ڈان لیکس کی تحقیقات،حکومتی نوٹیفکیشن اور فوج کا ردعمل

ڈان لیکس کی تحقیقات،حکومتی نوٹیفکیشن اور فوج کا ردعمل
ژاں سارتر
معاملات جب اختتام کی جانب بڑھتے ہیں تو واقعات تیزی سے رونما ہونے لگتے ہیں۔ گزشتہ برس سے جاری ڈان لیکس کی تحقیقات گھاٹ گھاٹ کا پانی پی جب وزیر اعظم تک پہنچی تو اس کی جُون ہی بدل چکی تھی۔ خدا خدا کرکے جب اس تحقیقاتی رپورٹ کے پیرا نمبر اٹھارہ کے تحت حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا اور ملبہ دو غیر متعلق افراد یعنی مشیر خارجہ طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین پر ڈالا گیا تو سیاسی حلقوں میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس نوٹیفیکیشن پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جائے گا۔ تاہم فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹر پر جو ردعمل آیا، وہ ملک میں جمہوری سیاست کے لیے باعث تشویش ہے۔ خصوصاً جن الفاظ میں نوٹیفیکیشن کو مسترد کیا گیا، وہ قابل غور ہیں۔
اس تناظر میں یہ سمجھنا تو بالکل مشکل نہیں کہ سول حکومت اور عسکری ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ معاملات کی سنگینی میں اضافہ کیونکر ہو رہا ہے۔ جمہوری طور پر منتخب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کی اقساط کسی سلسلہ وار ڈرامے کی طرح منظر عام پر آتی رہی ہیں ۔تاہم رواں ماہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے نے حکومت کی پوزیشن مزید کمزور کر دی ہے۔ سیاسی طور پر نہ سہی لیکن اخلاقی طور پر حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہی حالات کے درمیان فوج کی جانب سے ڈان لیکس کی رپورٹ اور حکومتی نوٹیفیکیشن کو یکسر مسترد کیا جانا کسی المیے سے کم نہیں۔ ایک ایسی جماعت اور اس کے رہنما کو جسے اقتدار کا طویل تجربہ ہو، ایسے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اب جبکہ ایسا نہیں ہوا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی مشکل نہیں کہ یہ سیاسی حکومت کی سوچی سمجھی رائے اور پالیسی کا حصہ ہے۔اگر معاملات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو ملک میں قبل از وقت انتخات کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply