مِیرا بائی/اِک پیاس، اِک لگن، اِک سچائی/ناصر خان ناصر

جس کا نام مِیرا تھا، وہی جو تنک گھنگھرو باندھ کر ناچی تو بھگوان کو تنت پا کر ہی دم لیا۔۔۔
میرا کے درد و سوز، حسرت و پیاس میں ڈوبے، دل کی گہرائیوں سے نکلے، کلیجہ چیر کر آنکھوں کو ڈبڈبا دینے کی انوکھی تاثیر لئے نرالے بھجن آج بھی وہاں وہاں گونجتے ہیں، جہاں ستیہ اور سچ کے عشاق پائے جاتے ہیں۔

مختلف راگوں میں لکھی مِیرا بائی  کی مؤثر شاعری صدیاں بیت جانے کے باوجود تر و تازہ اور معطر ہے۔ دراصل پرانے وقتوں کا دستور تھا کہ تب شاعری مختلف راگوں کی زبان ہی میں کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل لے داری سے گائے پرانے گیت، دوہے اور بھجن دل میں کُھب کر آج بھی تیر ترازو ہو جاتے ہیں تو پھر ذہن سے نہیں اُترتے۔ گرو نانک کی بانیاں ہوں یا بھگت کبیر کے دوہے، خواجہ غلام فرید رح کی کافیاں ہوں یا غریب داس، سہجو بائی ، نام دیو، شاہ حسین، روداس، گورکھ ناتھ، بالناتھ، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ عنایت، سچل سرمست، باہو، شہباز قلندر وغیرہ کی پُر عظمت عشق حقیقی سے معمور، معرفت، رمزوں سے بھرپور، علامتوں سے شرابور، حکایتوں سے چور کافیاں، دوہڑے، سہ حرفیاں، اٹھوارے، بارہ ماہے، گنڈھاں، مکھ بول، شبد، شلوک، حمد و ثنا، نعتیں، قوالیاں، ٹپے ٹھپے، کہہ مکرنیاں، بجھارتیں، پہیلیاں پنتھیاں، گرنتھیاں، اُوگرنتھیاں، بولیاں ٹھولیاں، چتاونیاں، اپدیش، واعظ نصیحت، انو بھو، پریچے، دھرم گیت، شاستر اشلوک اور لوک گیت۔۔۔ جو کچھ بھی پڑھیے، دل و دماغ دھیرے دھیرے معطر اور روشن ہونے لگتے ہیں۔

گوتم بدھ کے فرمودات ہوں یا مرد دانا ویاس کی لکھی ہوئی  دنیا کی قدیم ترین رزمیہ داستانوں میں سے سب سے ضمیم مہا بھارت جو بالعموم بتیس ارکان پر مشتمل ایک لاکھ بند والی طویل ترین نظم کہلائی  جاتی ہے۔
مہا بھارت اسی قبیل کی جدید داستانوں اوڈسی اور ایِلیٹ کو ملا کر بھی ان سے آٹھ دس گنا زیادہ بڑی اور بہت زیادہ قدیم ہے۔

رامانج، رامانند، نانک، چیتن، تکا رام، تُلسی داس، سُور داس، راجہ رام موہن رائے، سوامی دےانند ہوں یا سچل سرمست، میاں محمد بخش، حافظ برخودار، مولا شاہ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر، باھو، علی حیدر ملتانی، شاہ عبداللطیف بھٹائی، مولوی لطف علی۔۔۔ ان سب میں ایک ایک نے عشق حقیقی میں ڈوب کر ہجر کی سوزناکی اور دل برشتگی سے آتش غم کی بھرپور چنگاریاں اڑا کر رنج و الم کی شعلے بھڑکاتی پر تاثیر شاعری فرمائ مگر میرا بائی کا کلام غم و الم، رنج و محن، سوز و لحن، تڑپ، سسک، ہوک، کوک، دکھ اور درد کا ایسا الاو ہے جو پڑھنے سننے والوں کو جھٹ پٹ خاکستر کر دینے پر قادر ہے۔۔۔

صدیوں سے گونجتی آواز۔۔
جو میں ایسا جانتی کہ پریت کئے دکھ ہوئے
نگر ڈھنڈورا پیٹتی کہ پریت نہ کریو کوئے
ایک ایسا نوحہ ہے، فریاد ہے اور خاموش ماتم ہے جو برصغیر کی عام عورت کے دل کی دھڑکن کہانی بن کر وقت کے ساز پر مسلسل بجتا چلا آ رہا ہے۔
عشق میں دیوانی ہو کر صحرا بہ صحرا پھرتی، در بدر کی خاک چھانتی، محل ماڑیوں، دنیاوی سکھ، دھن دولت، عزت، شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کو ٹھوکر مار کر خود ٹھوکریں کھاتی، قدم قدم پر اپنے محبوب کے سامنے مسجود ہوتی میرا نے اپنے عشق میں خود کو یوں مٹا دیا کہ بقول شاہ حسین قادری۔۔۔
چرخہ بولے سائیں سائیں، باتڑ بولے کُو
کہے حسین فقیر نمانڑاں میں نہیں بس تو

میرا بائی  1498 میں راجستھان کے شہر ودکی میں شاہی گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ اسے اپنے بچپن سے ہی کرشن کنہیا سے دلی لگاو تھا۔ “جوگی ہٹ، بالک ہٹ، ناری ہٹ اور تریا ہٹ” کے مصداق اس “پیا کی جوگن بنی” ناری کا بالک پن ہی تھا کہ بچپن میں ایک دن سکھیوں سہیلیوں سنگ کھیل کھیلتے ہوئے بھولی بھالی میرا نے کرشن کی مورتی کے سنگ مقدس آگ کے گرد سات پھیرے لے لئے۔ سامگری اور چندن کی مہک جیسے خالص گھی سے بھڑکائی  برھا کی آگ میں یوں جھلس گئی جیسے “انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند”۔

کسی سادھو سنت نے کچھ ہی روز قبل “پربھو کی لِیلا نیاری” ہونے کا اُپدیش دیتے ہوئے کرشن کنہیا کو انتریامی اور سبھو کا سوامی بتلایا تھا۔ پگلی میرا نے وہ سبق پلو سے باندھ لیا۔ بالک کھیل ہی کھیل میں بیاکل من کی سچائی  سمیت بھگوان کی یوں ہو بیٹھی کہ ہمہ وقت یہی گردان لبوں پر رہنے لگی۔۔
مورے تو گردھر ناگر، دوجا نہ کوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جوان ہونے پر سنسکار سنسار کی ریت روایت موجب اس کا بیاہ راجپوت راجہ بھوچران سے رچا دیا گیا۔ ابھی پنڈتوں نے منو سمرتی میں لکھے اشلوک پڑھتے ہوتے ہون کنڈ میں ڈالی سامگری کی میٹھی سوگند سے شرابور سمے ان کے پلو بھی نہیں گانٹھے تھے کہ سات پھیروں سے قبل ہی میرا سر میں راکھ ڈال کر چلا اٹھی کہ وہ تو پرنیتا ہے۔
اس کا بیاہ مرلی منوہر سے ہو چکا ہے۔
“جو تم توڑو پیا، میں ناہیں توڑوں رے
تو سے پریت توڑ کرشنا، کون سنگ جوڑوں رے؟ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply