بڑی عید پہ چھوٹی خوشیوں کا خون /عامر عثمان عادل

برسوں سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد نمازی ایک دوسرے سے بغلگیر ہوجاتے ہیں ۔ گرم جوش معانقے مصافحے ہر چہرہ مسکان لئے
یہی اس تہوار کی پہچان ہوتی ہے
اب کے برس میں نے ایک شہر کی مسجد میں نماز عید ادا کی اور پھر حیرت کی تصویر بنے اہل کرم کا تماشا دیکھتا ہی رہ گیا
جن سے شناسائی تھی وہ تو گلے مل لئے مگر باقی سب حضرات منہ پھیر کر آگے بڑھ کر کسی جاننے والے کے گلے جا لگتے ہمت کر کے ایک آدھ کوشش کی لیکن ناگواری کا احساس عیاں تھا
یا الہی ! ہم دین کی اصل روح سے کس قدر دور ہو گئے کہ عید کے سب سے بڑے مقصد کو ہی بھول گئے
جذبہ اخوت بھائی چارے کی نفی کر دی
اللہ کے گھر میں جہاں کسی کا کوئی رتبہ ہوتا ہے نہ امتیاز محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور پھر عید سعید کا مبارک دن
اگر اس ایک دن کے لئے ہم اپنے اندر کی” میں ” کو نہیں مار سکتے تو پھر کیا فائدہ نماز روزے قربانی کا
یعنی اب یہ نوبت آن پہنچی کہ ہم کسی اجنبی سے عید بھی نہیں ملتے
ایک اور منظر
پٹرول پمپ پہ رکا شیشہ نیچے کیا
پٹرول ڈالنے کی ڈیوٹی پہ مامور لڑکا کسی روبوٹ کی مانند لپکا
کچھ کہنے سے قبل میں نے پہل کرتے ہوئے کہا عید مبارک
وہ میری جانب حیرت سے دیکھنے لگا جیسے سمجھ نہ آیا ہو
دوبارہ اسے عید مبارک کہا خیریت دریافت کی تب کہیں جا کے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی
ایک منظر اور
اسی روز ایک معروف بیکری پہ جانا ہوا
سامان کاونٹر پہ رکھا کہ بل بنوا لوں تین نوجوان سیلز مین کھڑے تھے جنہیں سلام کر کے عید مبارک کہا
انہیں بھی جیسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہ آیا ہو
دوبارہ کہا آپ سب کو عید مبارک
عید کے دن ہماری خدمت کے لئے گھر والوں سے دور ہیں
رب کعبہ گواہ ہے !
ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو ہماری مسلمانی کا سارا پول کھول رہے تھے
کہنے لگے اچھا لگا آپ نے ہمیں عید مبارک کہا ورنہ صبح سے کھڑے ہیں یہ لفظ کانوں میں نہیں پڑا
کس سے گلہ کروں
سلام میں پہل کرتے ہوئے ہمارے لب سلے ہوتے ہیں خاص طور پر کسی اجنبی کو
عید کے دن بھی اب ہماری انا تکبر آڑے آنے لگا ہے کہ ہم دوسروں سے گلے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے
پٹرول پمپ پہ کھڑا لڑکا ہو یا کسی ریستوران کے باہر گارڈ
کوئی ریڑھی والا ہو یا کسی شاپنگ مال کا سیلزمین
ان کو سلام کرنے سے ہماری کوئی ہتک نہیں ہوتی
یہ بھی انسان ہوتے ہیں
سوچ رہا ہوں اس بڑی عید چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں بھی ہماری انا کی بھینٹ چڑھ گئیں
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply