کوانٹم فزکس کے تناظر میں نیکی اور بدی کا تصوّر/ تحقیق و تحریر: عمران حیدر تھہیم

ہماری اس 93.5 ارب نُوری سال کے فاصلے تک پھیل چُکی قابلِ مُشاہدہ کائنات کے اندر خالقِ کائنات نے ہر مادی شے کو انرجی، وائبریشن اور فریکوئینسی کے ایک خاص تال میل کے تابع کر کے آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک شے اس کائنات میں ایسی بھی ہے جو کہ انرجی، وائبریشن اور فریکوئینسی کے بغیر ایک non-existant اکائی کے طور پر موجود ہے اور وہ ہے curse یعنی بُرائی، بدی، شر۔
جہاں تک مَیں سمجھ پایا ہوں، مادہ اور توانائی پر مُشتمل اس کائنات کے اندر دراصل بُرائی کی ماہیت اور فزیکل ویلیو صفر ہے۔ بُرائی کے پاس چونکہ کوانٹم سطح پر بھی انرجی، وائبریشن اور فریکوئینسی نہیں ہے لہٰذا اس کے اندر خُود کو بڑھوتری دینے یا نشوونُما پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ چنانچہ اگر فلسفے کی رُو سے دیکھا جائے تو جس طرح سائنسی اعتبار سے اندھیرا کوئی وجود نہیں رکھتا بلکہ روشنی کے کسی مقام پر نہ پہنچ سکنے کا نام اندھیرا ہے۔ یعنی
Darkness is the absence of light.
بالکل اسی طرح بُرائی تو محض اچھائی کی عدم موجودگی کا نام ہے۔ شر دراصل خیر کی عدم دستیابی ہے۔ جس طرح روشنی کے صرف ایک ذرّے فوٹان کی آمد ہی اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے اسی طرح نیکی کی نہ نظر آنے والی کوانٹم درجے کی ماہیت، حرکت اور حرارت ہی بدی کو ختم کر دینے کےلیے کافی ہے۔ نیکی انرجی، وائبریشن اور فریکوئینسی کے اُس تنوّع کا نام ہے جس میں ایک ایک ذرّہ پرو کر خالق نے اس cosmic fabric کی بُنت کاری کی ہے۔ چنانچہ ہر وہ عمل، ہر وہ حرارت، ہر وہ حرکت اور ہر وہ ماہیت جو کائنات کے تنّوع میں ارتقاء پیدا کرتی ہے، نیکی ہے۔ نیکی کا کوئی یونٹ نہیں۔ یعنی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک نیکی اتنے کلو گرام ، اتنے لیٹر یا اتنے میٹر کی ہوتی ہے۔ گویا انرجی، وائبریشن اور فریکوئینسی کے اس نظامِ فطرت میں خلل نہ ڈالنا، ہر شے کے عملِ ارتقاء میں فطری تسلسل قائم رکھنا نیکی ہے۔ اس کائنات کے اندر ہر ربط، ہر پھیلاؤ اور ہر ارتقاء جو فطرت کے اُصولوں کے مطابق عمل پذیر ہے وہ divine ہے اور یہی goodness یا نیکی ہے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ چونکہ ہمیں اللہ نے وہ مخلوق قرار دیا ہے جسے اُس نے کائنات کے سب سے بہترین ڈیزائن میں ڈھال کر تخلیق کیا ہے اور اپنا نائب بھی قرار دیا ہے لہٰذا بحیثیت انسان سب سے پہلے اپنی specie اور بعد ازاں دیگر مخلوقات کےلیے آسانیاں پیدا کرتے ہوئے اس کائنات کے عملِ ارتقاء کا حصّہ بن کر divine oneness میں شامل ہونے کےلیے میدانِ عمل میں اُتریں۔ یہی نیکی ہے، یہی انسان ہونے کا تقاضا ہے اور یہی اصل شرفِ انسانیت ہے۔
مَت سہل اِسے جانو، پِھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply