تالیف “مقالات باھوؔ شناسی” پہ اک نظر۔۔کبریٰ پوپل

یہ بات میرے لئے باعث شرف ہے کہ میرے انتہائی معزز استاد سر لئیق احمد نے اپنی تحریر کردہ کتاب “مقالات باھو شناسی” مجھے دی جس پر میں دل سے آپکی مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج اگر مجھے تحریر اور مطالعہ کا شوق یا اس متعلق کچھ سمجھ بوجھ ہے تو یہ آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ آپ جس طرح اپنے طلباکو علم کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہے لیکن ایک بات جو آپ کو باقی تمام اساتذہ سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے آپ کا طلبا  کو نہ صرف motivate کرنا بلکہ ان کی training کرنا اور Practical Ground میں لاکر کھڑا کرنا اور پھر ہدف کو حاصل کرنے تک کے سفر میں ان کی بھرپور رہنمائی کرنا۔

آپکے بلند پایہ اخلاق سے سب ہی متاثر ہیں اور سب ہی عقیدت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن آپکی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ آپکا علمِ تصوف کو جاننا اور محض جاننا نہ تھا بلکہ علم تصوف کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہو کر قیمتی موتیوں کو اختراء کرنا بھی تھا۔ آپ نے مجھے علمِ تصوف پر سب سے پہلی تحریر صاحبزادہ سلطان احمد صاحب کی بھیجی تھی جو اولیاءکرام رحمۃ الله علیہ کے بارے میں صاحبزادہ صاحب نے تحریر فرمائی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے سر سے پہلی بار علمِ تصوف سے متعلق سوالات کرنا شروع کیے اور وہیں سے آپ سے تصوف کے بارے میں جاننے کا سلسلہ جاری ہوا۔ آپ نے میری بہترین رہنمائی کی اور الحمدللہ اب تک کر رہے ہیں۔

میں اکثر ایسا محسوس کرتی ہوں کہ پاک و ہند میں جتنے بھی اکابر اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ ہیں ان سب کے لئے ہمارے دلوں میں بےحد عقیدت اور احترام موجود ہے ان نفوس قدسیہ پر بہت سی کتب بھی لکھی جا چکی ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے نوجوان نسل ان کے عملی پہلو  ،جدوجہد اور تعلیمات سے اس طرح واقف نہیں جیسا کہ واقفیت کا حق تھا۔ زیادہ تر نوجوان اس روحانی فیضان سے محروم نظر آتے ہیں ۔ اور اگر کچھ نوجوان دلچسپی رکھتے بھی ہیں تو انھیں پڑھنے کو ان بزرگان دین کی کرامات ملتی ہیں جو ان کی تعلیمات ہیں، اس پر اہل علم نے بہت کم کام کیا ہے ۔ عصر حاضر میں نوجوان اذہان کو پیش نظر رکھتے ہوئے صوفیاء کرام کی تعلیمات پر تحقیقی کتب لکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ ہمارے نوجوان بے راہ روی سے نکل کر روحانی آسودگی کو حاصل کریں ۔

جب بھی ہم اولیاء اللہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ایسے شخص کا تصور اُبھرتا ہے، جو عمر رسیدہ ہو، تسبیح لئے خاموشی سے بیٹھے اللہ الله کر رہا ہو ۔ جبکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے بلکہ اگر میں اختصار سے بھی ان کی شان میں کچھ لکھوں تو یہی ہے کہ دین اسلام کو پورے عالم میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بعد علمائے عاملین اور امت کے اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی کوششوں نے عام کیا ہے۔ انکا طریق یہ رہا ہے کہ قرآن پاک اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تفسیر بن کر اپنے اخلاق حمیدہ سے لوگوں تک حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعلیمات نے لوگوں کے  دِلوں کو فتح کیا۔ اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے انسان پر بے پناہ علوم کے دروازے کھلتے ہیں جس سے یہ ظاہری سمجھ بوجھ رکھنے والے نا آشنا اور نابلد نظر آتے ہیں ۔
نوجوانوں کو تصوف کی بنیادی تعلیم دینا، میں ہر اس استاد کی ذمہ داری سمجھتی ہوں جس کا تعلق اس راہ سے ہے۔ یہ صوفیاء کرام ہماری اسلامی تاریخ کے وہ نگینے ہیں جن کا مطالعہ کئے بغیر ہمارا علم ادھورا اور تاریک ہے۔

سر کی کتاب “مقالاتِ باھو شناسی” پڑھ کر میں نے محسوس کیا کہ یہ نوجوانوں کے اندر تصوف کے بارے میں ایک مثبت تصویر کھینچ سکتی ہے اس میں موجود تمام مقالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ رحمۃ الله علیہ کی تعلیمات عين قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کا عکس ہیں جسے سر لئیق احمد نے انتہائی سادہ اور آسان الفاظ کے ساتھ تحریر کیا ہے ۔

کتاب کے دوران ِمطالعہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں ایک بہت ہی خوبصورت باغ میں چہل قدمی کر رہی ہوں اور ہر مضمون حسين و رنگین پھول کی مانند میری عقل و روح کو معطر کر رہا ہے اور اس سے ملنے والے اسباق مجھے اس خوشبو کی طرح محسوس ہو رہے ہیں جو سانسوں میں گھل جائے اور روح کو تازہ کردے ۔مطالعہ کرتے کرتے اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کتاب اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ چار دن کے اندر پوری کتاب کا مطالعہ مکمل کیا اور ایک بار بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں مطالعہ کو روک دو، اس کتاب کے سحر نے مجھے ایسا جکڑا کہ کسی مقام پر بھی مجھے اکتاہٹ یا تھکن کا احساس نہیں ہوا۔

تمام مقالات میرے لئے انتہائی مفید ثابت ہوئے۔ چند مقالات ایسے بھی تھے جس نے دل کو بہت چھوا :

* حضرت سلطان باھو رحمۃ الله عليہ کے نظریہ علم میں عقل کی بحث

* حضرت سلطان باھو رحمۃ الله علیہ کے نظریہ علم میں علما  سو کا بیان

* تعلیمات حضرت سلطان باھو رحمۃ الله علیہ میں تعریفات حروف کا اسلوب

* تعلیمات حضرت سلطان باھو میں سانپ کا تمثیلی ذکر

ان مقالات کو جس انداز میں تحریر کیا گیا ہے اس سے حضرت سلطان باھو رحمۃ الله عليہ کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عقل کی بحث کو فلسفہ اور نفسیات کی روشنی میں ڈال کر سمجھایا گیا ہے، عقل کی تقسیم کرکے عقل جز اور عقل کل کی بہترین وضاحت کی گئی ہے کہ عقل کا تصوف میں کیا مقام ہے اس نقطہ کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بيان کيا ہے۔

سانپ کے تمثیلی ذکر میں جس طرح (Rebirth Of Snake) کے پورے عمل کو انسان کے نفس سے تشبیہ دے کر دلچسپ اور سبق آموز تمثيل بیان کی ہے اس سے انسانی عقل حیران رہ جائے۔ سانپ کے (characteristics and behavior) کو مہارت کے ساتھ انسانی نفس سے جوڑا ہے جس سے راہِ تصوف پر چلنے والے کو نفس کی دھوکے بازیوں اور فریب سے آگاہی دی ہے اور ساتھ ہی اس سانپ(نفس) کا مقابلہ کیسے کیا جائے يہ بھی بیان فرمایا ہے .

حضرت سلطان باھو رحمۃ الله عليہ کی تصانیف میں ایک چیز جو مجھے بہت پسند آئی وہ Terminologies کا طرز بیان ہے جو کہ بہت ہی عمدہ ہے۔ راقم تصنیف حروف کے اعتبار سے وضاحت کرتے ہیں جس سے پڑھنے والے کو مشکل اصطلاح کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔

آپ رحمۃ الله علیہ کی تحریر کے ساتھ ساتھ آپ رحمتہ الله علیہ کی شاعری کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جاۓگی آپ رحمتہ الله علیہ کی فارسی اور پنجابی شاعری میں الگ ہی مٹھاس محسوس کی۔ لیکن فارسی اشعار سیدھا روح کو چھوتے ہیں چند ایک درج ذیل ہیں :

آپ رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :

علم باطن ھمچو مسکہ علم ظاہر ہمچو شیر
کے بود بے شير مسکہ کے بود بے پیر پیر

“علم باطن مکھن کی مثل ہے اور علم ظاہر دودھ کی مثل ہے۔ بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہاں سے آئے گا اور بغیر مرشد کے بزرگی کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔”

علم حق نور است روشن مثل او انوار نیست
عام باید با عمل علمش کہ بر خر بار نیست

” علم حق روشن نور ہے اس کی مثل کوئی نور نہیں علم ہو تو باعمل ہو ورنہ بے عمل علم کی ضرورت نہیں جو محض گدھے پر لدے ہوئے بوجھ کی مثل ہے۔”

اسی طرح آپکے باقی فارسی اشعار میں بھی گہرائی ، شیرینی اور راز و حکمت پايا جاتا ہے ۔

آپ کی تصانیف میں کثرت سے توحید اور اسم الله ذات کا ذکر موجود ہے آپ نے حق کے متلاشیوں کو بار بار اسم الله ذات اور ذکر و فکر لا الہٰ الاللہ کی تلقین کی ہے جس سے دنیوی لذّتوں ,شیطان کے وسوسوں اور نفس کے حملوں سے نجات ملتی ہے.
یہ کتاب ہر اس شخص کی رہنمائی کرتی ہے جو الله کا قرب چاہتا ہو انتہائی آسان, دلچسپ اور مختصر طریقے سے ہر بات پڑھنے والے تک پہنچ جاتی ہے بشرط یہ کہ ہماری نیت علم کی جستجو اور قرب الہی کا شوق ہو .

المختصر یہ کہ اس کتاب کو زیر مطالعہ لا کر ایک بہترین علمی و روحانی تجربہ رہا۔ امید اور دعائيں ہیں کہ جلد دوم بھی جلد شائع ہوجاۓ گی انشاءاللّہ اور ہميں مستفيد ہونے کا موقع  ملے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مختصر تحریر کے ذريعہ میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے جذبات بیان کرسکوں۔ میں نے اب تک جتنی بھی کتب کا مطالعہ کیا ہے ان میں یہ ایک بہترین تحقیقی کتاب تھی اور یہ کتاب سر لئیق احمد کی علم کی جستجو، انتھک محنت اور کاوشوں کے سبب ہی سے وجود میں آئی ہے۔ الله پاک آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے، اور ہمیں الله کے محبوب اولیا کرم رحمتہ الله علیہ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply