انعام راناکی شخصیت اور اس کا فن/تبصرہ-سلمیٰ اعوان

انعام رانا سے پہلا تعارف ان کی’’مکالمہ‘‘سوشل میڈیا کی ایک پاپولر ویب سائٹ سے ہوا۔ مضمون بھیجا۔فوراً چھاپا ہی نہیں گیا،بلکہ چند خوبصورت سطور بھی تعارفی طور پر شامل کی گئیں۔
مکالمہ سے تعلق کا آغاز ہوا تو کبھی کبھی انعام رانا کے نام سے ان کی تحریر بھی پڑھنے کو ملتی۔کسی اہم سوشل ایشو پر قارئین کے ساتھ بحث و مباحثوں میں اٹھنے والے پوائنٹس پر ایسی جامع اور مد لّل تحریر پڑھنے کو ملتی جو مصنف کی علمی اور فکری سوچ کو اجاگر کرتی نظر آتی۔

انعام رانا اپنے قول و فعل میں کس درجہ سچا اور متوازن ہےاس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب اُس نے عمران خان کی پہلی انتخابی کمپین میں اپنا کردار سرگرمی سے نبھانے کا فیصلہ کیا۔مختصر سی تحریر میں اعلان تھا کہ ’’مکالمے‘‘کا پلیٹ فارم چونکہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے لیے ہے ۔اس کی کلیدی حیثیت میں میرا عمران خان کو سپورٹ کرنا اس کی حمایت میں کچھ لکھنا مناسب نہیں۔مجھے ہر طور غیر جانبدار رہنا ہے۔میں دستبردار ہورہا ہوں اِس ذمہ داری سے۔

یہ کردار ہمارے ہاں اب ناپید ہوگیا ہے۔شاید اسی لیے میں سخت تعجب میں تھی اور متاثر بھی بہت تھی۔

جولیا نا سے کاروبار میں شراکت،اس سے محبت اس سے شادی کی تفصیلات کسی خوبصورت افسانے سے کم نہیں جسے انعام نے لکھا ۔عملی طور پر مظاہرہ کیا۔اِس مظاہرے کے ایک سین میں جو دعوت ولیمہ کی صورت لاہور میں منعقد ہواجس میں نیلم احمد بشیر اور میں شامل ہوئیں۔اس کے بہت سارے چاہنے والوں میں گل نوخیز اختر جیسا نامور کالم نگار اور طرحدار مزاح نگار بھی شامل تھاجس سے ملنے اور اس کی صحبت میں چند گھنٹے گزارنے کی اپنی سرشاری تھی۔

بڑوں کے لیے اس کی شخصیت میں احترام اور عزت کے جس عنصر کا رچاؤ ہے وہ ہم جیسوں کے دلوں میں ممتا بھری محبت کو پیدا کردیتا ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ فیس بک پر اس کے بازؤوں میں ننھی منی سی بچی کو دیکھ کر میں نے  خوشی محسوس کی تھی کہ چلو اللہ نے اُسے اولاد جیسے عظیم تحفے سے نواز دیا ہے۔مگر میں تو جانتی نہ تھی کہ محبت کے اِس سفر میں اس پر بیتی کیا؟پھر اس کی ایک دلچسپ تحریر پڑھنے کو ملی تو جانا اِس محبت بھرے ازدواجی بندھن میں جب اُسے دڑاریں پڑنے کا احساس ہُوا، اس نے اِسے بکھرنے سے بچانے کی جی جان سے کوشش کی اور جب دیکھا اور محسوس کیا کہ نہیں اب بچھڑنا مقدر ہوچکا ہے توساحر لدھیانوی کے جذبات کو جی دار مرد کی طرح عملی شکل دی کہ
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

آفرین ہے انعام رانا تم پر کہ آج بھی تم دونوں کے بیچ باہمی دوستی اور احترام کا رشتہ قائم ہے۔ فرم فیملی لاء  پریکٹس بھی مشترکہ ہے۔تمہارا یہ کہنا موتیوں میں تولے جانے والا ہےکہ رشتہ کرنا آسان ہے۔نبھانا مشکل اور ایک مکمل آرٹ ہے۔لیکن جدا ہونا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ذرا بات اس کی تحریروں کے حوالے سے ہوجائے۔اس کے ہاں سادگی بھرا بیانیہ ہے۔یہاں واضح ہو کہ یہ سادگی بڑی پُرکار ہے۔بظاہرثقیل الفاظ کی سرخی پاؤڈر کی لیپا پوتی سے خالی ہے مگر سچائی اور خالص پن کی شوخی و چلبلے پن کی دلآویز چمک سے سجی ہوئی ہے۔ دنیا’’ گھومے ہوئے ہوں‘‘ سے حاصل کردہ تجربات و مشاہدات کا تاثر دیتی ،کہیں تشبیہوں سے لشکارے مارتی، آپ کو اپنی گرفت میں جکڑتی ،تجسّس و بیتابی سے اگلا صفحہ پلٹاتی ،کہیں آپ کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیرتی اور کہیں ملال کا سا تاثر دیتی اور اختتام پر ایک پیغام ایک سوچ کی صورت آپ کے اندر اتارتی اور روشن کرتی نظرآتی ہے۔انعام رانا آپ پر مجھ جیسی لکھاری عورت کو فخر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply