طلسمی بوسہ۔۔سیّد محمد زاہد

ریحانہ نے اپنے ماسک کو سیدھا کیا۔ پھولدار سکارف کی گرہ کو مضبوطی سے باندھا، عبایہ پہنا اور چل پڑی۔

باہر گھپ اندھیرا تھا۔ پورا ملک کئی دنوں سے دھند کی لپیٹ میں تھا۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل معمول بن چکا تھا۔ دھند کے بادل اتنے کثیف تھے کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دھند کے پراگندہ بادلوں نے اسے بھی ملفوف کر لیا۔ وہ دبیز اندھیرے کو چیرتی ہوئی آگے بڑھتی جارہی تھی جیسے کوئی ماہر تیراک دریا کی موجوں سے کھیل رہا ہو۔
راستے اور اردگرد کے تمام عمارتیں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ تمام ماحول خواب آلودہ سا تھا۔ ڈرونا خواب، جس میں خطرات ہی خطرات دکھائی دے رہے تھے۔ گاڑیاں گہری دھند کاٹتے ہوئے بہت سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھیں۔ گدھا گاڑیاں اور تانگے تو خوفزدہ سے چلتے نظر آتے۔
اس ماحول سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ریحانہ مطمئن اور مسرور آگے بڑھتی جارہی تھی۔ دفتر سے گھر تک اس راستہ کی اتنی شناسا تھی کہ وہ آنکھیں بند کرکے بھی چل سکتی تھی۔ لمبے لمبے قدم بڑھاتی ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز چلتی جارہی تھی۔
ریحانہ ایک خوبصورت عورت تھی۔اس کا جسم ایک شاہکار تھا، ایک ایسا شاہکار جو صرف محبت کرنے کے لیے بنا ہو۔ قد وہ جس سے فتنہ قیامت بقدراک قد آدم چھوٹا ہو۔ اس سرو رواں کی رفتار ہر قدم پر قیامتیں لوٹتی چلتی اور زلف رسا شب ہجراں کی درازی کو پریشان کرتی تھی۔ نازک تلووں سے لے کر گیسووں کے آخری چھلے تک شاداب و شیریں اور رمز آگیں ریحانہ گوشت پوست میں لپٹا ہوا ایک معمہ تھی۔
عورت کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا خوبصورت چہرہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی تھی کہ وہی آدھا خراب ہو گیا تھا۔ بچپن میں ہی اس کی گردن اور دائیں رخسار کا کچھ حصہ چولہے پر گرنے کی وجہ سے جل گیا تھا۔ جلنے کا بدصورت نشان اس کی زندگی کو داغدار کر گیا۔ اس داغ سے اس کے موٹے ہونٹوں میں ایک ہلکا سا کھچاؤ پیدا ہو گیا تھا جو اس کے چہرے کی اکلوتی خوبصورتی تھی۔ وہ اس نشان زدہ دائیں رخسار کو ڈھانپ لیتی تو یہ خوبصورتی حجاب کو چار چاند لگا دیتی۔ اس حالت میں اس کے خاندان والے اور ساتھی کہہ اٹھتے کہ شکر ہے وہ بدنما داغ کی پرواہ نہیں کرتی اور بھر پور زندگی جی رہی ہے۔
وہ غلط تھے۔
ایک عفریت خود جانتا ہے کہ وہ کتنا بدہئیت ہے اور لوگ اس سے کتنا ڈرتے ہیں۔ اس کی ماں سب سمجھتی تھی۔ ممتا نے ماں کو وہ آنکھیں عطا کی تھیں جو ریحانہ کے دل کے اندر گھس کر بھی دیکھ لیتی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ ریحانہ ایک کمزور اور بے چین روح ہے جو اپنی شرمندگی، غم اور ندامت کو دور کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتی ہے۔
حقیقت یہ تھی: جاگتے سوتے، انتہائی مشکل یا آسان ترین کاموں میں، تنہائی یا محفل میں، ریحانہ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں وہ اپنے اندر موجود اضطراب، خجلت اور خوف سے آزاد ہوئی ہو۔ مایۂ شرمندگی سے لدی اس کے من کی آنکھیں کبھی بھی اس خوفناک حقیقت کو اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ اور یہ وہ انکھیں ہیں جو جھوٹ نہیں بولتیں۔
یہ سچ بہت تلخ تھا۔ بیس سال پہلے جھلسا دینے والی آگ کی تپش ابھی بھی اتنی زیادہ تھی کہ اس کے سامنے لایا جانے والا ہر آئینہ تڑخ جاتا۔ اب تو اس نے آئینہ دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
اس کو اندھیری راتیں بہت پسند تھیں کیونکہ ان کی تیرہ پہنائی میں سب کچھ چھپ جاتا۔ انہیں راتوں میں کبھی کبھی، آخری پہر میں، ڈراؤنے خواب اسے بیدار کردیتے۔ دل کی بےترتیب دھڑکن اس کو یاد دلاتی کہ راتوں کی تاریکی میں نہاں داغ صبح ہوتے ہی عیاں ہو جائیں گے۔
کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی جوانی اور خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں لیکن علاج کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کچھ میں موت واقع ہو جاتی ہے لیکن کچھ سانحات مثلاً نابینا پن، بہرہ پن، کسی عضو کا نقصان اسے مستقل معذور بنا دیتے ہیں۔ یہ نقائص وہ راج پھوڑے ہیں جن کا کوئی مرہم نہیں۔ جو جینے دیتے ہیں نہ مرنے۔
اسی حالت میں ریحانہ زندگی گذار رہی تھی۔
پہلے پہل دفتر میں اپنے چہرے کو ڈھانپے رکھتی تھی۔ پھولدار حجاب پہنتی لیکن داغ اتنے بڑے تھی کی حجاب کے نیچے سے بھی نظر آتے اور ان کا کوئی نہ کوئی کنارہ بھی دکھائی دے جاتا۔ اسی وجہ سے وہ دفتر میں حجاب کرنا چھوڑ گئی تھی۔ اس نے وہ داغ چھپانا چھوڑ دیے جن کو چھپانا ممکن نہ تھا۔
وہ تنہا تھی اور اس کا غم بھی تنہا۔ یہ اس کی بے بسی اور دکھ کو پہچانتا تھا۔ اس غم اور دوسروں کی کراہت آمیز نظروں کے درمیان ریحانہ نے خاکساری و فروتنی کا پردہ گرالیا تھا۔
اس کا کوئی محبوب نہ تھا۔ بارہ سے سولہ سال کی بے لگام عمر میں بھی اس نے پیار محبت کی صرف سرگوشیاں ہی سنیں اور وہ بھی صرف ہم جماعت لڑکیوں سے۔
وہ عمر جب نوخیز لڑکیوں کی کہانیوں سے یا قلم سے لکھی ہوئی تحریر سے محبت کی خواہش کے سوا کچھ نہیں پھوٹتا۔ ان کو جو بھی پڑھایا جاتا ہے وہ ریاضی ہو، ڈرائنگ، فزکس یا ادب، یہ سب ان کی چاہت یا چاہے جانے کی خواہش کو دبانے کے لیے ہے۔ ان کے بزرگ، ان کے خاندان، جوان ہونے والی لڑکیوں کو ان میں الجھا کر اس جبلت، اس خواہش کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تعلیم کے بعد اس نے ایک سٹوڈیو میں کمپیوٹر اپریٹر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ یہاں اس نے جنوں کے رنگ بھرے شباب دیکھے، مدھ بھری آنکھوں میں ڈوبتے ابھرتے خواب دیکھے اور بے برگ و ثمر چاہتوں کے سراب دیکھے۔ مخملی پیکر والی حسین لڑکیاں جن کی رعنائیاں قیمتی ملبوسات کو شرمسار کرتی تھیں، روغن افعی سے معطر گیسوؤں میں ناگ منی کی مالا سجائے، کاجل بھری زہریلی آنکھیں مٹکاتی، لڑکوں کے ساتھ پیار کا ڈھونگ رچاتی دیکھیں۔
ان عشوہ گروں کے بے دم محبوب، در یار پر منتظر، سہانی شام میں ساتھ نبھانے کو ترستے دیکھے۔
ریحانہ ان تمام محرکات سے خود کو بچاتی رہتی لیکن یہ بجلیاں، یہ شعلے اس کے پاس بھڑک کر اسے مزید کبیدہ خاطر کردیتے۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی کا آفاقی لطف، قربت کی لذت شیریں، اس کے لیے نہیں۔ اس نے خود کو ان تمام تفریحات سے علیحدہ کر لیا تھا لیکن اس خفتہ بخت کے من میں یہ مایوسیاں، ہزیمتیں اور مدفون خواہشات سانپ کی طرح کیچلی مارے بیٹھی ہوئی تھیں۔
وہ تو یہ خواہش بھی رکھتی تھی کہ اندھی ہو جائے تاکہ لوگوں کی نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس بچے کی طرح ہو جانا چاہتی تھی جو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچتا ہے کہ لوگ اسے دیکھ نہیں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ اندھیرے میں دفتر سے گھر جاتی۔ تیرگی شب میں بادلوں کا اندھیرا شامل ہو جاتا یا سردیوں میں دھند پڑ رہی ہوتی تو وہ خود کو زیادہ پر اعتماد اور آزاد محسوس کرتی۔
آج سڑک سے گلی کی طرف مڑتے ہی اس نے حجاب کی گرہ ڈھیلی کردی۔ اندھیرا اتنا تھا کہ دیواریں بھی نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اس نے ہاتھ ہلا کر ایک دیوار کو ٹٹولا اور اس کےساتھ ساتھ چل پڑی۔
”او پیاری لڑکی ذرا ٹھہرو۔“
اندھیری رات کی افسوں زدہ خامشی کو کچلتی ہوئی ایک مردانہ بھاری آواز سنائی دی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
وہ سنی ان سنی کر کے چلتی رہی۔ آج تک کسی نے اس کا پیچھا نہیں کیا تھا۔ وہ دیوار کے سہارے چلتی جا رہی تھی۔ اس کا دھیان پیچھے ہی تھا۔ اجنبی آہستہ سی آواز میں گنگناتا اس کے پیچھے آرہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموش ہوا اور پھر بولا
”پیاری لڑکی! ذرا رک کر میری بات سنو۔“
کانوں میں گونجتی بھاری آواز سریلی اور میٹھی تھی۔
ریحانہ نے اپنا سر گھما کر اس نوجوان کو دیکھنے کو کوشش کی جس کے خد و خال اندھیرے میں چھپ گئے تھے۔ آج وہ بہت پراعتماد تھی۔ موٹے حجاب اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اجنبی اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے حجاب کےاندر چھپی گھناونی بدصورتی کسی صورت نظر نہیں آسکتی تھی۔ یہ گھنا اندھیرا، یہ گھونگھٹ، یہ بادلوں میں لپٹی پرفریب گھڑی، اس کی زندگی کے قیمتی لمحات، یہ ایک ایسا موقع تھا، جو شاید پھر کبھی نہ ملتا، وہ کسی نوجوان کے خوابوں کی خوبصورت ملکہ بن سکتی تھی۔
وہ خاموش رہی۔ نوجوان اس کے قریب آ کر نرم پیار بھری آواز میں کچھ کہہ رہا تھا۔ ریحانہ کے کان بہرے ہوچکے تھے اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اتنے قریب آگیا کہ ریحانہ خوشبو بھرے سانسوں کی نیم گرم مہک اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی۔
”او حسینہ رک جاؤ۔ تمہارا نام کیا ہے؟ مجھے نام بتاؤ، اپنا پیارا نام۔ اپنی مدھ بھری آواز سناؤ۔“
سوال کا جواب خاموشی کی صورت میں ملا۔ خاموشی جو اقرار کا دوسرا نام ہے۔ اس نے رک کر اپنے سکارف کو سیدھا کیا اور گردن جھکا لی۔ اب ان دونوں کے درمیاں صرف دھند کے گہرے بادل ہی تھے جو کہ قریب آتے دو بدنوں میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ بدن کانپ رہے تھے۔ وہ ایک عورت تھی، جوانی کے ارمانوں کی پوٹ کی پوٹ، پہلی بار کوئی مرد جس کے قریب آیا تھا۔ وہ نربھاگی آج سہاگن ہو گئی تھی۔ خاموش جذبات خوف سے کانپ رہے تھے۔ خوف اس بات کا تھا کہ مسحور کن لمحات بیت نہ جائیں۔
اس گلی میں صرف سو قدم کے فاصلے پر اس کا گھر تھا۔ وہ کچھ ہچکچائی اور خود کو دیوار میں سما لیا۔ اجنبی نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے اسے بھینچ لیا پھر بے تابی سے ماسک کے اندر چھپے ہونٹ ڈھونڈ کر ان پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیے۔
جسم کا آتش فشاں پھٹ گیا اور قرنوں سے چھپی حدت لاوے کی صورت بہہ نکلی۔ خون کے بہاؤ میں چنگاریاں اُڑنے لگیں جیسے جذبہ پگھل کر خون، خون پگھل کر شعلہ اور شعلہ پگھل کر بوسہ بن گیا ہو۔ اس نے بوسے کے جواب میں پگھلتا ہوا بوسہ پیش کردیا، شرمایہ ہوا سہما ہوا بوسہ۔
وہ محبت چرا رہی تھی۔ جانتی تھی کہ وہ چور ہے جس نے شب کی دبیز تیرگیوں سے مزے چرا لیے ہیں۔ اس ایک لمحے میں اس نے ایک عورت کی پوری زندگی کو جی لیا، وہ زندگی جس میں خوابوں اور خواہشات کا گنجینہ، پیار کی تڑپ، داغ الفت کی بہار، جنسی جوش کی پکار، سب موجود تھا۔ وہ تمام خفیہ خواہشات پوری ہوگئیں جن کا اظہار بھی دن کی بے رحم روشنی میں ناممکن تھا۔
جب پیاسے ہونٹ دھیرے دھیرے الگ ہوئے، بظاہر نہ ختم ہونے والا بوسہ ختم ہو گیا تو بھوکے، امرت رس پی کر مدہوش ہوئے، بوکھلائے اجنبی کو محسوس ہوا کہ نوجوان لڑکی مچھلی کی طرح اس کی باہوں سے پھسلتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہو گئی ہے۔ اس شکستہ جاں میں لڑکی کے پیچھے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ ویسے بھی چند قدم دور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ شدید سردی میں دھند گہری ہوگئی تھی اور سیر شدہ کثیف آبی بخارات ننھے ننھے پانی کے قطرے بن کر زمین پر گرنا شروع ہو گئے تھے۔

وہ بھاگتے ہوئے اپنے گھر تک پہنچی۔ دروازے پر زور زور سے دستک دی۔ متفکر ماں نے دروازہ کھولا تو آنکھیں ملائے بغیراس کو سلام کیا۔ خود کو سمیٹتی ہوئی دھند میں لپٹی سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔ ماں حیران و پریشان اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دھیمی آواز میں بولی ”میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گی، سر میں درد ہے۔ آرام کرنا چاہتی ہوں، مجھے تنگ مت کرنا۔“ اپنے کمرے میں گھس گئی اور دروازہ بند کر دیا۔
کالی سیاہ رات کبھی اتنی دل پذیر نہ تھی۔ کنواری محبت کے آنسوؤں کاغبار انکھڑیوں میں ابھی تک موجود تھا ۔ بستر پر گر کر تکیے میں منہ چھپا لیا۔ گیسوئے خم دار پیٹھ پر بکھر کرتابش سیاہ کا ہالہ بن گئیں۔ پیار کی مشقت سے تھکا ہوا پنڈا ڈھیلا پڑگیا۔ مضمحل ریحانہ نے آنکھیں موند لیں اور ایک سانس لی۔ یہ سانس ایک آہ تھی یا بپھری ہوئی دھڑکن کی مسکراہٹ، خفقان غم عشق میں دل مضطر کی بے قراری تھی یا ایک بھوک کے مارے مفلس کا مسجد میں چوری کے بعد کا اختلاج قلب، مسجد جو کہ غریبوں کے مالک، خدا کا گھر ہے۔ کیا غلام اپنے آقا کے گھر سے مجبوری میں کچھ چرا سکتا ہے؟ کیونکہ مال بھی آقا کا اور غلام بھی۔
وہ سیدھی ہوئی، چھت کی طرف منہ اٹھا کر نیم وا آنکھوں سے فضا میں گھورنے لگی۔
زبان ہونٹوں پر پھیر کر بوسے کا ذائقہ پھر سے چکھا۔ لطف ابھی بھی برقرار تھا۔ پکار اٹھی ”اے مالک یہ لطف کبھی ختم نہ ہو، اس بوسے کا مزہ زندگی بھر برقرار رہے۔ یہ لمحہ جاوداں ہو جائے۔ طلسم بوسہ امر ہو جائے۔“
دعا کرتے کرتے رو پڑی
اور
وہ ہنس پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

This story is taken from Le Solitarie (1917), Ada Negri’s first collection of stories.

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply