گنجے فرشتے اور سعادت حسن کا رائٹرز بلاک/مسلم انصاری

“کیا یہ حقیقت آشکارا نہیں کہ یہ قوم اور مذہب سراب نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔”
جو مذکورہ عبارت ابھی آپ نے پڑھی ہے یہ بھی سعادت حسن منٹو کی لکھی ہوئی ہے ۔ وہی منٹو جس کے بارے میں آج تک عوام الناس ایک درست شخصیت کا فیصلہ نہیں کرسکے!
چھوڑ دیں اس بات کو کہ  11 مئی وہ تاریخ ہے جب برٹش رولڈ انڈیا کے پنجاب سمرالہ میں 1912 کے سال سعادت حسن پیدا ہوا یا یہ کہ وہ 18 جنوری پاکستان پنجاب لاہور میں دارِ فانی سے چلا گیا ۔ پھر آپ یہ مدعی بھی چھوڑ دیں کہ گوگل پر منٹو لکھنے سے وہ ایک پاکستانی رائٹر کے طور پر مینشن ہوتا ہے حالانکہ اس کے قلم کی حدود سرحدیں، لکیریں یا عدالتی مدعے محدود نہیں کرسکے!
یہ سب وہی باتیں ہیں جنہیں آپ بے شمار بار ردوبدل اور مختلف لکھاریوں کے ناموں سے پڑھ چکے ہیں۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ :
سعادت حسن پر ٹھنڈا گوشت کا مقدمہ قریب ایک سال چلا، ماتحت عدالت نے تین ماہ قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی  سزا سنائی۔
کون نہیں جانتا کہ اس واقعے کے بعد سعادت حسن کو لکھنے سے کوفت ہوگئی اور وہ خود کو ایک کمرے میں بند کرنے کا خواہاں رہا۔۔
جیسے کہ وہ لکھتا بھی ہے کہ وہ سوچنے لگا : “بلیک مارکیٹنگ شروع کردوں اور ناجائز طور پر شراب کشید کرنے لگوں” مگر پھر اسے ڈر بھی تھا کہ ساری شراب وہ خود ہی پی جائے گا۔

الاٹمنٹ کے لئے دی گئی درخواست کے رَد کرنے کا جواز اس کا ترقی پسند لکھاری ہونا بنایا گیا جبکہ دوسری جانب ترقی پسند لکھاریوں کے گروہ نے اسے رجعت پسند قرار دیکر اپنی فہرست سے کاٹ دیا
مگر پھر نت نئے تجربے کرنے والا، رجعت پسندوں کی فہرست سے کاٹا، ترقی پسند کے عنوان سے رد کیا گیا اور طویل عرصہ رائٹرز بلاک کا شکار سعادت حسن اپنی نئی کتاب “گنجے فرشتے” میں ایک مبصر، تجزیہ و خاکہ نگار اور ناقد بن کر اُبھر آیا۔

وہ ہر کہانی میں الگ طور پر سامنے رہا، اس نے سچ کو سچ ہی لکھا اور جھوٹ پر کسی قسم کا پردہ نہیں ڈالا، جیسے منٹو کو اوچھے گھاؤ اور بھدے زخم پسند نہیں تھے، اسے جھوٹ بھی پسند نہیں تھا لکھتے لکھتے اس نے اپنا باطن دکھانے میں بھی ہچکچاہٹ پیش نہیں کی۔۔
اس نے پوری کتاب میں جب وہ اوروں کا تذکرہ کررہا تھا
اپنا تذکرہ بھی اتنا ہی کھلا لکھا تاکہ اس کا اپنا قاری اس کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہ پالے۔

منٹو محبّ وطن تھا یا نہیں مگر اس کی مذکورہ کتاب کا پہلا مضمون محمد علی جناح پر تھا، سعادت حسن نے انہیں عقیدت سے لکھا!
کیا محب وطن منٹو فحاشی پھیلاتا رجعت پسند تخلیقی فن کار تھا ؟؟ یا وہ شرابی اور ترقی پسند مسلمان نہیں تھا ؟؟

بہر کیف دونوں صورتوں میں اس نے لکھا :
“اسلام اور ہادیء  اسلام کے خلاف لوگ دریدہ دہنی کرتے رہے ہیں لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا پاکستان کے خلاف بھی لوگ ایک عرصے تک زہر اگلتے رہیں گے اس سے کیا ہوتا ہے کوئی آرٹسٹ کسی کی مذہبی دل آزاری کا باعث نہیں بن سکتا۔”
یہ مدعا نہیں کہ :
وہ ننگ ظاہر کرتا، خواہشات ابھارتا اور فحش بیانی کرتا ایک انسان تھا
مدعا  یہ تھا کہ اس نے لکھا : “میں ایک بیوی کا شوہر اور تین بیٹیوں کا باپ بھی ہوں!”

مدعا  یہ نہیں ہے کہ :
سعادت حسن نے کاٹ دار، تلخ اور نوکیلے جملوں پر حقائق کا زہر لگاکر انہیں اپنے قاری کے اندر گھونپ دیا اور خود دور کھڑا اس اذیت کا تماش بین بن گیا

بلکہ مدعا  یہ ہے کہ اس نے لکھا :
“اداکاری معیوب کیوں سمجھی جاتی ہے؟ کیا ہمارے خاندان کے حلقے میں ایسے افراد نہیں ہوتے جن کی ساری عمر فریب کاریوں اور ملمع سازیوں میں گزر جاتی ہے؟ جب وہ لوگ ساری عمر اداکاری کے باوجود معتبر سمجھے جاتے ہیں تو ایک سچ مچ کا اداکار کیوں بُرا ہے؟”

مدعا  یہ نہیں کہ :
آج منٹو کس صورت میں دستیاب ہے جبکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ وطن وطن کھیلنے والے اسے گلیوں میں گھسیٹتے، لہو لہان کرتے اور ممکن تھا کہ مذہبی علم بردار اس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے

مدعا  یہ بھی نہیں کہ :
وہ تقسیم ہندوستان کا قائل تھا یا وہ واپس جانے کا خواہاں نہیں تھا بلکہ بات فقط اتنی ہے کہ اس نے لکھا
“14 اگست کا دن میرے سامنے بمبئی میں منایا گیا پاکستان اور بھارت دونوں آزاد ملک قرار دیے گئے تھے لوگ بہت مسرور تھے مگر قتل اور آگ کی وارداتیں باقاعدہ جاری تھیں ہندوستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے تھے ،کانگرس کے ترنگے کے ساتھ اسلامی پرچم بھی لہراتا تھا سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہندوستان اپنا وطن ہے یا پاکستان اور وہ لہو کس کا ہے جو ہر روز اتنی بے دردی سے بہایا جا رہا ہے؟ وہ ہڈیاں کہاں جلائی جائیں گی یا دفن کی جائیں گی جن پر سے مذہب کا گوشت پوست چیلیں اور گدھ نوچ کر کھا گئے ہیں؟ اب کہ ہم آزاد ہوئے ہیں ہمارا غلام کون ہوگا؟؟ جب غلام تھے تو آزادی کا تصور کرسکتے تھے اب آزاد ہوئے ہیں تو غلامی کا تصور کیا ہوگا ؟؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آزاد ہوئے بھی ہیں یا نہیں؟”

عزیز دوست! آپ کو کیا لگتا ہے؟؟
68 برس قبل روپوش ہوچکے سعادت حسن کی مدح میں لکھی جانے والی آج کی سطریں اس سے چھینی گئی عزت نفس کا تاوان ہیں؟

یا وہ اس کی باتیں چھاپتے، اس پر تنقید کرتے، اسی کے نام سے پیسہ کماتے اور ملک کی خرید و فروخت کرتے انسانی ہجوم کو کہیں سے چھپ کر دیکھتا ہے اور پھر زور سے “ہپ ٹلا” کا نعرہ مار کر آگے بڑھ جاتا ہوگا؟

یا وہ کسی گلی سے گزرتے ہوئے کہتا ہو “گڑگڑ دی لالٹین”؟

یا ہو سکتا ہے  منٹو زندہ ہو مگر وہ یہاں سے بیزار ہو کر کہیں چلا گیا ہو؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

جیسے وہ تقسیم اور اس کے درد سے بے زار ہوکر ایک روز ہندوستان سے “کسی پاکستان” نامی جگہ چلا گیا تھا!
پتہ نہیں پتا منٹو کہاں ہے! مگر اچھا ہے نا ؟؟
کہ اب وہ یہاں نہیں ہے وگرنہ بڑی بے دردی کی موت مارا جاتا!!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply