سوشل میڈیا اور گٹر

سوشل میڈیا اور گٹر
بلال حسن بھٹی
ہمارے ہاں سوشل میڈیا پچھلے دو سالوں سے ایک ایسی طاقت بن کر ابھرا ہے کہ جس نے سیاست و صحافت اور اشرافیہ کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ کل جو خود کو صحافت کا بے تاج بادشاہ سمجھتے تھے یا وہ اشرافیہ جو اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلیۓ مطعلقہ لوگوں کو خریدنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اب تک سوشل میڈیا کی وجہ سے ان میں بہت سوں کے چہروں پر سے نقاب ہٹ رہے ہیں۔ یہ سب اشرافیہ سوشل میڈیا کو اب اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف وہ اپنے مخصوص حلقوں میں تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ میر شکیل الرحمان کا سوشل میڈیا کو گٹر کہنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اگر وسیع تناظر میں دیکھا جاۓ تو سوشل میڈیا کو قابو کرنے، اپنے مفادات کے تحت چلانے اور اسے گٹر بنانے کی کوشش صحافتی ادروں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ساتھ باقی اداروں کی طرف سے تقریباً آٹھ ماہ پہلے بلاگر ایشو پر منظم طریقے شروع ہو چکی ہے۔ بلاگر ایشو پر ابتدائ دو دنوں میں اٹھنے والی آواز کو کس طرح سوشل میڈیا کے معزز لکھاریوں کے ذریعے کاونٹر کیا گیا وہ ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ اس کے بعد مشال والے ایشو پر بھی چند گھنٹوں میں ایک منظم بیانیہ تشکیل دیا گیا جو میرے نزدیک سوشل میڈیا کو قابو کر کے مخصوص بیانیہ پھیلانے کی پہلے سے ہی باقاعدہ پلائننگ کی ابتدائ کوشش تھی۔ جو بہت حد تک کامیاب بھی ہوئ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پانامہ ایشو پر حکمران طبقہ، سیاستدانوں، ججوں اور صحافیوں کی حمایت و مخالفت میں سوشل میڈیا کس طرح تقسیم ہوا اس کو مد نظر رکھنا انتہائ ضروری ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہر شخص بکا ہوا ہے لیکن پھر بھی میرے نزدیک پاکستانی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش پچھلے دو ماہ سے منظم طور پر شروع ہو چکی ہے جو اگلے انتخابات تک کھل کر ہمارے سامنے آ جاۓ گی۔ اس لیے ہمیں میر شکیل الرحمان پر تنقید کے ساتھ اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ سوشل میڈیا ایسا گٹر نہ بن جاۓ جہاں صحافت کو گٹر بنانے والے صحافیوں کے مخصوص دھڑوں میں بٹ کر ہم پروپیگنڈا کا شکار ہو جائیں اور آپس میں لڑتے ہوۓ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے دیں جس سے ہمارے اوپر بھی کوئ ٹرمپ مسلط کر دیا جاۓ۔۔

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply