟‘‘

میں چپ تھی۔ کہیں خیالوں میں ڈوبی کچھ سوچتی تھی۔

فینی نے سلسلہ گفتگو پھر جوڑ دیا ۔

اس بچے کے لئے باہر کی دنیا سے کٹاؤ کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔ بڑ ے کمرے کی کھڑکی سے باہر راہگیروں کو چلتے پھرتے،پھیری والوں کو سودے کے لئے ہانکیں لگاتے دیکھتے اور سنتے، گاڑیوں کو دوڑتے بھاگتے ، آسمان پر اڑتے پرندوں، بادلوں کو جھومتے،راتوں کو گھر کی چھت پر چاند اور ستاروں کو دیکھتے ،اُن سے باتیں کرتے وہ سوچ وفکر کی کن دنیاؤں میں رہتا تھا۔اُس کا احساس صرف اُسے تھا۔

یقیناً  یہ اس کے احساسات ہی تھے کہ جب اس نے بچوں کے لئے نظمیں لکھیں تو بی چتر سادھBichitrsaadh جیسی نظم میں ایک چھوٹے سے طالب علم کے جذبات واحساسات میں اُن کا بچپن ہی تو بولا ہے کہ جہاں بچہ کہیں پھیری والا، کہیں باغ کا مالی اور کہیں پہرے دار بننے پر مچلتا ہے کہ یہ سب کردار اپنی مرضی کے مالک اور کسی کے پابند نہ تھے۔ ذرا ایک بند دیکھیئے۔

ایک پھیری والا سر پر اپنی ٹوکری لئے

دیتا ہے صدائیں چوڑیاں لینا

اس کا دل جہاں جانا چاہے جاتا ہے وہ

لوٹ کر بھی اپنی مرضی سے گھر آتا ہے وہ

اس کو کیا پرواہ  گھڑی میں دس بجیں یا ساڑھے دس

اس کوجلد ودیر سے کیا ،اس کو کیسی پیش وپس

ایسے میں دل چاہتا ہے سلیٹ اپنی پھینک دوں

پھیری والا بن کے گلیوں میں یونہی پھرتا رہوں

ہم دونوں کھِلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔ سچ تو تھا کہ ایک عظیم انسان کے بچپن کے اِس پہلو نے کتنا مسرور کیا تھا؟

فینی ابھی کچھ اور پڑھنے ، مجھے سنانے اور نوٹنگ کرنے کے موڈمیں تھی۔ مگر باہر اُس کے نام کی پکار تھی۔ دربان لڑکا کہتا تھا۔’’ آپا آپ کا وزیٹر۔ ‘‘وہ ساڑھی کا پلّو ٹھیک کرتی اور چپل گھسیٹتی باہر نکل گئی۔

15 نومبر 1969ء

اس وقت ڈیڑھ بجا ہے۔ ڈپارٹمنٹ سے واپس آکر ابھی میں نے کمرے میں آکر کتابیں اپنی منی سی میز پر رکھی ہیں کہ جب فاخرہ کی آواز سنائی دیتی ہے۔کوریڈور میں ہی کھڑے کھڑے اُس نے دروازے کاپٹ ذرا سا کھول کر اندر جھانکتے ہوئے پوچھا ہے کہ مجھے کھانے کے لئے جانا ہے کیا؟

میں نے ساڑھی بدلنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی ہے۔ لمبے کو ریڈور میں چلتے ہوئے اس نے بتایا ہے کہ آج ٹیگور کے بچپن پر ایک کتاب اُسے لائبریری سے ملی ہے۔ اتنی دلچسپ ہے کہ لائبریری میں بیٹھے بیٹھے اُس نے آدھی سے زیادہ پڑھ بھی لی ہے اور اُسے ایشو کرواکے لے بھی آئی ہے، کمال کی کی لکھی گئی ہے۔

اور جب ہم دونوں بھات ماچھ کھاتی تھیں۔ وہ بولی تھی۔ گہرا دکھ اور تاسف اس کے لہجے میں گھل گھل کرباہر نکلتا تھا۔

’’اب کون آج کی اندھا تعصب رکھنے والی اِس بنگالی نسل کو سمجھائے کہ وہ جو بنگالی ادب کا باپ ہے۔ جس کی عالمانہ عظمت اور شاعری کا اعتراف ایک دنیا نے کیا۔ اُسے عربی فارسی پر کتنی دسترس تھی اور وہ حافظ کا کتنابڑا عاشق تھا؟ نہ صرف وہ بلکہ اُس کا باپ دیبندر ناتھ بھی۔اپنی مادری زبان بنگالی کے علاوہ، انگریزی، عربی، فارسی اور سنسکرت میں غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔ حافظ شیرازی کے دلدادہ تھے۔ ان کی بنگالی سوانح عمری میں حافظ کے اشعار جا بجا موتیوں اور نگینوں کی طرح سجے نظر آتے تھے۔

یوں بھی ٹیگور خاندان لباس، آداب، نشست وبرخواست اور بودوباش میں مسلمانوں ، اُن کی تہذیب، اُن کے فنون لطیفہ سے متاثر اور بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی نسبت اور تعلق رکھتا تھا۔اِس گھرانے کی ایسی ہی وجوہات پر ہندو ان کو ’’دھریوں‘‘ اور ہندونما مسلمان سمجھتے اور کہتے تھے۔

باپ نے اپنا کمال فن بیٹے کو چھوٹی سی عمر میں ہی دینا اور اُسے مشرقی علوم میں طاق کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ بلوغت تک آتے آتے اُسے اِن زبانوں پر دسترس حاصل ہوچکی تھی۔

پتلی مسورکی دال والی پلیٹ اٹھا کرفاخرہ نے منہ سے لگائی ۔ دو تین گھونٹ بھرے اور دکھی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔

’’اب ذرا تقابلی جائز ہ تو لو۔ تب اور اب کا۔ وہ اگر انقلاب کا زمانہ تھا تو یہ وقت کیانئے رحجانات کو اپنے اندر سمیٹنے اور وسعتیں دینے کا نہیں؟ وہ کیا بنگالی نہیں تھے؟ تھے مگر صاحب ظرف تھے اور یہ بنگلہ کے پرستارجو اُردو کا گلا گھونٹ دینے کے متمنی ہیں۔Son of the Soil کے نعرے لگانا ہی بس اُن کا منتہائے مقصود رہ گیا ہے۔

شا م کو پوکھر کنارے میں اُس سے ’’میرا بچپن‘‘ بارے سن رہی تھی۔

پہلی بھرپور یاد جس رُخ سے سامنے آتی ہے وہ شہر ہے کلکتہ شہر کا وہ قدیم ترین حصہ جہاں شاعر نے جنم لیا تھا۔جہاں بس، موٹر گاڑی، ٹرام کچھ بھی نہ تھا۔چھکڑے سار ا دن گردوغبار اڑاتے اور گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر کوچوان تابڑ توڑ چابکوں سے حملے کرتے تھے۔عورتوں کا اندر باہر جانا دم گھٹا دینے والی پالکیوں میں ہوتا۔ اگر کوئی عورت اچانک غیر مرد کے سامنے آجاتی تو اس کا گھونگھٹ فوراً آدھ گز نیچے آجاتا۔ گھر کی ڈیوڑھی پر بیٹھا دربان پورے گھر کی نگہبانی کرتا۔ اِن کرداروں کی تفصیل بڑی دلچسپ تھی۔

شہرمیں نہ گیس تھی نہ بجلی۔ جب مٹی کے تیل سے روشنی ہوئی تو پہلے پہل اسے بھی دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ تب گھروں میں نوکر ارنڈی کے تیل کے دیئے جلاتے۔ جس کمرے میں ہم پڑھتے وہاں دوبتیوں کا ایک دیا دیوٹ پر جلتا۔

ماسٹر صاحب ٹمٹماتی روشنی میں ” پہلی کتاب” کھولنے کا کہتے۔ پہلے تو میری جمائیاں شروع ہوتیں۔ پھر آنکھیں کبھی بند ہوتیں اور کبھی کھلتیں۔ اب ماسٹر صاحب کی پھٹکار دبے دبے لفظوں میں اس کا فلاں شاگرد پڑھائی میں اتنا ہوشیار ، فلاں لکھنے میں اتنا تیز، فلا ں کو یتا پڑھنے میں سونا۔ ایسی سب باتیں میرے سر پر سے ہوا کے کسی جھونکے کی طرح گزر جاتیں۔

اِن یادوں کا ایک اہم کرداربرجوشیور بڑے دلچسپ انداز میں سامنے آتا ہے۔ ٹیگور کی زبان میں کہ وہ ہم نظر انداز بچوں کی دیکھ بھال یعنی کھانے، نہلانے اور ہمارے دیگر جملہ امور کی نگرانی کے لئے لا یا گیا تھا۔ طبیعت بڑی لالچی تھی۔ ہماری تھالیوں میں کبھی کھانا پروس کر نہ رکھتا ۔ جب کھانے کو بیٹھتے تو ایک ایک پوری کو دور سے ہاتھ میں گھماتا ہوا دیتا اورپوچھتا کہ ’’اور چاہیے‘‘۔

یہ ’’ اور چاہیے‘‘ جس لب ولہجے میں کہتا اُس کا ایک ہی مطلب ہوتا ۔ بس کرو اب۔

میں تو بالعموم یہی کہتا۔ ’’ نہیں اور نہیں چاہیے۔‘‘

میرے دودھ کے کٹورے پر بھی اس کی حریصانہ نظر یں منڈلاتی ہی رہتیں۔

یہ کم کھانا بھی کچھ گھاٹے کا سودا نہ رہاکہ زیادہ کھانے والوں سے مقابلے میں توانائی میں کمزور نہ تھا۔

اِس طاقت اور توانائی کا ثبوت اِس بات سے ملتا تھا کہ جب جب سکول سے بھاگنے کو جی چاہتا ۔ منصوبہ بندی میں کوئی بھی بیماری مثلاً نزلہ ، زکام، کھانسی ، بخار وغیرہ سبھی ماتھے پر آنکھیں رکھ لیتیں۔ ٹھینگا دکھاتیں۔ اب انہیں بلانے کے لئے میرے طرلے منتیں ، کہیں پانی میں بھگویا ہوا جوتا پہن کر دن بھر گھومنا، کاتک کے مہینے میں کھلی چھت پر سونا۔ مجال جو اُسے مجھ پر ذرا سا بھی رحم آجائے۔ مجال تھا جو کچھ ہو جائے۔

کہانیوں کے سننے کا چسکہ اُن کی طلسماتی دنیا ، میرے خواب اور سوچیں ۔ پہلی بیٹھک برجو شیور کے پاس جمتی۔ رامائن سنتے سنتے کشوری چاٹو جے آجاتا۔ اُس سے رامائن کتھا نظم کی صورت سنی جاتی۔ اس کے گلے سے سخن کی لڑیاں جھرنوں کی سی اٹھکیلیاں اورکلیلیں کرتی بہتیں۔ یہ محفل جب ختم ہوتی میں ماں کے کمرے میں جاتا۔ ماں اُس وقت اپنی کاکی کے ساتھ تاش کھیل رہی ہوتی۔ میں جاتے ہی شور مچانا شروع کر دیتا۔ وہ فوراً ہاتھ کے پتوںکو پھینکتے ہوئی کاکی سے مخاطب ہوتی۔

’’ لے جاؤ اور کہانی سناؤ اُسے۔ جب تک یہ سونہیں جائے گا اس کا یہ غل غپاڑہ ایسے ہی رہے گا۔‘‘

ہم لوگ برآمدے میں رکھے لوٹے کے پانی سے پاؤں دھو کر نانی کو بستر پر گھسیٹ لاتے ۔ اب دیووں کی کہانی، راجکماری کی کہانی کب تک یہ چلتی۔ میں تو کہیں خوابوں کی دنیا میں چلا جاتا ۔ کہانی ہمیشہ میری کمزوری رہی۔ یہ دن میں بھی جب میں اکیلا ہوتا میرے ساتھ رہتی۔ کبھی پالکی میں، کبھی پیدل،کبھی کسی اڑن کھٹولے پر، کبھی جنگلوں میں، کبھی دریاؤں پر ۔

سچ تو یہ ہے کہ بچپن کی یہ تصوراتی سیر بڑے ہو کر دنیا کے اسفار کی صورت میں مجھے نصیب ہوئی ۔ گھر سے باہر نکلنے کی پابندی نے سفر کرنے کی خواہش کو ایڑ لگائی تھی۔بچپن کی تنہائی، جوانی اور اُدھیڑ عمری میں دوستوں کی معیت میں نئی دنیائیں دیکھنے کی متمنی تھی جس کی تکمیل بہت احسن طریق سے ہوئی۔

کہانیوں کی دنیا میں کھونا مجھے بہت پسند تھا۔ شاید نہیں یقیناً کہانیاں افسانے اور ناول اُسی شوق اور تجسس نے لکھوائے۔

فاخرہ سے میں نے کسی ناول بارے پوچھا جو اس نے پڑھا ہو۔

’’ارے ایک دو۔ میں نے توکئی پڑھے ہیں۔ افسانے بھی بہتیرے۔ ناولوں میں مجھے گھورے بائیرے، جوگاجوگ ، دوئی بون اور گورا بہت پسند ہیں۔‘‘

کہیں کابلی والے کا ذکرآیا تو مجھے یاد آیا۔ یہ افسانہ میں نے پڑھا ہے۔ذہن میں جزئیات بھی اُبھر آئی تھیں۔

’’چلو اب سنو ۔‘‘ فاخرہ نے پھر پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

کہانی کے جلد ختم ہونے پر بھی مجھے ہمیشہ اعتراض ہوتا۔

خوف ،ڈر ،بے قراریاں، اضطراب سب میرے اندر سے نکل کر ہونٹوں پر سوال جواب کی صورت پھُدکتے ۔ جہاں کہیں کہانی میں سنسنی خیز موڑ آتا۔ اضطراب میں ڈوبا ہوا جملہ ’’پھر کیا ہوا‘‘ فوراً لبوں  پر آجاتا۔

ایک اور کام کرنا بھی میرا معمول تھا۔ وہ تھا میری ماسٹری، میری اُستادی۔ گھرکے سارے ستون کھمبے میرے شاگردہوتے۔ میں انہیں خوب لتاڑتا، خوب مارتا۔ نہیں پڑھو گے تو نالائقو بڑے ہو کر قلی بنو گے۔ ان کی خوب خوب پٹائی کرتا۔

یہ منظر بھی میرے پسندیدہ منظروں میں سے ایک تھا کہ جب گھر میں مہمان آتے۔ گھر کی ڈیوڑھی کے سامنے بڑی بڑی بگھیاں آکر رکتیں۔ مرکزی دروازے پر بڑے بھائیوں میں کوئی ایک مہمانوں کے استقبال کے لئے ضرور موجود ہوتا۔نوکر اُن پر گلاب دانیوں سے گلاب پاشی کرتے۔ ہاتھوں میں پھولوں کے دستے تھماتے ۔ بھائی بصدعزت واحترام انہیں اوپر لے جاتے۔ خاطر مدارات کا سلسلہ، روشنیوں سے چمکتے کمرے اور گھر سب مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔

گھر دار عورتوں کے سجنے سنورنے کے طور طریقے سنتے ہوئے بھی لطف آیا تھا۔ میں تو ہنستی چلی جاتی تھی۔

گلی میں “بیل پھول، بیل پھول” کی صدا بھی بڑی اچھی لگتی تھی۔ موسم بہار کیا آتا یہ پھول ڈالیاں اور ان کی خوشبو ئیں گلیوں کو مہکادیتیں۔ گھر والیوں کے لابنے بالوں کے بھاری جوڑے اُن کے شانوںپر پڑے بیلے ہاروں سے سج جاتے ۔ جدھر سے گزرتیں خوشبوئیں بکھیرتی چلی جاتیں۔ ہاتھ منہ دھونے سے پہلے آئینہ ہاتھ میں پکڑ کر بالوں کو سنوارا جاتا۔ گھر میں خو دسے بنائی ڈوری سے جوڑا باندھا جاتا۔ نائن کا گھروں میں آنے کا بھی بڑا رواج تھا۔ یہ بھی ایک کردار تھا۔

میرے بچپن میں چاکلیٹ نہیں ہوتی تھی۔گلابی ریوڑیاں، خوشبو میں بسے تل سے لدے پھندے چینی کے ڈھیلے سے کس مزے کے ہوتے۔ بھنے ہوئے مسالے والے ٹھونگے ،وہ سستا سا تل والا گجا۔ برف کی ہانڈی میں لگی کلفیاں۔ جب پھیری والا آواز لگاتا۔ ہائے دل کیسا اُتھل پتھل ہونے لگتا۔

’’ ہائے ٹیگور کے بچپن کی کچھ چیزیں تو معاشرت کے فرق کے باوجود ہمارے بچپن جیسی بھی تھیں۔‘‘ بچوں جیسی خوشی نے میری آنکھوں سے جھانکتے ہوئے گویا کہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اُنیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں کے ہندوستانی بنگال کی تہذیبی معاشرت کی جھلکیوں کی خوبصورت اور دل کش تصویر نے دل شاد کیا تھا۔ شام بہت مزے کی گزری تھی۔ کیسا مزے کا پچپن ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply