چیخ۔۔سلیم مرزا

چیخ۔۔سلیم مرزا/میری موٹر سا ئیکل  کے ساتھ اتنی بُری ہوچکی ہے کہ اب ہم دونوں ایک جیسے لگنے لگے ہیں ۔جیسے میرے گوڈوں سے اٹھتے وقت کڑاکا نکلتا ہے ویسے ہی اس کو گیئر لگائیں تو کڑاکے نکلتے ہیں ۔
اگر ہم دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوں تو بریک محض اس وجہ سے لگنے سے انکار کردیتی ہے کہ تم دونوں نے ساتھ جینے مرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ دوسو کلو کے ہم دونوں ,پچاس کلو کی موٹر سائیکل کے ساتھ جس گدھا گاڑی سے ٹکرائے اس کا کھوتا ابھی ڈیلیور کرنے ہی والا تھا کہ ہم پی ڈی ایم کی طرح جاٹکرائے۔
اس نے کہا کچھ نہیں بس اس نظر سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو
“مجھے عوام ہی اچھی نہیں ملی “۔

اس حادثے کے بعد میں نے سوچا بیگم کی تو خیر ہے ،کم ازکم موٹر سائیکل کو ٹھیک کروا لینا چاہیے۔
ہنڈا سروس والے جی ٹی روڈ پہ تھے ۔پہنچا تو دس پندرہ بندے گرمیوں کی دھوپ سینک رہے تھے اور اتنی ہی موٹر سائیکلوں کو دو دو چھوٹے مکینک چمٹے ہوئے تھے ۔۔ملٹی نیشنل کمپنی میں استاد کوئی نہیں تھا، مگر تھے سبھی استاد ۔

کوئک سروس ظاہر کرنے کیلئے دو چھوٹوں نے فوراً مجھے ترپال تلے کرسی صدارت پہ بٹھادیا ۔کافی تگ ودو سے ایک ٹرے میں اوزاروں کی کابینہ بنائی اور موٹر سائیکل کو ادھیڑ دیا،تھوڑی ہی دیر بعد ادھر اُدھر سے اکھٹی کی ہوئی اوزاروں کی پارلیمنٹ تتر بتر ہونے  لگی ۔جو آتا انہیں ایک لگاتا،
“ماما ستاراں نمبر دا پاناں تیرے کول سی “۔

اس کے جانے کے بعد کوئی نیم استاد آکر ست نمبر دی چابی اٹھا کر لے جاتا ۔
ایک نے آواز دی بوٹے۔۔
“نو نمبر دی گوٹی لے کے ایدھر مر ”
بوٹا بھی گیا ۔۔
اب ایک چھوٹا بچا تھا اور اس کے پاس ایک بڑا پیچ کس۔۔
اس نے وقت گذ اری کو اسی پیچ کس سے کھولے ہوئے پرزوں سے مٹی کھرچنی شروع کردی ۔
گھنٹے بعد پسینہ ان جگہوں سے بھی نکلنے لگا, جہاں سے رُکی بدعائیں نکلتی ہیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں اور موٹر سائیکل کا ڈھانچہ اکیلے رہ گئے ہیں ۔
پیچ کس والا بھی پشاور چلا گیا ۔
آخر ایک سیانے کو دیکھ کر آواز دی ۔
“استادجی ،کام کیوں نہیں کررہے “؟
“تسی چین گراری سیٹ نہیں لیاندا”
اب بھی قصور میرا تھا ۔
تیرہ سو کا گراری سیٹ لے کر پیسے دینے لگا تو دکاندار کہنے لگا ۔
“میں نے لکھ لیا ہے ۔آپ جاتے وقت دے دیجئے گا ”
گراری سیٹ اس مکینک کو پکڑایا جس کی کابینہ میں ماڑی چنگی عزت تھی ۔
جیسے ہی موٹر سائیکل پہ کام شروع ہوا میں مکینک اور دکاندار کے درمیان میں شٹل بن گیا ۔
یہ لے آؤ ۔یہ بدل لاؤ ۔یہ دیسی ہے ۔
جینوئین لاؤ ۔۔
موجودہ حکومت کی طرح موٹر سائیکل کا وہ سب کچھ بدل چکا ۔جو بدلا جاسکتا تھا ۔۔
موٹر سائیکل کو چھونے سے پہلے دکاندار کی ادائیگی ضروری تھی ۔
بل دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں ۔۔
موٹر سائیکل وہیں چھوڑکر اور پیسے لینے گھر جارہا ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ بھی میری طرح حکومتی تبدیلی نہیں صرف ٹیوننگ چاہتے ہوں گے ۔۔اور صوفی آئل چھ سو چالیس کا خرید کر آپ کی چیخ نہیں نکلی تو موبل آئل ٹرائی کریں ۔
کوکنگ آئل سے فی لیٹر دو سو روپے سستا ہے۔
چیخ آسانی سے نکلے گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply