ردِّعمل کی نفسیات مردہ باد/حسان عالمگیر عباسی

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جن بھوت یا باہر کی مخلوق نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے ہی کے لوگ ہیں اور سوشل میڈیا سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانوں میں انس کی جگہ طیش، جذباتیت، سیاسی و مذہبی دکانداری نے لے لی ہے۔ ایسی نفسیات سے پالا پڑ چکا ہے جو تعصب و تنگ نظری و نفس پرستی کو پنپتا دیکھ کر خوشی سمیٹ رہی ہے۔ اس وقت مذہبی و سیاسی بنیادوں پہ شدید ردِ عمل کی نفسیات نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ ایسے میں نیچے سے لے کر اوپر تک سب کا ایک رول ہے جس کی ادائیگی انتہائی ناگزیر ہے۔ خاموشی اپنانے والا ظرف بھی چاہیے کہ جس کا جتنا ظرف ہے وہ اتنا ہی خاموش ہے۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر فتاویٰ جاری کرنا عجیب و غریب معاملہ ہے۔ طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کو ہی لیلیٰ  نظر آرہا ہے اور مجنوں نظر آرہی ہے۔ اہلِ  علم بھی نفس پرستانہ رویوں میں مبتلا ہیں۔ مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانا شاید مقصود ہی نہیں ہے۔

اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب نفرت پھیلانا نہیں ہوتا۔ اس سب کا مؤجب نفس پرستی ہے۔ سیاسی و مذہبی دکانداری عروج پہ ہے۔ سب کو لگتا ہے ان کا منجن ہی قیمتی ہے اور وہی حل ہے حالانکہ یہ صرف مخصوص عینک پہن لینے اور دنیا کو اپنی تشریحات سے جانچنے کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے ریاست بھی اس کھیل کا حصّہ ہے اور بے شرمی پہ اُتر آئی ہے۔ ابھی ایک میم دیکھ کے آرہا ہوں کہ آنے والی نسلوں سے کہیں کہ وہ نہ آئیں کیونکہ حالات بہت خراب چل رہے ہیں۔ ایک اور بات سے بھی اتفاق ہے کہ معاشی حالات ہی اخلاقیات جنم دیتے ہیں۔ اگر کوئی رائے رکھ رہا ہے تو وہ اس کا حق ہے اور اس شخصی حق کو سلب کرنا بدتہذیبی میں شمار ہوتا ہے۔

وفاقی مذہبی امور کے وزیر کی موت تو ہوئی ہے لیکن حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ لوگ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس کے ساتھ اچھا ہوا ہے کیونکہ یہ اسی کا مستحق تھا وغیرہ وغیرہ۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ آپ ایک موضوع پہ طویل لب کشائیاں کرتے پھریں۔ اب السلام علیکم، وعلیکم السلام، آمین، درست فرمایا، جی ایسا ہی ہے کہنے اور آگے چل پڑنے کا زمانہ ہے۔ رحم کھانے اور رحم دلی کے اظہار کا وقت ہے۔ اگر کوئی بات ایسی سننے میں آئے جو بے سر و پا ہے تو ہے اور ہوتی رہنی ہے کیونکہ نفسیاتی مسائل ہیں اور رہنے ہیں۔

ابھی ایک تحریر پڑھی ہے کہ ایک طالبہ جس نے اپنے مارکس کی کمی کو بنیاد بنایا تھا اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا تھا جہاں اس کے والد اس کے ساتھ تھے کو یہ سننے کو ملا کہ آپ مارکس کو رو رہے ہیں اور آپ کو یہ تک معلوم نہیں کہ آپ کی بچی پیپر کے بہانے کہاں کہاں جاتی ہے اور پھر 17 سال یہ کیس کورٹ میں چلتا رہا اور بالآخر اس کا فیصلہ اس کے حق میں آیا۔ اس طالبہ کا کہنا تھا کہ چند لفظوں نے اس کے 17 سال اس سے چھینے ہیں اور وہ شدید ڈیپریشن میں رہی ہے لہذا تول کے بولنے کی اشد ضرورت ہے اور اپنے محاسبے کی ضرورت ہے ،اس سے پہلے کہ ہمیں حساب دینا پڑ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

منجن فروشی بند ہونی چاہیے۔ سب کا اپنا اپنا طریقہ ہے، اپنی اپنی رائے ہے اور یہی حُسنِ  کائنات ہے۔ سیاسی و مذہبی ردِعمل کی نفسیات مردہ بعد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply