سرکاری دستاویزات اور شادی کی عمر۔۔عامر کاکازئی

جولی ایل ایل بی ٹو کا عدالت کا ایک سین ہے کہ ایک شخص روتا دھوتا عدالت میں دہائی دیتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ مگر جج کہتا ہے کہ دیکھو یہ میرے پاس تمہاری سرکاری ڈیتھ رپورٹ ہے جس کے مطابق تم مر چکے ہو۔ اگر تم زندہ ہو تو سرکاری کاغذ پر ثبوت لاؤ۔
ایک لڑکا یا لڑکی پاسپورٹ بنانے جب افس جاتے ہیں تو ان سے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہےکہ اگر وہ اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیں تو ہی بن سکتا ہے، ورنہ فارم ب اور والد صاحب کی موجودگی کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اس وقت ہسپتال بھیج کر ڈاکٹر سے اس کی عمر کی ویری فیکیشن نہیں کروائی جاتی۔
ایک لڑکی یا لڑکا وراثت کے قانون کے تحت جب تک اٹھارہ کا نہیں ہو جاتا تب تک اسے وراثت سے کچھ نہیں ملتا بلکہ اس کے گارڈین کو جائداد پر نگران بنا کر بیٹھا دیا جاتا ہے۔ اس وقت کوئی بھی جج اسے ہسپتال بھیج کر اس کی عمر کی ویری فیکیشن نہیں کرواتا بلکہ فارم ب یا شناختی کارڈ کے تحت فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
ایک اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکے سے کوئی جرم سرزد ہو جاتا ہے تو اس پر جووئینایل جسٹس سسٹم ایکٹ کے تحت کیس چلایا جاتا ہے۔ اس کی عمر کا تصفیہ بھی اسی سرکاری کاغذ جیسے شناختی کارڈ یا فارم ب کہتے ہیں کے تحت فیصلہ کیا جاتا ہے۔ نہ کہ اسے ہسپتال بھیج کر اس کی عمر کا تعین کیا جائے۔(مستثنیات چھوڑ کر)
ڈرائیونگ لائسنس لینے جاؤ تو شناختی کارڈ کی بنیاد پر لائسنس دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے نہ کہ آفیسر اس کی عمر کا فیصلہ کسی میڈیکل رپورٹ سے کرواتے ہیں۔
دنیا بھر میں عمر کے تعین کا سب سے بڑا پروف شناختی کارڈ ہے اور شناختی کارڈ کے لیے فارم ب کا ہونا ضروری ہے اور فارم ب بنانے کے لیے برتھ سرٹیفیکیٹ لازمی ہے اور ان سب کے بنانے کے لیے والد کا شناختی کارڈ ضروری ہے۔ اس وقت کوئی بھی افسر، لڑکے یا لڑکی کو ہسپتال بھیج کر اس کی عمر کی تصدیق نہیں کرواتا۔
میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلے کے وقت والد کا شناختی کارڈ اور فارم ب مانگا جاتا ہے نہ کہ کوئی میڈیکل سرٹیفیکیٹ۔
فوج ہو یا سول کی نوکری، اسے حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ لازمی ہے۔
کسی بھی سرکاری گواہی کے لیے شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ اس وقت بھی عمر کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہیں مانگا جاتا۔
پاکستان میں عمر کے تعین کے لیے برتھ سرٹیفیکیٹ، فارم ب اور شناختی کارڈ جیسے سرکاری دستاویزات کی ضرورت پڑتی ہے۔
الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے نہ کہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے شادی کو لیگل کرنے کے لیے ایک نکاح خوان کو مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس نکاح نامہ کے نام سے ایک سرکاری سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے۔ اس میں دولہا، دلہن اور گواہان کے نام، ولدیت اور شناختی کارڈ کا نمبر لکھا جاتا ہے۔ جو کہ اس میرج سرٹیفیکیٹ کو لیگل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ اسے ایک جعلی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔
پولیس ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو ہوٹل کے کمرے سے پکڑتی ہے، دونوں یہ کلیم کرتے ہیں کہ شادی شدہ ہیں۔ مگر پولیس سے لے کر عدالت تک اس بات پر کیوں مُصر ہوتے ہیں کہ حکومتی کاغذ (نکاح نامہ) لاؤ تب نکاح کو درست مانیں گے؟ نہ صرف نکاح نامہ بلکہ شناختی کارڈ بھی مانگے جاتے ہیں۔ ان کے کہے ہوئے پر کیوں نہیں اعتبار کرتے؟ بلکہ آوارہ گردی کے الزام میں سزا دیتے ہیں۔
دعا کاظمی کیس میں گواہ اور نکاح خواں دونوں اس نکاح سے انکاری ہیں اور فراڈ کے جرم میں جیل میں ہیں۔ مطلب نکاح ہی جعلی ہوا، اب نکاح نامہ جعلی ہے، شناختی کارڈ نہیں ہے، حکومتی دستاویزات کے مطابق دعا کاظمی چودہ سال کی ہے مگر اس سب کو جج نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے صرف ایک میڈیکل رپورٹ کے تحت دعا کو اپنے بواے فرینڈ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی نکاح خواں اور گواہ کو جعلی حکومتی ڈاکومنٹ بنانے پر جیل میں ڈال دیا۔جبکہ وہ ڈاکٹر جس نے جعلی میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنایا، اسے نوکری سے سسپینڈ کیا جا چکا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کچھ لڑکے لڑکیاں اپنی اصل عمر سے کبھی زیادہ اور کبھی کم لگتے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ حرف آخر نہیں ہے۔
دعا کے والدین کے وکیل فیاض رامے کے مطابق جس ڈاکٹر نے میڈیکل کیا اور جھوٹا عمر کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا، اس ڈاکٹر کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
کورٹ میں دو طرح کے ایویڈنس کے ڈاکومنٹس پیش کیے جاتے ہیں ایک پرائمری اور دوسرے سیکنڈری۔ پرائمری ایویڈنس میں نادرہ رجسٹریشن جس میں شناختی کارڈ، فارم ب ، نکاح نامہ اور برتھ سرٹیفیکیٹ شامل ہوتے ہیں جبکہ سیکنڈری ایویڈنس جو کہ میڈیکل پر مشتمل ہوتا ہے، یہ اس وقت کروایا جاتا ہے جب پرائمری ایویڈنس موجود نہ ہوں، نہ کوئی پاسٹ ڈیٹا ہو نہ ہی کوئی اسسمنٹ۔ جبکہ ڈاکٹر کی رپورٹ اسسمنٹ ہوتی ہے نہ کہ وہ حقیقی ایویڈنس ہوتا ہے۔
برٹش حکومت نے 1929 میں ایک چائلڈ میریج رسٹرینٹ ایکٹ نافذ کیا تھا جس کے تحت انڈیا میں لڑکے کی عمر اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر سولہ سال مقرر کی گئی تھی۔ اُسوقت بھی مسلمان مُلا نے مخالفت کی تھی اور بدقسمتی سے سو سال  گزرنے کے بعد بھی ابھی بھی پاکستان کے تین صوبوں پنجاب پختون خوا اور بلوچستان میں برٹش ایکٹ نافذ ہے۔ صوبہ سندھ اور پاکستان نے ترمیم کر کے اسے اٹھارہ سال کر دیا ہے۔ اب اگر دیکھیں تو پاکستان ایک کنفیوزڈ  ریاست ہے، جس ملک میں شناختی کارڈ اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک بچہ اٹھارہ سال کا نہیں ہو جاتا، مگر اسی ملک کے تین صوبہ پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان لڑکی کو بغیر شناختی کارڈ کے شادی کی اجازت دیتا ہے۔
یہ کتنی بڑی کنفیوزڈ ریاست ہے کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے 1962 میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستانی لا ء کے مقابلے میں ایک اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی اور اسے قدیم قبائلی مکتبہ فکرکے ماننے والے مُلاوں کے حوالے کر دیا، بدقسمتی سے کسی بھی حکومت کو اس کونسل کو ختم کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ مزید بدقسمتی کہ مارچ 2014 میں اس کونسل نے حکومت پاکستان کو یہ کہا کہ کسی بھی قسم کا قانون بنانا ٹھیک نہیں ہے جو اسلام کے متضاد ہو۔ اس میں شادی کی عمر کو پابند کرنا بھی شامل ہے۔ کونسل کے بقول شادی کی عمر کو پابند کرنا اسلام کے متضاد ہے۔ شادی کی کوئی بھی عمر فکس کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ جونہی بچہ بالغ ہو جائے اس کی شادی کر دو۔ اب اگر کوئی بچہ سات سال کا بالغ ہو جائے تو وہ شادی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ قبائلی فکر رکھنے والی کونسل اور چند ملا ممبر اسمبلی اس وقت بہت بڑی رکاوٹ ہیں کسی بھی ماڈرن قانون سازی کے لیے۔
پہلا سوال بغیر شناختی کارڈ کے شادی کی اجازت کیوں ہے؟
دوسرا سوال جب کورٹ بغیر شناختی کارڈ کے وراثت نہیں دیتی تو شادی کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟
جواب شاید دو باتوں میں پوشیدہ ہے
ایک ہم عورت کو ایک انسان ماننے کو تیار نہیں بلکہ صرف بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھتے ہیں۔
دوئم ہم ہزاروں سال پہلے کے پہاڑوں، صحراوں اور قبائلی کلچر سے نکلنے کو تیار نہیں۔

مگر اپن کو لگتا کچھ یوں ہے کہ منصف صاحب امیتابھ اور سری دیوی کے پرستار ہونے کے ناطے دعا کی شادی کو بھی، فلم خدا گواہ میں ہوئی شادی جیسی سمجھ بیٹھے جس میں امیتابھ اور سری دیوی کچھ یوں گنگنا رہے ہوتے ہیں کہ

تو مجھے قبول
میں تجھے قبول
اس بات کا گواہ خدا
خدا گواہ

Advertisements
julia rana solicitors
تیرے میرے پیارا کا خدا گواہ
اس بارات کا خدا گواہ

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ کوئی پولیس والا کسی جوڑے کو ہوٹل کے کمرے سے ایک ساتھ پکڑے اور نکاح نامہ مانگے تو پولیس کو دعا والا واقعہ یاد دلا کر یہ گنگنانا  چاہیے

کہ
میں اسے قبول
یہ مجھے قبول
اس بات کی تجھے کیا تکلیف
کیا تکلیف
حرف آخر
اس کیس کا نا مناسب اور عجیب و غریب فیصلہ ہمارے ناگفتہ معاشرے کی فیبرک کو مزید تباہ کر دے گا۔
اور
ہمیں بحیثیت قوم ہزاروں سال پہلے کے کلچر سے نکل کر موجودہ صدی میں داخل ہونا ہو گا۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply