شاعروں کی اقسام/یاسر جواد

پاکستان میں تین قسم کے شاعر ہیں۔ ایک وہ جو مشہور بھی ہیں اور قابلِ قدر بھی، جیسے فراز، فیض، منیر نیازی۔ ویسے عظیم الشان ظفر اقبال صاحب نے فراز کو ایک مضمون میں منع کیا تھا کہ مشہور ہونے کی راہ چھوڑ دے، جبکہ خود جناب اپنے نابکار بیٹے آفتاب اقبال کے ٹی وی مزاحیہ پروگرام کے توسط سے مشہور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شاعروں کی دوسری قسم غیر مشہور اور بڑے شاعروں کی ہے،جیسے ن م راشد، مجید امجد مصطفیٰ زیدی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے منٹو کے علاوہ ن م راشد کی سوچ کے ختنے کر کے اُسے پاکستانی بنانے کی ویسی ہی کوشش ہو رہی ہے، جیسے اشفاق احمد نے فیض کی ایک کتاب کا دیباچہ لکھ کر کی تھی۔

تیسری قسم میں وہ شاعر ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنی اہمیت بنانے کے لیے شاعری کو عشروں میں تقسیم کرتے، فنی محاسن پر گفتگو کرتے، وزن پر دست بہ گریباں ہوتے اور ایک دوسرے کو بے وزن کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ سب سے زیادہ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے مقالے بھی اِسی قبیل کے شاعروں پر ہوتے ہیں۔ اِن میں سے اکثر استاد ہیں۔

لیکن شاعروں کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، جنھیں پہلی تینوں اقسام سے نفرت بھی ہے، اور اُن کے قریب بھی ہونا چاہتے ہیں۔ یہ پھیرے باز ترکھان ہیں جو تیس چالیس سال پہلے گلی محلوں میں آواز لگایا کرتے تھے: منجی پیڑھی ٹھکا لئو۔ اُس وقت تک لوہے کے پائپ کی چارپائیاں صرف فوجیوں کی بیرکوں میں ہوتی تھیں۔ گھروں میں لکڑی کی چارپائیاں اور پلنگ استعمال ہوتے تھے جو کثرت استعمال سے یا موسمی تبدیلی سے ڈھیلے پڑ جاتے تھے، چولیں چوں چوں کرتی تھیں۔ اب چارپائی کو اُٹھا کر کہاں لے جاتے ترکھان کے پاس! سو سیلانی ترکھان سائیکل پر تیشہ، بسولا وغیرہ تھیلے میں لیے آواز لگاتا۔ وہ چارپائیوں اور پیڑھیوں کی چولوں میں باریک فانہ نما چپریں ٹھوکا کرتا تھا تاکہ وہ ہلیں نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ آج کل شاعروں کی ایک ٹک ٹوک نسل بھی اُبھر آئی ہے جس پر بات کرنا ہی زائد از ضرورت ہے۔ بیشتر پنجابی شاعروں کی طرح یہ صرف سنے جانے پر ہی داد پاتے ہیں۔ کاغذ پہ آ کر اپنی تمام اہمیت کھو دیتے ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply