اوّلین نثر نگار بھٹیارنیں/ناصر خان ناصر

ایک زمانہ تھا مشاعروں کی ہی طرح داستان اور قصہ گو چوپالوں میں بیٹھ کر انتہائی  لچھے دار قصے داستانیں یا کہانیاں دلفریب باتوں کے پھندنے لگا لگا کر سناتے تھے۔ دلی کے مرزا مچھو بیگ کی شہرت صدیوں بعد بھی ان ایوانوں گلی کوچوں میں گونجتی ہے جن گلیوں کے روڑے بھی ایسی صاف مسجع و مرصع آپ گنگ و جمن سے دھلی زبان بولتے تھے کہ

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔
اس سے قبل ملک بھر میں جرنیلی سڑک پر یکے گھوڑ سوار، ہاتھی، پالکیاں، ہوادار، تانگے، تامچان اور ریڑھے بیل گاڑیاں ہی چلا کرتی تھیں تو ہر پانچ کوس پر بھٹیارنوں کے آستانے ٹھکانے ہوا کرتے تھے جہاں تازہ گرم کھانے، گھوڑے ٹٹو کا راتب گھاس دستیاب رہتا۔ آرام کرنے کے لیے چارپائیاں پلنگ چاندنیاں بچی رہتیں۔ تندور کے ساتھ ساتھ حقہ پانی، پان الائچی، تمباکو اور دیگر جملہ سامان آسائش و ستائش موجود رہتے۔

شام ڈھلے، جب چاند ستارے اپنی لوریاں سنانے لگتے تو یہ منہ کی سخت میٹھی زباندان بھٹیارنیں تھکے ہارے مسافروں کو اپنی اپنی سرائے میں ایسی دلنشیں زبان میں نمک مرچ لگا کر چٹخارے دار قصے سنا کر ایسا مسحور کرتیں کہ راہ چلتے مسافر اپنی منزل بھول جاتے۔
تابناک ماضی کی گپھاؤں سے نکلی صور کی صورت بلند ہوتی، خوبصورت سپنے کی سی تصویر جو اپنے منہ آپ بولتی ہے تو سات سروں کی رکمنی کو کرشن بھگوان کے رتھ میں بٹھال کر وقت کے ششو پال سے کہیں دور عافیت کی باہوں میں لے جاتی ہے۔۔ اگر لفظوں حرفوں کی زبان ہوتی تو وجدان میں آ کر اپنے سُریلے لحن میں یہی بانگ درا گیت گنگناتے۔

پورن بھگت کے از حد دلچسب قصے کے ایک اور بے حد اہم کردار لاہور کی رانی سندران کا گزران و کلیان بھی ٹلہ جوگیاں آ کر گرو گورتھ ناتھ کے آگے ماتھا ٹیکنے سے ہی ہوا۔

قادر کے پورن بھگت کے قصے میں مرض عشق میں گرفتار رانی سندراں کو اپنے محبوب کے درشن پانے کے لیے اسی کعبہ عشق کے آ کر پھیرے لینے پڑے۔
ع
رے رنگ محل تے چڑھ کے تے، رانڑی گاوندی غماں دے گیت لوکو!

میں تاں بھلی آں تسی نہ ہور کوئ لائیو جوگیاں نال پریت لوکو!
جنگل گئے نہ بہڑے سندراں جوگی نہویں جے کسے دے میت لوکو!
پاکستان کی دھرتی کا یہ انمول ہیرا کس طرح مٹی میں رلُ رہا ہے! کاش کوئ پارکھ جوہری آ کر اسے مکمل خاکستر ہونے سے بچا لے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان اپنے وسائل کم ہونے کی بنا پر اگر علم و ثقافت کے اس انمول ہیرے کو ضائع ہونے سے نہیں بچا سکتا تو اس کو چاہیے کہ خیر سگالی کے لیے ہی پڑوسی ملک کے کچھ سادھوؤں کو اس اجاڑ نگر کو پھر سے آباد کرنے کی آگیا دے دے۔ دھرتی کی اس چندن مالا کا روپ سروپ نکھر گیا تو بھارت اور پوری دنیا ہی سے یاترا کے لیے اتنے ٹورسٹ لوگ اس استھان پر آیا کریں گے کہ سنبھالنا مشکل پڑ جائے گا۔ یہ جگہ تو کاشی ہی کی طرح قدیم ، پوتر اور مقدس تر ہے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، ملتان اور سندھ و بلوچستان کے کئی شہروں میں موجود قدیم گردوارے، مندر اور پرانے قلعے، محلات ایسے ایسے بے نظیر خزانے ہیں جن کو محض مذہبی بنیاد پر اس لیے ضائع کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنے عمارات کو حفاظت سے نہ رکھنا اور وقت کے ظالم ہاتھوں سے تاراج ہوتے دیکھ کر بھی کچھ نہ کرنا ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے جو اپنی ٹانگوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply