خود اعتمادی اور بے اعتمادی کا فرق/عرفان شہزاد

کسی حادثے یا ناکامی کی صورت میں خود اعتمادی اور بے اعتمادی کے رد عمل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خود اعتمادی ایسے کسی منفی واقعہ سے سبق سیکھتی، اس کا سامنا کرتی اور اس پر قابو پاتی ہے، جب کہ بے اعتمادی ایسے کسی واقعے کے دوبارہ ہو جانے کے خوف کا شکار ہو کر بے عمل ہو جاتی یا اس کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے۔
مثلا بچپن میں کسی کو اگر بلی کتے وغیرہ نے زخمی کر دیا ہو یا کسی تار سے کرنٹ لگ گیا ہو تو ممکن ہے وہ اس کے اثر سے ساری زندگی نہ نکل سکے۔ بلی کتے کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہوں اور یا بجلی کا کام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہوں۔ لیکن دوسرا ردعمل یہ ہے کہ اس خوف سے نکل آئیں، حادثے کو فارمولا نہ بنائیں اور ہر دن ایک نیا دن سمجھیں۔
رسول اللہ ص کے دور میں جب مدینہ کے منافقین نے مسلم خواتین کے خلاف مہم چلائی، وہ انھیں چھیڑتے، پکڑے جاتے تو بہانہ بناتے کہ ہم تو لونڈی سمجھ کر بات کر رہے تھے،ان خواتین پر تہمتیں لگاتے، تو ریاست نے یہ نہیں کیا کہ خواتین کو گھروں میں رہنے کی پابندی لگا دی ہو، بلکہ ان اوباشوں کے عذر لنگ کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا کہ اپنے معمول کے لباس پر ایک بڑی چادر لے کر نکلا کریں تاکہ پہنچان لی جائیں کہ معزز خاندان کی خواتین ہیں اور انھیں چھیڑنے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ایک مرتبہ یوں بھی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں فجر کی نماز کو جاتی ہوئی ایک خاتون کا ریپ ہوگیا، مگر اس کے باوجود یہ حکم نہیں دیا گیا کہ خواتین آیندہ گھروں میں رہا کریں، یا اندھیرے کی نمازوں میں مسجد نہ آیا کریں۔ اس کے برعکس ریاست اس مجرم کی تلاش اور اسے سزا دینے کے لیے سرگرم ہوگئی۔
ہمارے ہاں جب کہیں بم دھماکا ہو جاتا ہے تو اس کے بعد تاحیات وہ سڑک یا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش آ جائے تو ان کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی یونیورسٹی میں کسی طالبہ کے نشے کا ایک کیس پکڑ لیا جائے تو باقی ساری طالبات پورے سماج کو اپنی صفائیاں دینے پر مجبور پاتی ہیں ۔ راستے میں انھیں کوئی تنگ کر دے تو بے اعتماد غیرت اگلے دن سے ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی کا مردانہ فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بے اعتمادی کی علامات ہیں۔
اسی طرح ماضی میں کوئی جنگیں اگر ہم ہار ہی گئے ہیں تو نسلوں کے ذہن سے اسے محو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عذر لنگ تراشے جاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ غلطی کسی اور کی تھی اس لیے ہم ہار گئے ورنہ ہم ہارنے والے نہ تھے۔حقائق سے نظریں چرانے کی قومی پالیسی اختیار کرنے اور ان حادثات پر بات نہ کرنا اور نہ کرنے دینا، یہ سب بے اعتمادی کے باعث ہوتا ہے۔
تدریس میں جو استاد سوال نہ پوچھنے دے، تو طلبہ سمجھ جاتےہیں کہ اس کے پاس جواب نہیں اور وہ اپنی کم علمی اور نالائقی چھپانا چاہتا ہے۔ جب ریاست آپ کو سوال نہ کرنے دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ خود کو اتنا مہان بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر سوال پر آپ کی بے عزتی محسوس ہو، اتنا کوئی بھی مہان نہیں ہوتا۔ اپنی غلطیوں سے خود بھی آگاہ ہونا چاہیے اور دوسروں کو بھی کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
بے اعتمادی کی ایک اور علامت، بے جا خود اعتمادی کا کھوکھلا اظہار ہوتا ہے۔خود اعتمادی تن کر رہنے اور لب و لہجہ کو بارعب کر لینے سے نہیں، حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے آتی ہے۔ یہ ہیجان خیز نعروں اور لفظوں سے نہیں آتی، تجزیہ کرنے سے آتی ہے ۔ خود اعتمادی سیکھنے سے آ جاتی ہے، بے اعتمادی چھپانے سے کبھی نہیں آتی۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply