اپنے آپ کو بدلیں ۔۔۔

ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ تو اپنی زندگی میں معمولی صلاحیتوں کے باوجود بھی کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن کچھ جس حال میں پیدا ہوئے ہیں اُسی حال میں ہی زندگی گزارتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی سوچا جو کامیاب ہیں ان میں خاص بات کیا ہے؟ کبھی کسی کامیاب شخص سے اپنی زندگی کا موازنہ کر کے دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس شخص میں کوئی ایسا خاص ہنر نہیں ہے جو آپ میں نہ ہو ۔ تو پھر وہ کامیاب کیوں ہو گیا ۔ اصل میں یہ دل موہ لینے کا فن ہوتا ہے جو خود میں پیدا کرنا پڑتا ہے۔ شاید آپ نے کبھی غور کیا ہو کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ہر کوئی ملنا پسند کرتا ہے ، وہ کسی محفل میں جائیں تو لوگ ان کے لیے جگہ بناتے ہیں ۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اس کی قربت میں زیادہ سے زیادہ وقت ملے، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں لوگ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟

لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فن ہوتا ہے ۔ ویسے تو سبھی ہی اچھا بول لیتے ہیں ، لیکن کامیاب سپیکر وہی بنتا ہے جسے عوام و خاص کے مزاج سے آشنائی ہوتی ہے ۔ یہ مزاج سے آشنائی کوئی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ خود حاصل کرنی پڑتی ہے اپنے ذاتی تجربے سے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دو مقررین ایک ہی طرح کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن مقبولیت ان دونوں میں سے کسی ایک کو حاصل ہوتی ہے ۔ اصل میں یہ عوام کے ذہنوں پہ قابو پانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ آج کل ایک چیز جو زبان زد عام ہے کہ پیسہ انسان کو مقبول بنا دیتا ہے ۔ کچھ حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہر حد تک یہ بات درست نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو غربت سے اس قدر مقبول ہوئے ہیں کہ آج کل ان کا ہر جگہ چرچا ہے ۔ ایسی کئی مثالیں آپ کو مل سکتی ہیں ۔ میڈیا انڈسٹری کو ہی دیکھ لیں کہ بہت سے لوگ ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں لیکن چینلز پر قبضہ چند لوگوں کا ہی ہے ۔ وہ چند لوگ ایسے ہیں جنہوں نے حالات کو سمجھا ، عوام کے مزاج کو جانا اور ترقی کرتے ہوئے مقبول ہو گئے۔

ایک جوڑے کی میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ جنہوں نے کیرئیر کا آغاز سٹی 42 سے 2012ء میں کیا لیکن 2017ء میں وہ جیو نیوز پر آن پہنچے ہیں ۔ آخر وجہ کیا ہے ؟ دراصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نکھارا اور ہم انھیں دیکھتے ہی رہ گئے۔ لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کریں ۔ جسے دیکھیں مسکراہٹیں بکھیریں ۔ دوسروں کو عزت دیں گے تو لوگ آپ کو بھی عزت دیں گے ۔ چند لفظوں میں کسی کی تعریف اور ساتھ ایک ہلکی سی مسکان کسی کو بھی آپ کا گرویدہ بنا سکتی ہے ۔ میں ڈاکٹرمحمد بن عبدالرحمان العریفی حفظہ اللہ کی کتاب ’’ زندگی سے لطف اُٹھائیے ‘‘ سے ایک مثال ذکر کرتا ہوں ۔
کہتے ہیں ’’ میں عرصہ تیرہ سال سے ملٹری کالج کی جامع مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔ مسجد کی طرف جاتے ہوئے میں ایک قدِ آدم دروازے سے گزرتا ہوں ۔دروازے پہ ایک چوکیدار تعینات ہے ۔ دروازے کو وقت پر کھولنا اور بند کرنا اُس کی ذمہ داری ہے ۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ہر بار میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسکراہٹ کا فن آزماؤں، چنانچہ میں ہاتھ سے سلام کا اشارہ کرتے اور واضح طور پر مسکراتے ہوئے گزر جاتا۔ نماز کے بعد اپنی گاڑی میں سوار ہوتا اور گھر لوٹ آتا۔ نمازکے دوران عموماََ میرا موبائل پیغامات اور فون کالوں سے پُر ہوجاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھ کر میں پیغامات پڑھنے میں مشغول ہو جاتا ہوں، اسی لیے واپسی پہ میں سلام کیے اور مسکرائے بغیر گزر جایا کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دن میں مسجد سے باہر آرہا تھاکہ چوکیدار نے مجھے روک لیا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ اُس نے پوچھا : ’’ یا شیخ ! کیا آپ مجھ سے خفا ہیں ؟ ‘‘ میں بولا: ’’کیوں ؟‘‘
اس نے کہا : ’’کیوں کہ مسجد کی طرف آتے ہوئے آپ سلام کرتے اور مسکراتے ہیں ۔ تب آپ بہت خوش نظر آتے ہیں ۔ لیکن واپسی پر نہ آپ خوش ہوتے ہیں اور نہ مسکراتے ہیں ۔‘‘ وہ ایک سیدھا سادا آدمی ہے۔ وہ بے چارہ قسمیں کھانے لگا کہ اُسے مجھ سے محبت اور مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوتا ہے ۔ میں نے اُس سے معذرت کی اور اپنی غفلت کا سبب بتایا ۔تب جا کر وہ مطمئن ہوا۔ ‘‘۔۔۔۔تو قارئین اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسکراہٹیں آپ کو مقبول بناتی ہیں اور آپ کے دشمنوں کو بھی مجبور کرتی ہیں کہ وہ آپ سے محبت کریں ۔ لوگوں کے مزاج کو پرکھیں ۔ ہر کسی سے اس کی زندگی کے حالات کے مطابق بات کریں وہ آپ میں دلچسپی لے گا ۔ ان شاء اللہ خوش رہیں ، خوش رکھیں اور مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں ۔

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply