لوگ کیا کہیں گے۔مرزا مدثر نواز

آپ شادی کی تقریب پر اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرنے کا ارادہ کیوں رکھتے ہیں‘ اتنے زیور کی کیا ضرورت ہے‘ کھانوں کی زیادہ اقسام بھی اسراف ہے‘ مہندی اور اس جیسی دوسری رسومات کی ادائیگی ضروری تو نہیں‘ بینڈ باجے اور پٹاخوں کے بغیر بھی شادی ہو جاتی ہے‘ اتنے زیادہ اخراجات کی بدولت قرض کا بوجھ کیوں اٹھانا چاہتے ہو؟کیا کروں میں یہ سب کرنے کی طاقت تو نہیں رکھتا لیکن نہ کرنے سے برادری اور محلے میں میری ناک کٹ جائے گی‘ لوگ کیا کہیں گے کہ شادی کی ہے یا فوتگی‘ ہماری دفعہ ولیمے میں دس ڈشز تھیں اپنی دفعہ اس کو پانچ کی توفیق بھی نہیں ہوئی‘ میں لوگوں کی باتوں سے ڈرتا ہوں۔ میرے پیارے !لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں‘ کسی کا منہ تو بند نہیں کیا جا سکتا‘ کسی کے باتیں کرنے سے تمہاری صحت پر کیا اثر پڑے گا‘ تم جتنا مرضی کر لو عوام الناس کو خوش نہیں رکھ سکتے وہ تو ہر حال میں باتیں کریں گے لہٰذا کسی کی باتوں کے ڈر سے اپنے آپ کو قرض جیسی مصیبت میں نہ پھنساؤ‘ مستقبل کی پریشانی سے بچنے کے لیے حال میں باتیں سن لینا مناسب ہے۔ نہیں بھئی خاندان کا بہت دباؤ ہے مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کرنا پڑے گا۔
مرگ پر آپ جن رسومات کی ادائیگی میں مصروف ہیں یہ تو خالصتاََ ہندووانہ ہیں‘ ہمارے دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے کہ اس نے تو شکر کیا ہے کہ فلاں اللہ کو پیارا ہو گیا ہے‘ یہ تو ہے ہی کنجوس‘ اپنے عزیز کی وفات پر بھی اس کو اچھا کھانا بانٹنے کی توفیق نہیں ہوئی بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔آپ آج کل بے روزگار اورانتہائی تنگدست ہیں‘ فلاں کام کیوں نہیں شروع کرتے؟ وہ کام کرنا شروع تو کر دوں لیکن شرم آتی ہے لوگ کیا کہیں گے کہ یہ حقیر سا کام کر رہا ہے۔ اپنی بھوک تمہیں خود ہی مٹانا ہو گی‘ لوگ آ کر تمہیں نہیں پوچھیں گے کہ تم بھوکے ہو یا شکم سیر لہٰذا لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کرو‘ ان کی باتوں کا تمہاری صحت پر کیا اثر ہے‘ لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔
ایسا رویہ آپ کے روز مرہ مشاہدہ میں اکثر آتا ہو گا ۔ ہم بہت سے اچھے اور نیک کام اس ڈر کی وجہ سے نہیں کر پاتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے اور اس پر صرف اور صرف آپ کا اختیار ہونا چاہیے‘ کسی کی باتیں اور خواہشات اس پر اثر انداز نہ ہو سکیں اور نہ اس کی اجازت دینی چاہیے۔ باتیں کرنے والے کرتے رہیں گے لیکن ان کی مطلق پرواہ کیے بغیر آپ کی نظر قطعی طور پر اپنے مقاصد کے حصول پر ہونی چاہیے‘ اگر لوگوں کی باتوں اور منفی رویوں کی پرواہ کرنے اور توجہ دینے لگ جائیں گے تو پھر زندگی میں کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

؂ اچھا بھی نہ بچا‘ برا بھی نہ بچا
یوسف سا جمیل پارسا بھی نہ بچا
بندہ تو بشر ہے‘ بچ سکے یا نہ بچ سکے
خلقت کی زباں سے خود خدا بھی نہ بچا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply