کشن گنگاکی وادی(قسط13)- جاویدخان

گزشتہ قسط کا لنک

 

 

 

قسط 13

جھیل کاپہلامنظر :۔
جھیل کے سامنے والے لالازار پر درمیان میں کھڑے ہوکر جھیل کِسی حد تک نیم کوس لگتی ہے۔جنوب مشرقی سمت پہاڑ پر گلیشر ہیں اَور چشمے ہیں جو جھیل میں گرتے ہیں۔ٹھیک مشرق کی جانب پہاڑ آسمان کی طرف بلند ہوتاہوادرمیان میں ہلال کی شکل میں کٹاہواہے۔ایک گلیشر اس کے دامن میں پڑارہتاہے۔شمالی طرف کی چوٹی سُرخ پھولوں سے بھری ہوئی ہے۔سبزہ زار کے درمیان کھڑے ہو کر جنوب مشرق اَور شمال تک نیم کوس لگتی ہے۔جب کہ جنوب سے شمال کی طرف ساحلی کنارے باہم ملنے سے یہ جیومیٹری کی شکل ‘ڈی ’ سے مماثل ہے۔اطراف کے پربت بالخصوص جنوب مشرقی اَور شمالی سمتوں میں فصیل کاکام کرتے ہیں۔ان دیواروں کو اَگر کوئی ایک دم پار کرناچاہے تو وہ صرف کوہ پیماہی کرسکتاہے۔مکمل جنوبی اَور مشرقی دیواریں تو کوہ پیمائی کی پُرخطر دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔گلیشروں کے متعلق قہوہ فروش معروف نے کہاہم نے ان کو اَیسے ہی دیکھاجیسے یہ اَب ہیں۔برف پڑتی ہے توان کاحجم بڑھ جاتاہے۔مگر برف پگھلنے کے بعد یہ واپس اِتنے ہی ہو جاتے ہیں۔ قہوہ فروشوں نے کون سے پیمانے رکھے ہوے ہیں سوائے یہاں اس بہار میں قہوہ فروخت کرنے کے۔
مَیں کنارے پربیٹھ گیااَور جھیل کو دیکھنے لگا۔جھیل میں ارتعاش تھا۔لہریں بن رہی تھیں ، کناروں سے ٹکرا رہی تھیں اَور ٹُوٹ کر بکھر رہی تھیں۔ڈھیروں چشمے اس میں آگرتے ہیں اَور کچھ خاموشی سے ملتے ہیں۔جیسے دبے پاؤں بچے ماوں کو ملنے آرہے ہوں۔

جھیل کنارے شام:۔
شام اُتر آئی تھی۔کچھ دیر قبل مشرقی پربت کی چوٹیوں پر سُورج کی جو لالی تھی اَب وہ گُم ہورہی تھی۔سُرخیلارنگ نیلے پانیوں میں کچھ دیر ہم آمیز ہواتھا۔کچھ رنگ ابھی تک بے نام ہیں ۔کچھ مناظر بے نام ہوتے ہیں ۔الفاظ،گویائی اَور جذبات جہاں ساکت ہوکر رہ جائیں ۔وہ لمحہ ،وہ جگہ،وہ مقام ‘حیرت ’ کہلاتا ہے۔مقام ِحیرت وہ لمحہ ہے جہاں کسی رنگ ،کسی منظر ،کسی حسن کے بیاں کے لیے گویائی چھن جاتی ہے اَوراَلفاظ گُم ہوجاتے ہیں بس مشاہدہ رہ جاتاہے۔یہاں وہ حیرت نہ سہی جس کاذکر صوفیانے کیاہے۔مگراِن مناظر کو لفظوں میں منظرانے کے لیے الفاط کی شدت سے کمی محسوس ہونے لگی تھی۔کبھی کبھی وہ لمحے بھی آتے ہیں جب لغت کے سانچے تخیل اَور مشاہدے کے سامنے فولاوی سلاخوں کے علاوہ کچھ اَور حثیت نہیں رکھتے۔اَیسی بے بسی کوکیانام دیاجائے۔؟
سُرخی جو پانی میں گھلی ہوئی تھی آہستہ آہستہ مٹتی گئی اَور پھر پہاڑ جہاں آسمانی رُخ پر ہلالی شکل میں کٹاہواتھا ۔کرنیں ٹھیک وہاں اَٹک گئیں ۔ٹھنڈاماحول ،سردپانی ،آبشارکی گُونج اَورچشموں کاترنَم۔ سیاح چلے گئے تھے۔بس ہم سفرباقی تھے۔یہ سارے کبھی مناظرمیں گُم ہوجاتے تو کبھی خود کو منظرانے لگتے۔راحیل خورشید کے پاس اک چھڑی تھی اَور اس کے سرے پر دستی فون کو قبض کرنے والاشکنجہ ۔راحیل سب کو بٹھاتا ،کبھی کھڑاکرتااَور اس چھڑی کے کونے پر کسے کیمرے سے سب کو منظراتا۔اوڑھنیاں سب نے اوڑھ لیں تھیں۔عاشق صاحب اپنابستہ کمر پر باندھے ہوئے تھے۔کاشف نذیر چادر اوڑھے اپنے ولائتی سام سانگ سے تصاویر بنارہاتھا۔اعجاز یوسف اس درمیان تماشائی تھے ،عمران رزاق کبھی راحیل کے کیمرے کے سامنے بن کرکھڑے ہوتے تو کبھی کاشف کے کیمرے کے سامنے۔
سُورج دیوتا اس ہزاروں فٹ بلند چوٹی سے رُخصت ہو چکاتھا۔اس سے بھی بلند جو سامنے اَور پار کے پہاڑ تھے تو وہ وہاں سے بھی رُخصت لے چکاتھا۔کہیں سے ایک دو سیاح آے اَور میرے پاس سے گزر گئے۔وہ واپس جارہے تھے ۔شاید خُنکی نے انھیں مجبور کیاکہ وہ چلے جائیں۔
مَیں جھیل کے کنارے اِک پتھر پر ساکت و جامد بیٹھا تھاکہ پُشت پر سے آواز آئی ۔۔۔۔اَو ۔۔۔نادان شخص ۔۔یہ کاشف نذیر تھا۔آواز فصیلوں سے ٹکرائی ،بازگشت بنی اَور جھیل کے اِرتعاش زدہ یخ بدن میں اُتر کر گُم ہوگئی۔اَور نادان شخص اُسی پتھر پر ،پتھر بنا خاموش بیٹھارہا۔نادانی کی اس حالت میں اِردگرد کائنات کی دانائیاں چُپ کرکے بیٹھی ہوئی تھیں۔کوئی ان سے ہم کلام ہوتو ساری دانائیاں، راز ِداناسے آشکار کرتی ہیں۔مگر کسی چُپ چاپ دانانگر تک پہنچے کے لیے سلوک کے جورستے ہیں وہ پُرکھٹن ہیں۔
فصیل باندھے جھیل کے اَطراف میں پہرہ دیتے پربت ،نوکیلے ،تکونی اَور غیر ہم وار ہیں۔جھیل کاپانی ندی کی صورت بہے جارہاتھا۔ندی آبشار بن گئی تھی اَور یہی آب شار پھرسے جھیل اَور جھیل پھر سے ندی۔ایک بہاو کی اتنی صورتیں ،اتنے رنگ ،بہاو کی آوازیں تھیں ،جھیل میں گرتے چشموں کاسازتھا،جھیل میں چھلکتے پانی کی آواز تھی ۔باقی ہر سوخامشی تھی۔اِن چار سو پھیلی خاموشیوں میں ٹھنڈے اَور دھیمے نغموں کے سواکچھ نہ تھا۔
اَندھیرابڑھتاجارہاتھا۔تھکے ماندے دِن نے اَب سیاہ چادر اوڑھ لی تھی۔تاریکی ماحول کو ڈھانپتی جارہی تھی۔اچانک بکر والوں کے ڈھاروں سے کُتے کے بھونکنے کی آواز آئی ۔آبی چھایاوں میں ہلچل سی ہوئی۔سکوت ٹوٹا ہاک ہاک ۔۔۔۔ہاک ہاک ۔۔ہاک ۔۔ہاک ۔۔ہاک ہاک ۔۔۔ہاک کُتا خاموش ہوگیااَور سکوت نے واپس اَپنی جگہ لے لی۔یہ کُتابکروالوں کے خیمے کے پاس بھونک رہاتھا۔یہ انہی کاکُتاتھا۔اِنسانوں نے پہلے پہل جن چوپایوں کو پالتو بنایا اُن میں سر فہرست کُتااَور بکریاں ہیں۔بکریوں نے اِنسانوں کے ساتھ گھریلو زندگی اختیار کی تو بَن باسیوں میں اِک نظم آگیا۔بکریوں کو پالتو بنانے والے چرواہے کہلائے اَور ان کی بکریاں ان کی دولت ۔چرواہوں نے اِسی دم کُتے کو اپناساتھی بنالیا۔اس چوپاے نے رکھوالی کی ذمہ داری سنبھال لی۔بکریوں کوچراگاہوں میں ہانکنے اَوردشمن سے ہوشیار کرنے کے ساتھ ساتھ بھیڑیوں اَور دوسرے جانوروں سے ریوڑوں کو بچانے اَور خطرے پر شور مچانے کی ذمہ داری کُتے نے اَیسی نبھائی کہ آج تک اس کامتبادل نہ مل سکا۔کُتاایک وفادار ساتھی ثابت ہوااَور آج بھی ہے۔روکھی سوکھی کھاتاہے ،رات بھر جاگتاہے اَورپہرادیتاہے۔اس کی زندگی کابڑاحصہ بَن باسی کی نذر ہوگیا۔چرواہوں نے چراگاہوں اَور نخلستانوں پر قابض ہونامرنااَور مارنا جیسے شغل جاری رکھے ۔پھر یہی چرواہے نیل وفرات ندی کے ساتھ ساتھ سندھو ندی کے کناروں تک جھگیاں اَور کھیت آباد کرتے گئے ۔چرواہے اَور اُن کے کُتے کھتیاں کرتے کرتے جاگیر دار ی عہد میں داخل ہوے۔اِنسانوں نے اپنے پیشے ،کام اَور ذاتیں بدل لیں ۔خاندان ،نام اَور شناخت تک بدل دی۔مگر کُتے نے اَپنی ذات اَور کام نہ بدلا۔
تاریکی نے سب پربت اَورگلیشر ڈھانپ لیے تھے۔چرواہوں کے خیمے میں دیاٹمٹما رہاتھا۔اعجاز یُوسف کی آواز نے چھوٹی سی بازگشت پیداکی۔اوے۔۔۔!اوے۔۔۔۔او۔۔۔اوے جاویدا۔۔!اوے۔۔!اوے۔۔۔! ایک پردیسی پہاڑیا ،پہاڑ کے خاموش دامن میں خاموشیوں کو توڑنے کاجُرم کر رہاتھااَور دُوسرے پہاڑیے کو پہاڑی لہجے میں بُلارہاتھا۔خامشی کائنات کاخوب صورت ظروف ہے ۔کسی سیاح،کسی پہاڑیے کو اسے توڑنا نہیں چاہیے۔اگرچہ جھیل کے پاس خیمہ زنی کی اجازت نہیں تھی۔مگرکہیں سے دوسرکاری پِک اَپ خیمے اَور سوارلادے پہنچ گئیں۔خادموں نے تین خیمے لگاے ۔جنریٹر نے ہنگامہ کیا،پہاڑگونجنے لگے اَور ایک چھوٹے سے لالازار کی زمین ہلکی سی دھمکنے لگی۔یہ سیاحوں کے رُوپ میں ایک سرکار کے خرچے پر پلتااِک جتھہ تھا۔شہدکی مکھیاں بھن بھن کرتی ہیں اَور اُن کاجتھہ شہد پیداکرتاہے ،پھولوں کارس پیتاہے اَور شیریں مگر گاڑھامشروب تیارکرتاہے۔جو صحت اَفزا ہے ،میٹھاہے اَور فرحت بخش ہے۔یہ جتھااَورتھا۔جوبھن بھن نہیں گڑگڑکررہاتھا۔۔یہاں پھیلاسکوت ٹُوٹ چکاتھا۔آب شار،جھرنے اَور چھلکتے پانیوں کے سُرگُم ہوچکے تھے۔اَب خیموں میں آقابسترجمائے تاش کھیلنے لگے تھے۔خدام نان شبینہ کی تیاری میں لگ گئے تھے۔حال آنکہ اس نسل کے شکم پہلے ہی بہت پھولے ہوے تھے۔
مَیں خیموں کے عقب میں آکر کھڑاہوا۔پھر یہاں سے چہل قدمی کرتااعجاز یُوسف کے پاس پہنچاتودوستوں کے شکوے تابڑتوڑ برسنے لگے۔دیکھوتُم گُم ہوجاتے ہو۔چلونیچے چلوخیمہ بستی میں چلتے ہیں۔یہاں بہت سردی ہے۔پاربکروالوں کے خیمے میں دِیابہ دستور ٹمٹارہاتھا۔خیمے کاپردہ واتھا اَب خیمے کے سامنے چھوٹاسااَلاو روشن ہوگیاتھا۔خیمہ زن لوگ اَپنے لیے رات کاکھانا پکانے لگے تھے۔کالاسَر جھیل کی طرف سے (اَصل میں رتی گلی جھیل )آنے والے رستے پر (گلی ) روشنیاں چل رہی تھیں۔شاید نیچے ڈھاروں میں بسے لوگوں کے رشتے دار جو رتی گلی(گُزرگاہ) کے اُس طرف ڈھاروں میں رہتے ہیں ،ملنے آرہے تھے۔یاپھر یہاں کے خیمہ زن اُدھر والوں سے مل کر واپس آرہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply