• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزادی پسند فلسطین کو نہیں بھولے/ڈاکٹر ندیم عباس

آزادی پسند فلسطین کو نہیں بھولے/ڈاکٹر ندیم عباس

قابض قوتوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے قبضے کو مستحکم کریں اور دنیا کی توجہ اس تنازعے سے ہٹا دیں۔ قابض طاقت کے لیے دنیا میں محکوموں کا ذکر رہنا ہی ناپسندیدہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ ذکر دنیا کو متوجہ کر رہا ہوتا ہے کہ یہاں ظلم و جبر سے علاقے ہتھیائے گئے ہیں۔ فلسطین کی تحریک آزادی مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اس نے اسرائیلی جبر و استبداد سے لڑنا سیکھ لیا ہے۔ اسرائیل بڑی تیزی سے انحطاط کا شکار ہے اور وہاں سیاسی بحران نے ہیجانی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ آپ اسرائیل سے بھاگنے والے جوانوں کی تعداد کی شماریات ملاحظہ کریں تو حیران ہوں گے کہ اتنی بڑی تعداد میں جوان روز کے حساب سے یہ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ آج کا اسرائیلی نوجوان بھی یہ سمجھتا ہے کہ ظالمانہ اقدامات کے ذریعے زیادہ عرصے تک فلسطینی زمینوں پر قبضہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ آج نہیں تو کل یہ زمینیں اہل فلسطین کو واپس جانی ہیں۔

معروف تجزیہ نگار جناب آصف محمود صاحب نے لکھا کہ آج کی دو خبریں بہت اچھی لگیں، بڑی معنویت ہے ان میں۔ پہلی خبر یہ کہ سعودی عرب نے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارلحکومت سمجھتے ہوئے وہاں اپنا سفیر برائے فلسطین تعینات کر دیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے سفیر کو آنے کی اجازت دینے سے فوری انکار کر دیا ہے، تاہم اس اقدام کی بڑی معنویت ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بیت المقدس اور مشرقی یروشلم اسرائیل کا نہیں فلسطین کا علاقہ ہے اور سعودی عرب فلسطین کاز کے ساتھ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ نہ کہ امریکہ کے ساتھ، جو مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ مشرقی یروشُلم کو اسرائیل کا علاقہ تصور کرتے ہوئے سفارت خانے ادھر منتقل کروا دے۔ اس سیاق و سباق میں سعودی عرب کا حالیہ فیصلہ غیر معمولی ہے۔

آصف محمود صاحب کے مطابق دوسری خبر یہ ہے کہ شام نے 1973ء کی جنگ میں اسرائیلی طیارہ گرانے والے پاکستانی ایئر کموڈور عبد الستار علوی کو خصوصی ایوارڈ عطا کیا ہے۔ امت مسلمہ کی راکھ میں کہیں کہیں کچھ چنگاریاں موجود ہیں۔ وقت کا موسم ایک وقت آئے گا بدلے گا۔ اگر آپ بین الاقوامی میڈیا کو فالو کر رہے ہیں تو پچھلے کچھ عرصے سے یہ خبریں گرم ہیں کہ بائیڈن حکومت سعودی عرب پر شدید دباو ڈال رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ امریکی دباو نئی بات نہیں ہے، مگر خطے کے چند ممالک کے تسلیم کر لینے کے بعد امریکی سعودی عرب کو اسرائیل تسلیم کروانے کے لیے خاصے پرامید ہیں۔ ان خبروں کے درمیان میں اس خبر کا آنا کہ سعودی عرب مشرقی بیت المقدس میں اپنا سفیر تعینات کر رہا ہے، کافی حیران کن بات ہے۔

لوگ کہتے ہیں آپ کی شک کرنے کی عادت نہیں جاتی، مگر کیا کروں، کوشش کرتا ہوں کہ چیزوں کو ہر طرح سے تجزیہ میں لایا جائے۔ شکار کو پھنسانے کے لیے شکار کا پسندیدہ ایٹم جال میں لگایا جاتا ہے اور شکار بغیر سوچے جھپٹ کر جان سے جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کے طور پر پہلے ہیرو بننے کے لیے یہ بیان بازی کی جا رہی ہو؟ اگر ایسا نہیں تو ہماری رائے بھی جناب آصف محمود صاحب والی ہی ہے۔باقی علوی صاحب کو شام کا ایوارڈ دینا بنتا ہے، بلکہ میرے خیال میں کافی پہلے مل جانا چاہیئے تھا۔ اسی دوران میں ایک اور ہل چل بھی محسوس کی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق مصر کے صدر “عبدالفتاح السیسی”، اردن کے بادشاہ “عبدالله دوم” اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر “محمود عباس” نے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا۔ یہ اجلاس مصر کے شہر “العلمین” میں ہوا۔

اس نشست میں فلسطین سے متعلق پیشرفت اور اس کے تناظر میں علاقائی و عالمی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر ایک مخصوص شیڈول کے تحت فلسطینی سرزمین سے صیہونی قبضے کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء نے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور 1967ء کی حدود کے مطابق بیت المقدس کو دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے ایک خود مختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کا عزم کیا۔ یہ بھی اہم ڈویلپمنٹ ہے۔ مصر اور اردن کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے بنیادی کردار رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مصر نے اپنی راہیں الگ کرکے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور غزہ تک کے راستے اہل فلسطین کے لیے بند کر لیے۔ اردن آج بھی قبلہ اول کا متولی ہے اور اس کے انتظامات اس کے پاس ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی بیت المقدس میں سفیر تعیناتی کے اعلان اور ان ممالک کی طرف سے بھی مشرقی بیت المقدس پر اصرار کچھ سمجھا رہا ہے، ایک ہلکی تصویر دکھا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب تو مسلمانوں کی باتیں تھیں، اب ذرا ایک غیر مسلم دیس کی آواز بھی سن لیں۔ آسٹریلیا نے کہا ہے کہ اسرائیل کو کرہ ارض پر ایک غیر قانونی ریاست اور فلسطینی کے علاقوں کو مقبوضہ کہہ کر پکاریں گے۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے پارلیمنٹ سے باہر آکر کی گئی قانون سازی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اب سے تمام سرکاری دستاویز اور بیانات میں فلسطین کو مقبوضہ اور اسرائیل کو قابض لکھا اور پڑھا جائے گا۔ وزیر خارجہ پینی وونگ نے مزید کہا کہ بیت المقدس کو بھی مقبوضہ علاقہ تصور کیا جائے گا اور اس کا مقصد فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ خبر اس بات کی عکاس ہے کہ دنیا فلسطین کو بھولی نہیں ہے اور دنیا کو فلسطین یاد ہے۔اہل فلسطین کی مسلسل جدوجہد ہی ہے، جس نے ان کی جدوجہد کو بچا رکھا ہے۔ آپ سعودی عرب کے بیان کو دیکھیں، اس میں مشرقی بیت المقدس کا ذکر ہے، سہ فریقی اجلاس میں بھی مشرقی بیت المقدس کی بات کی گئی ہے اور آسٹریلیا نے بھی دو ریاستی حل کی بات کی ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply