روداد ِسفر حصہ 33 /شاکر ظہیر

کانسو صوبہ میرا سسرالی بن گیا تھا ۔ کئی دفعہ آنا جانا ہوا ۔ تین الگ الگ ذرائع اور الگ الگ شہروں سے گزر کر اپنے سسرالی گاؤں گیا ۔ بس سے ٹرین سے جہاز سے ۔ بس سے ( Pingliang ) شہر ، ٹرین سے تھن سوئے ( Tianshui ) اور جہاز سے لائنزو ( Lanzhou ) شہر . ہر شہر میں مسلمان نظر آئے ۔ ہر شہر میں مسجد نظر آئی کہیں تین سو سال پرانی اور کہیں دو سو سال پرانی اور وہ بھی لکڑی کی بنی مساجد ۔ اور کہیں بالکل نئی طرز پر بنی مساجد ۔ لیکن یہ مساجد بھی فرقوں کی تھیں ۔ جہریہ ، خفیہ ، پرانے حنفی ، اخوانی ، سلفی ۔ اور مزار بھی کئی ایک تھے ۔
مسلمانوں کی یہاں آمد وسطی ایشیاء کی طرف سے ہوئی ۔ جو جس علاقے سے ہجرت کر کے آیا اپنے ساتھ اپنے علاقے کے عقائد اور فرقے بھی ساتھ لایا ۔ لیکن ایک ایسا فرقہ بھی تھا جس کی پیدائش ہی یہاں کنفیوشس ازم اور تصوف کی آمیزش سے ہوئی ۔ اسے ( Xidaotang ) کہا جاتا ہے اس کی پیدائش 1901 میں ما چھی شی ( Ma Qixi ) نے کی تھی ۔ تفصیلات مجھے بھی معلوم نہیں ، نہ ہی ان امام مسجد کو معلوم تھیں جن سے یہاں کے کیمونسٹ انقلاب کے وقت کی داستان سننے میں لائزو ( Lanzhou ) شہر کی مسجد میں بیٹھا تھا ۔ حالانکہ وہ امام صاحب بھی نقشبندی ذکر خفی کی مسجد کے امام تھے ۔ کچھ داستان انہوں نے سنائی اور کچھ پہلے کی پرانی امام ابوبکر سنا چکے تھے ۔ داستان بھی ایسی کہ مسلمان تو ہر طرف نظر آئے لیکن تقسیم ہوئے اور گم ہو جانے کے خطرے سے دوچار ۔ کہ جس ملک کی سالمیت اور بھلائی کےلیے انہوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں کو قتل کر دیا وہی زمین ان کےلیے بھی تنگ ہو گئی ۔ یہ لڑائیاں باقیوں نے بھی لڑیں اور جس نظریے کو بہتر سمجھا اس کے مخالفوں سے لڑیں لیکن مشکوک یہی مسلمان ٹھہرے ۔ امام صاحب نے سبز چائے کے تھرماس سے میرے لیے اور اپنے لیے پیالیوں میں چائے ڈالی اور داستان شروع کی ۔
مسلمانوں کی زیادہ ابادی والے علاقے وہ ہیں جو درمیان کے چائنا سے مغرب کی طرف یعنی پاکستان کی طرف ہیں ۔ ان میں سانشی ( shanxi ) , کانسو ( Gansu ) چھن ہائی ( Qinghai ) ، نن شاہ ( Ningxia ) اور سنکیانگ کے مسلم اکثریتی صوبے شامل ہیں ۔ یہ علاقے کم آبادی والے اور مشکل پہاڑوں پر مشتمل علاقے ہیں جہاں تک رسائی حکومت کےلیے مشکل تھی ۔ یہ علاقے بھی اس دور میں وار لارڈز کے کنٹرول میں رہے جو ” ما ” ( ma ) وار لارڈز کہلاتے تھے ۔ ” ما ” ( Ma ) محمد کا مختصر ہے جو مسلمانوں نے اپنا چائنیز طرز پر فیملی نام رکھا ۔ یہ تین وار لارڈز تھے جو ایک ہی خاندان کے تھے جن کے زیر تسلط تین الگ الگ صوبے تھے اور آفیشلی ان علاقوں کے گورنر کہلاتے تھے ۔ ان کی حکومت 1919 سے لے کر 1928 تک رہی ۔ یہ ” ما ” ( ma ) افراد چھن بادشاہت کی آرمی میں بھی جنرل تھے اور ” کانسو Gansu کے بہادر ” کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ چھن بادشاہت کے خاتمے کے بعد اس جھتے نے اپنی حمایت نیشلسٹ حکومت کے ساتھ رکھی اور ریپبلک آرمی ( نیشلسٹ آرمی ) میں فوجی جنرل کے عہدوں پر فائز رہے ۔ 1928 میں چائنا کی نیشلسٹ پارٹی جو چائنا کو ” ریپبلک آف چائنا ” کا نام دیتی تھی ، نے اپنے مرکزی کنٹرول کو مضبوط بنا لیا تو ان ” ما ” جرنلز نے ریپبلک آرمی کے تحت تبت اور منگولیا پر اپنا سفارتی اور فوجی دباؤ بڑھایا کہ وہ اس نئی بننے والی ریپبلک حکومت کو تسلیم کریں ۔ اسی ” ما ” جرنلز نے نیشنلسٹ حکومت ساتھ مل کر سنکیانگ میں پہلی ” ترکستان حکومت ‘ کاشغر کی لڑائی کو ختم کیا اور پھر تبت کی فوج کو شکست دی ۔ یہ لوگ پھر ایک عرصہ تک کمیونسٹ حکومت کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے ۔
1936 میں جب شینگ شیکائی ( Chen Kai chik ) کی نیشلسٹ حکومت کی افواج نے 20,000 مسلمان قازقوں جنہوں نے نیشلسٹ حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی کو سنکیانگ بارکول (Barkol area) کے علاقے سے چنگھائی ( Qinghai ) صوبے کی طرف نکال دیا ، جنرل ما بوفنگ ( Ma bufang ) کی قیادت میں ہوئی ( Hui ) جو خود بھی مسلمان تھے ، نے اپنے ساتھی مسلمان قازقوں ( Kazak ) کا قتل عام کیا ، یہاں تک کہ صرف 135 باقی رہ گئے ۔
کیمونسٹ فوجوں کے خلاف لڑنے والوں مسلمانوں کی اکثریت نیشلسٹ فوج کے باضابطہ ارکان تھے ۔ ان میں سے کئی ممتاز جرنیل تھے ، جیسا کہ ما ہوشن ( Ma Hushan ) جو اس سے قبل سنکیانگ میں سوویت یونین کے خلاف لڑ چکے تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے دوسری چین جاپانی جنگ جاپانیوں کے خلاف لڑی تھی ، بہت سے یہ مسلمان سپاہی سنکیانگ پر سوویت حملے ، چین تبت جنگ ، دوسری چین – جاپانی جنگ ، الی بغاوت ، اور چینی خانہ جنگی کے تجربہ کار تھے ۔ مسلمان کیمونسٹ کے خلاف لڑنے والے سبھی ہوئی ( Hui ) ، سالار ( salar ) ، یا ڈونگ شیانگ ( Dongxiang ) نسل لوگ تھے ۔
کیمونسٹ فوج مشرق کے علاقوں کو نیشلسٹ سے قبضے میں لینے کے بعد مغرب کی طرف بڑھے ۔ یہ علاقے انہی مسلمان نیشلسٹ فوجوں کے تحت تھے ۔ سانشی صوبے پر قبضے کے بعد کانسو صوبے کی طرف بڑھے ۔ کانسو ( Gansu ) صوبے کے لانزو ( Lanzhou ) شہر میں نیشلسٹ فوج کی شکست کی وجہ سے نیشلسٹ آرمی کو 42,000 سے زیادہ فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ یہ تعداد شمال مغربی چین کی کل قوم پرست قوت کا نصف ہے ۔ شمال مغرب میں لانزو ( Lanzhou ) جو سب سے بڑا شہر تھا اس کے کیمونسٹ کے ہاتھوں زوال نے قوم پرستوں کے حوصلے کو پست کر دیا ۔
28 اگست 1949 سے لے کر 5 ستمبر 1949 تک، کمیونسٹ فوج نے دریائے زرد کو عبور کیا ( Minhe ) اور ( Hualong ) کے علاقوں کو فتح کر لیا ۔ اور نیشلسٹ فوج کے مسلمان جنرل ما بوفنگ ( Ma Bufang’s ) اور ان کا اکلوتا بیٹا ما جیوآن ( Ma Jiyuan ) ہوائی جہاز سے چونگ کنگ ( Chongqing ) فرار ہو گئے ، اور زننگ (xining ) جو چھن ہائی ( Qing hai ) صوبے کا دارلخلافہ ہے 5 ستمبر 1949 کو کیمونسٹ فوج نے فتح کر لیا ۔ نیشلسٹ فوج کے باقی بچ جانے والے بیس ہزار فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے اور 27 اگست 1949 کو کیمونسٹ حکومت نے چھن ہائی اور کانسو صوبے میں فتح کا اعلان کر دیا ۔
لانزو ( Lanzhou ) کی شکست کے بعد نن شاہ ( Ningxia ) کی لڑائی جو کیمونسٹ اور نیشلسٹ کے درمیان لڑئی گئی اس میں کیمونسٹ فوج کو فتح ہوئی ۔ یہ بھی مسلمان علاقہ تھا ۔ اس لڑائی کے بعد مسلمان نیشلسٹ جنرل ما بوفنگ ( Ma Bufang ) نے پچاس ہزار ڈالر ملٹری فنڈ کے لیے اور ہانگ کانگ کی طرف نکل گئے ۔ نن شاہ کی لڑائی میں کیمونسٹ فوجوں سے شکست کھانے والے کچھ مسلمان فوجی یونٹ جس کے مسلمان جنرل ما ہونے بن ( Ma Hongbin ) اور ان کے بیٹے ما ڈنجنگ ( Ma Dunjing ) تھے کمیونسٹوں کی پیپلز لبریشن آرمی میں شامل ہو گئے ۔ سنکیانگ میں بھی بہت سے مسلم فوجی یونٹ کیمونسٹ فوجوں کے ساتھ شامل ہو گئے ۔
مسلمان جنرل ما لین ( General Ma Lin’s ) کے بڑے بیٹے ما بورونگ ( Ma Burong ) کیمونسٹ فوجوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور 1949 کے بعد چائنیز فوجیوں جو کوریا میں موجود تھیں ان کی مدد کےلیے 10000 یوآن کی ڈونیشن دی باقی کے سارے مسلمان جنرل بھی کیمونسٹ فوجوں کے ساتھ شامل ہو گئے ۔
بہت سے نیشلسٹ جنرل جیسے ما بوفنگ ( Ma Bufang ) ، ما جا یوآن ( Ma Jiyuan ) اور دوسرے کیمونسٹ فوجوں سے شکست کے بعد کچھ نیشنلسٹ حکومت کے ساتھ تائیوان اور کچھ مصر اور امریکہ چلے گئے ۔ جبکہ ماہ بوفنگ ( Ma Bufang’s ) کے کچھ پیچھے رہے جانے والے افسران کو ہدایت کی گئی کہ کیمونسٹوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے ۔
مسلمان جنرل ما بوفنگ ( Ma Bufang ) اور ما چینگ شیانگ ( Ma Chengxiang’s ) کی افواج سنکیانگ بھر میں ایغور نیشلسٹ مسلمان جنرل اوسپن باتیار ( Ospan Batyr’s ) کے جوانوں کے ساتھ تعینات تھیں ، جہاں اصل میں الی ( illi ) بغاوت میں سوویت حمایت یافتہ اویغور باغیوں سے لڑ رہے تھے ۔ بعد ازاں سنکیانگ کا عوامی جمہوریہ چین میں شامل ہو گیا تو علیحدگی مخالف اور نیشلسٹ حکومت کے حامی ایغور مسلمان یولبرس خان ( Yulbars Khan ) نے تائیوان فرار ہونے سے پہلے ییوو ( yiwu ) کی جنگ میں ایک حتمی کارروائی کی ۔ لیکن اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
ما بوفنگ ( ma bufang ) کے حامیوں نے بعد میں بھی بغاوت اٹھائی لیکن وہ دبا دی گئی ۔ جنرل چن کائی شیک بعد میں بھی ان لوگوں سے رابطے میں رہے اور امریکن سی ائی اے کے تعاون سے 1952 میں جنرل ما بوفنگ ( ma bufang ) کے 14000 گوریلوں کےلیے طیاروں کے ذریعے تبت کے علاقے میں سپلائی پہنچاتے رہے ۔
مسلمان نیشلسٹ جنرل ما حسان ( General Ma Hushan ) 1950 سے 1954 تک کیمونسٹوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے ۔ اور کئی کیمونسٹ فوجیوں کو چھاپہ مار جنگ میں نقصان پہنچایا ۔ 1954 میں یہ گرفتار ہو گئے اور انہیں لانزو ( Lanzhou ) میں پھانسی دے دی گئی ۔
مسلمان جنرل اوسپان ( Ospan Batyr ) جو نیشلسٹ فوج کی طرف سے اریغور باغیوں ، منگول اور رشیاء کی فوجوں سے لڑے اور پھر کیمونسٹ فوجوں کے خلاف لڑے انہیں 1951 میں گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی ۔
مسلمانوں کی ان بغاوتوں کو ختم کرنے کے بعد کیمونسٹ فوجوں نے ان مسلم فوجیوں کو جو ماہ بوفنگ ( Ma Bufang ) کی زیر قیادت رہے تھے کو تبت کی بغاوت کے خلاف استعمال کیا ۔
یہ کچھ مختصر سی داستان تھی اور امام صاحب اپنے ملک دوست ہونے کی اتنی ہی داستان سنا سکتے تھے ۔ کچھ داستانیں ایسی جو نہ کبھی کسی نے سنی نہ کسی نے سنائیں اور کچھ انہیں لے کر دفن ہو گئے اور کچھ ابھی تک ان کا حصہ ہیں ۔ کچھ چھوڑ گئے ایسے کہ کبھی مڑ کر نہ دیکھا اور کچھ ابھی تک انتظار کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ اور عجیب بات یہ تھی کہ اس مٹی کےلیے اتنی قربانیاں دینے کے بعد بھی یہ مٹی انہیں قبول کرنے کےلیے آسانی سے راضی نہیں تھی ۔ نیشلسٹ حکومت کا ساتھ تو باقی چائنیز نے بھی دیا اور اس نظام حکومت کو ملک و قوم کےلیے بہتر سمجھ ہی کر دیا لیکن مشکوک یہی ٹھہرے ۔ بس یہ مٹی ان سب قربانیوں اور داستانوں کو دفن کر کے بھول بیٹھی اور پیاسی ہی رہی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply