ایڈیٹر نوٹ: مکالمہ خود پہ تنقید کو قطعاً نہ روکتا ہے نہ مسترد کرتا ہے۔ مگر ایسی تحاریر جو مذہبی منافرت اور گالم گلوچ پر مبنی ہوں شائع نہیں کی جاتیں۔ انسانی سہو ممکن ہے اور اگر ہو جائے تو پھر ردعمل کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باقی قارئین اور لکھاری مطمئن رہیں کہ مکالمہ دو سال میں اس کامیابی تک الحمداللہ اپنی غیر جانبداری اور کسی لابی کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی پہنچا ہے۔
مکالمہ…ایک ایسا فورم جس کی بنا پر ایک شہری آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کر سکتا تھا….. کافی دنوں سے مکالمہ آزادی اظہار رائے کے اس اصول کے مغائر کام کر تا چلا آرہا ہے….جس کے براہ راست متاثرین میں راقم الحروف کا نام بھی شامل ہے…..پچھلے دنوں مکالمہ کا وزٹ کرتے ہوئے ایک کالم ندیم باجوہ نام کے ایک شخص نے لکھا نظر آیا جس کے شروع میں مکالمہ نے خود آفر بھی کی کہ اگر کوئی اس کا جواب دینا چاہے تو اس کے لئے مکالمہ کا فورم حاضر ہے….ندیم باجوہ جن کے بارہ میں قارئین کی نذر کرتا چلوں کہ موصوف خود قادیانی ہیں اور انہوں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں اپنے آپ کو اور قادیانیت کو مسلمان کہا اور مسلم عقائد کو بھی اپنے عقائد میں شامل لرتے ہوئے غیر مسلم کی تعریف سے اپنے آپ کو نکالنے کی کوشش کی گئی….کے کالم کو پڑھنے کے بعد ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں نے بھی اپنا حصہ ڈالنے کی غرض سے ایک سعی ناکام کی…. جس کو مکالمہ انتظامیہ نے یہ کہہ کر شائع کرنے سے معذرت کر لی کہ..آپ کا مضمون شائع نہیں ہو سکتا اگر آپ نے شائع کروانا ہے تو۔ ایسا کریں کہ اسے صرف ختم نبوت کا مضمون بنا دیں ۔۔قادیانی والا حصہ اس میں سے نکال دیں ۔۔۔۔مجھے ایڈمن کی جانب سے انتہائی معذر ت خواہانہ انداز میں یہ کہا گیا کہ کچھ ایڈیٹوریل ایشوز ہیں جن کی بناء پر ہم شائع نہیں کر سکتے آپ اپنی فیس بک وال پر شائع کر دیں…..
آج پھر ایک تحریر احمدیوں کے متعلق نظر سے گزری جس کے ضمن میں ایک تشویش نے آن گھیرا کہ کہیں مکالمہ کسی لابی کا حصہ تو نہیں بننے جا رہا کیونکہ مکالمہ پر شائع ہوانے والی اس تحریر کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیاکہ ایک طرف کی تحاریر دھڑا دھڑ شائع کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف اتنے بڑے پیمانے پر صرف معذرت…..کم سے کم میری سمجھ سے باہر ہے….اگر مکالمہ پر آزادی اظہار رائے قادیانیوں کو حاصل ہے تو کیا ہم مسلمانوں کو نہیں…..ایک طرف ادارہ یہ بیان کرتا ہے کہ قلمکار کے اظہار کو ادارے کا اظہار نہ سمجھا جائے..ادارے کا قلمکار کے اظہار سے متفق ہونابالکل ضروری نہیں لیکن دوسری جانب اس طرح کا سلوک….مکالمہ نے ایک مسلمان, قلمکار, پاکستانی شہری کا مضمون شائع نہ کرتے ہوئے ایک شہری کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا اور مزید مذہبی جذبات کو بھی مجروح کئے….میرے خیال میں مکالمہ کا یہ کردار قابل مواخذہ ہے…. باقی اللہ کے بعد آپ قارئین پر چھوڑتا ہوں…ہم بطور مسلمان اپنا تن من دھن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر قربان کرنے سے بالکل بھی دریغ نہیں کریں گے….اور ایسے ہر فورم کی بھرپور مدافعت کے ساتھ مذمت کریں گے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت مقدم نہ ہو…. مکالمہ کا یہ کردار دیکھتے ہوئے میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہو ں کہ … یا تو یہ خود اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اس جانب سے ان کے منہ میں ایسی ہڈی دی جا چکی ہے جو انہیں ایسا کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے… میرا انعام رانا و دیگر مکالمہ ٹیم سے یہ مطالبہ ہے کہ اس ضمن میں اپنا مؤقف, کردار اور مقام واضع کرے تاکہ ہم بھی اپنی ہمدردیوں کے رخ کا تعین کر سکیں…..
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں