سانحہ مارتونگ شانگلہ/صدام مارتونگی

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔۔۔

میں گاؤں سے باہر ہوں۔ کل شام موبائل کے ذریعے اس جانکاہ حادثے کی اطلاع ملی،
خبر نہیں یہ تو قیامت تھی جس سے میرے گاؤں کے لوگ گزر رہے تھے اور جسے میں اور میرا دوست آفاق اور پردیس میں رہنے والے تمام مسافر دور بیٹھے محسوس کررہے تھے۔

ہم مسلسل رابطے میں تھے ایک ایک بچے کی موت کی اطلاع ملتی رہی اور کلیجہ پھٹتا رہا۔

یہ ایک دو تین گھروں کا صدمہ نہ تھا یہاں پورا گاؤں صدمے سے دو چار تھا۔ ہر گھر میں واویلا تھا ۔ ہر گلی کوچے میں کہرام مچا ہوا تھا۔

میرے گاؤں کے لوگ بے بس تھے۔ ان کے پاس وسائل نہ تھے۔ اپنی مدد آپ لگے ہوئے تھے لیکن وہ کر کیا سکتے تھے ؟ کچھ نہیں۔۔

ہاں وہ تو صرف لاشیں نکال سکتے تھے گن سکتے تھے

بچانا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا
تقدیر کو کوئی ٹال نہیں سکتا

جو خدا چاہے وہی ہوتا ہے

لیکن اپنی بے بسی انسان کو رلا دیتی ہے تبھی میرے گاؤں کے لوگ بلک بلک کر رو رہے تھے۔

یہ صرف کہاوت تھی کہ ( مرگ لہ مارتونگ خہ دے ) موت کے لئے مارتونگ بہترین جگہ ہے اب یہ کہاوت حقیقت بن چکی تھی
لیکن ہم نے کبھی ایسی تعبیر کے بارے میں سوچا نہ تھا۔

مارتونگ نے ایک مرتبہ پھر اپنی محرومیوں کا ماتم کیا
اپنی بد قسمتی اور بد حالی چیخ چیخ کر دنیا کو بتائی
ارباب اختیار کو جھنجھوڑا

میرے گاؤں کے لوگ اجتماعی جنازوں سے بھی نا بلد تھے
لیکن وہ جوق در جوق پُرنم آنکھوں کے ساتھ ان ننھے منے پھولوں کے اجتماعی جنازوں میں شریک ہوئے۔

جنازے میں کیا رقت آمیز مناظر تھے لوگ زار و قطار رو رہے تھے کہ آسمان نے بھی آنسو بہائے

ان پھولوں  کو جو ابھی کھلے نہ تھے ابھی مہکے نہ تھے جو کھیلتے کھودتے ریتلے  تودے کے نیچھے آئے ان کو زیر خاک کرنا انہیں دفنانا کتنا مشکل ہوگا۔
یہ اندازہ آج ہر کوئی لگا سکتا ہے

لیکن ان کے والدین کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی یہ صرف وہی جانتے ہیں

مولا انہیں صبر دیں، اور صبر کے بدلے اجر دیں

Advertisements
julia rana solicitors

مولا ہمیں ایسے حادثات سے مزید بچائے رکھیں،آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply