ایک زمانے تک میں بھی شریف فیملی کی کرپشن پر یقین رکھتا تھا مگر پھر ملکی اور بین الاقومی ایجنسیوں اور عدالتوں کی کارروائیوں کے نتائج دیکھ کر معلوم ہوا کہ سب مستقل پروپیگنڈا تھا جس سے ذہن مسموم ہو جاتے ہیں۔ ثبوت نہ ہونے کے باوجود عام آدمی اور انصافی حضرات اب بھی اس پر اَن دیکھا یقین رکھتے ہیں کہ ثابت ہو یا نہ ہو، یہ خاندان بہرحال کرپٹ ہے۔ ممکن ہے حقیقتاً وہ کسی حد میں کرپٹ ہوں، مگر اتنے لمبے چوڑے کاروبار اور سیاست و طاقت میں رہنے کے باوجود تلاشنے والوں کو کچھ نہیں مل رہا تو کس بنیاد پر انھیں کرپٹ تصور کیا جائے۔ اگر محض الزام لگانا کافی ہے تو پھر آپ بھی کرپٹ ہوسکتے ہیں اور میں بھی۔
ماضی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی ایسا ہی پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ بغیر ثبوت کے محض الزامات کی وہ سیاست کی گئی تھی کہ الزام لگانے والوں سے ثبوت مانگنے کے بجائے، الٹا حضرت عثمان سے صفائیاں مانگی گئیں۔ اور ان کی کسی صفائی کو قبول بھی نہیں کیا گیا، جیسے شریف خاندان کے حق میں عدالتی فیصلے آنے کے باوجود ان کی صفائی قبول نہیں کی جا رہی۔
ن لیگ کے آخری دور میں معاشی ترقی ہوئی، مہنگائی قابو میں رہی، بجلی کے بحران پر قابو پایا گیا۔ ملک درست سمت چل پڑا تھا۔ مگر لوگوں کو یہ سب راس نہ آیا۔
ادھر حضرت عثمان کے دور میں خوش حالی کا معیار یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ حکومت نے عوام سے زکوٰۃ وصول کرنا چھوڑ دیا تھا۔ جو حکومتی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تھا کیونکہ ٹیکس لینے کا کوئی نظام نہیں تھا۔
یہ خوش حالی بھی لوگوں کو پسند نہ آئی۔ اس ناشکری کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے پانچ برسوں کی خانہ جنگی میں معیشت اور کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے، لا ء اینڈ آرڈر کی صورت حال دگرگوں ہوگئی۔ لوگ نان جویں تک کے محتاج ہوئے۔ اور وہ جو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے انھوں نے کرپشن شروع کر دی۔
سیاست میں رویے شدت آمیز ہوتے ہیں۔ سیاست انسان کی حق پسندی کا بڑا امتحان ہے ،اور اکثر لوگ اس میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عدل اور اعتدال سے ہٹے ہوئے یہ رویے بھی ظلم ہیں جن کے لیے ہمیں جواب دہ ہونا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں