جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے/شائستہ مبین

رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے جہاں لوگوں کی طاق راتوں کی عبادتوں میں شدت آئی  ہے وہاں بازاروں اور شاپنگ مالز میں رونق بڑھ گئی  ہے۔ لوگ عید کے آنے سے پہلے عید کی تیاری مکمل کر لینا چاہتے ہیں۔ اس رش اور گہما گہمی کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ جہاں لوگ مہنگائی  کاگِلہ  کرتے نظر آتے ہیں وہیں عید کیلئے ایک نہیں تین تین جوڑے بنانے کیلئے تمام جتن کیے جا رہے ہیں۔ عید کے پُر مسرت موقع پر نیا جوڑا ضرور پہنیں مگر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ جوڑا کسی بہت بڑے  برانڈ یا ڈیزائنر کا ہی ہو، چونکہ آپ نے انسٹا گرام کی تصویروں پر ڈیزائینر اور برانڈ کا نام لکھ کر اپنی انا کو تسکین دینی ہے اس لیے آپ حتی الامکان کوشش کریں گے کہ آپ ایسا سوٹ پہن کر ان تمام لوگوں کو احساسِ  کمتری میں مبتلا کریں جو مہنگائی  کے سبب کپڑے نہیں  بنا سکتے۔

جہاں مہنگائی  اور بدترین معاشی حالات نے لوگوں کی ذہنی صحت پر اثر ڈالا ہے، وہاں سوشل میڈیا پر دکھاوے کی دنیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ایک جھوٹا فسوں طاری کر رکھا ہے جس نے حسد، جلن، ڈپریشن، تشویش اور غصے اور ذہنی دباؤ جیسے نفسیاتی مسائل کو کئی  گنا بڑھاوا دیا ہے۔

سوچیے، جس ملک میں مہنگائی  کے طوفان نے کچھ لوگوں کو موٹر سائیکلوں پر لٹکے تھیلوں کو چرانے پر مجبور کر دیا ہے ، ایک آٹے کے تھیلے کی قیمت جانیں دیکر چکائی  جا رہی ہے، جہاں کم قوت خرید نے ڈپریشن جیسی ذہنی بیماری کو ایک وبا بنا دیا ہے، فرسٹریشن سے لوگ اپنے ہی بچوں کا گلا دبانے پر مجبور ہو گئے ہیں ، معاشی حالات سے تنگ آکرخود کشی ایک عام ٹرینڈ بن گیا ہے، وہاں اسی ملک میں ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش اتنی سر اٹھا رہی ہے کہ اس مہنگائی  کے عالم میں بھی بازار کھچا کھچ بھرے نظر آرہے ہیں،اور سوشل میڈیا دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک سے زیادہ امیر کوئی  اور جگہ نہیں ۔ کھانے پینے سے لیکر کپڑے، جوتے ،میک اپ، گھروں میں بے جا استعمال کی نت نئی  پراڈکٹس اور نئے سے نئے برانڈز کے اشتہاروں نے لوگوں کو فرسٹریٹ کر دیا ہے، توازن اور اعتدال کی کمی نے ہماری خواہشات کو ہماری ضرورت بنا دیا ہے جن کو پورا کرنے کیلئے ہم ایک ایسی لامتناہی قطار کا حصّہ بن رہے ہیں جہاں آپ کی باری کبھی پہلے نمبر پر نہیں آئے گی۔ یہ ذہنی بیماریاں ہیں جو دیمک کی طرح لگ گئی ہیں اور ہمیں کھوکھلا کر کے ہی چھوڑیں گی۔

سمت سے محروم معاشرے ایسے ہی ہُوا کرتے ہیں۔ جہاں چراغ کم اور اندھیرا زیادہ ہو وہاں کوئی  بھی مسئلہ دیکھتے ہی دیکھتے بحران کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو بھی ایک نہیں کئی  بحرانوں کا سامنا ہے۔ نہ معاشی حالت قابلِ  ستائش ہے  اور نہ ہی معاشرت، ایک طرف معیشت داؤ پر لگی ہوئی  اور دوسری طرف معاشرتی اقدار۔ہم سب مہنگائی  کا رونا رو رہے ہیں لیکن ہم سب ہی سب کچھ خرید لینا چاہتے ہیں ، وہ چیزیں بھی جن کے نہ ہونے سے ہماری زندگی میں ذرّہ برابر فرق نہیں پڑے گا۔

ہم مہنگائی  کا تمام الزام حکومت اور نظام پر چھوڑ کر خود بَری الز مہ نہیں ہو سکتے، وہ لوگ جن کی قوتِ  خرید مناسب سے کچھ  بہتر ہے اور وہ تین جوڑے خرید سکتے ہیں ،اور افطاری پر فروٹ چاٹ کی تین اقسام  بنا سکتے ہیں ،لگثرری افطار ڈنر کر سکتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نفس کا غلام بننے اور نظام کو گالی دینے کی بجائے خود کیلئے اپنی آمدن کو محفوظ کریں، افطار ڈنر کی ڈیکوریشن اور روشنیاں دیکھ کر شدید دل دُکھتا ہے کہ کیسے اس ملک میں ہم بجلی گیس کے نہ ہونے کا گلہ کر لیتے ہیں جب ہم ان کا ستعمال اتنا بے دریغ کر رہے ہیں۔ مہنگائی  ضرور ہے اس میں حکومت اور نظام ضرور نا اہل ہوں گے  مگر آپ کا تو اپنا ملک ہے آپ نے تو یہاں ہی رہنا ہے آپ ہی خیال کر لیجیے یقین کیجیے یہ نظام آپ سے ہی مل کر بنا ہُوا ہے۔ آپ ان حالات میں کسی اور کی مدد بے شک نہ کریں مگر اس ملک کے معاشی نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آپ کے کم خرچ سے آپ غربت کی لائن سے نیچے نہیں آجائیں  گے مگر اور بہت سے لوگ اس لائن کے برابر ہو جائیں گے۔ شاید ان ہی لوگوں کیلئے فیض نے کہا تھا
جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

مہنگائی  تو ایک حقیقت ہے جس نے لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ میں جکڑ رکھا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ وقتی خرابی نہیں ہے جو کچھ دن بعد ٹھیک ہو جائے گی، جب ہر گزرتے دن پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو تمام اشیائے ضروریات کی قیمتیں دس گنا زیادہ ہو جاتی ہیں تو نفسیاتی مسائل بھی اسی رفتار سے بڑھیں گے۔ لوگ نظم و ضبط کے عادی ہیں نہ صبرو تحمل کے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی نے نظم و ضبط سے زندگی بسر کرنے کا سوچا ہی نہیں ہے، اعتدال اور میانہ روی سے ہم متاثر ضرور ہوتے ہیں مگر اس پر خود عمل پیرا نہیں ہوناچاہتے۔ رمضان ہمیں صبر کا میانہ روی کا سبق دیتا ہے اور ہم اسی مہینے میں اسراف کی تمام حدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں۔

بے لگام نوعیت کی زندگی کی خواہش اور لگن دن بدن توانا ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ کسی بھی پابندی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں چاہے وہ اپنے نفس کو ہی کیوں نہ پابند کرنا ہو۔ بہت سی معاشرتی خرابیاں جو ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہیں وہ خرابیاں ہم نے خود ہی پیدا کی ہیں، اب جب وہ خطرناک حد تک بڑھ گئی  ہیں تو ہم پریشان ہیں ،پریشانیوں میں گِھر کر رونا پیٹنا فطری ہے مگر مقبول نہیں۔ ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔

حل یہ ہی ہے کہ پہلے ہم اپنی خرابیوں کا تعین کریں انہیں تسلیم کریں اور پھر ان سے چھٹکارہ  حاصل کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھائیں۔ مہنگائی  سے کئی  ذہنی امراض جنم لیتے ہیں مگر ایمانداری سے اپنا تجزیہ کریں تو معلوم پڑے گا کہ بیشتر نفسیاتی اُلجھنیں ہماری اپنی پیدا کی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی جعلی زندگی نے ہماری کئی  شناختیں بنا دی ہیں اور ہمیں خود کو ہی پہچاننے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

تہوار ضرور منائیں ، تہواروں کی تیاری بھی کریں ، ان مشکل حالات میں بازاروں کی رونقیں ہی خوشیوں کا سبب بن رہی ہیں مگر ان تیاریوں کو اپنے لیے وبال نہ بنائیں۔ کسی کو احساس کمتری میں نہ مبتلا کریں، کسی کی دل آزاری اور اداسی کا سبب نہ بنیں اور سب سے بڑھ کراس ہجوم میں اپنی پہچان نہ کھو دیں۔ اپنے ذہن کو اپنی خواہش کا غلام نہ بنائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی موجودہ  طرزِ  عمل پر نظر ِ ثانی سے ہی ہم متوازن طرز زندگی کا تعین کر سکتے ہیں۔ آئیے اس عید پر رمضان میں کیے گئے صبر کا عملی نمونہ بنیں، اپنی خواہشوں کے بے لگام گھوڑے کو ایڑھ لگائیں۔ عید خوشی کا نام ہے تو اس عید پر ان چہروں کی خوشی بن جائیں جن کو وہ سہولیات میسر نہیں جو آپ کو ہیں۔ عید شکرانہ ہے تو قدرت کا شکر ادا کریں جس نے آپکو نوازا ہے۔ عید تو مسرتوں کا پیغام ہے تو یہ مسرت ادھوری ہے اگر آپ کے اردگرد آپ کے پاکستانی بہن بھائی  اس مسرت کو منانے سے محروم ہیں۔ میرا دل بار ہا پریشان ہُوا ہے تو یقیناً آپ میں سے بھی بہت سے ہوں گے جن کا دل کڑھ رہا ہو گا۔ میں نے آواز اٹھانے میں ابتداء  کی ہے ، آپ بھی میرے ہم قدم ہو جائیں، جب تک دم ہے مداوائے الم کرتے رہیے۔ عید مبارک!

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply