میرے فوجی جواں۔۔رابعہ وحید

ایک فوجی ، ڈاکٹر اور انجینئر ایک ساتھ اپنی اپنی وردیوں میں ایک ہی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ کسی جگہ پانی پینے کی غرض سے انہوں نے گاڑی روکی ۔ تینوں گاڑی سے نیچے اترے اور سامنے موجود پانی کے ذخیرے کی طرف بڑھ گئے ۔ کچھ بچے وہیں ایک طرف مٹی میں کھیل رہے تھے۔ کچھ عورتیں وہاں سے گزر رہی تھیں۔ قریب ہی ایک کھیت میں کچھ مرد کام کاج کر رہے تھے۔ بچوں کی نظر جیسے ہی ان تین مسافروں پر پڑی ۔ اپنے مٹی والے کپڑوں کو جھاڑتے ، دوڑ کر ان کے سامنے آئے اور اپنے خاک آلود چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو ماتھے تک لے جا کر ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے ننگے مٹی سے اٹے پیروں کو زمین پر مار کر مسکرا کر فوجی کو سیلوٹ کیا اور دونوں ہاتھ چھوڑ کر احتراماً سیدھے کھڑے ہو گئے۔ عورتوں کی نظر فوجی پر پڑی تو ایک ہاتھ سے چہرے پہ گرا دوپٹے کا پلو تھامے ایک دوسرے کی طرف حیرانی اور خوشی سے دیکھتے ہوئے وہیں ٹھہر کر یک ٹک فوجی کو دیکھنے لگیں۔ کھیت میں کام کرتے مردوں نے بھی گاڑی کے رکنے کی آواز سن لی تھی۔ انہوں نے گاڑی سے نکلنے والے مسافروں میں فوجی کو دیکھا تو اپنی ایک ہاتھ میں پکڑی فصل کاٹتی درانتی کو روک کر زمین پہ بے ساختہ ٹکا کر دوسرا ہاتھ وہیں زمین پہ دھر کے پیروں کے بل بیٹھے بیٹھے گھوم کر ان کو غور سے کچھ دیر دیکھنے کے بعد آپس میں کچھ کہا اور پھر ان میں سے ایک نے اپنے قریب رکھا رومال میں بندھا دیسی کھانا اور لسّی کی بالٹی اٹھا کر فوجی اور اس کے ساتھیوں کی طرف جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک دھوبی تھا۔ دھلائی اور استری کر کے ان کے مالکوں تک کپڑے پہنچانے کے باوجود اس کے پاس میلے کپڑوں کا ایک ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ اس کام میں اس کا بیٹا بھی اس کی مدد کر دیا کرتا تھا۔ مگر وہ بہت سستی سے کام کیا کرتا ۔ میلے کپڑوں میں سے فوجی کی وردی کو کتنی ہی دیر بے مقصد تکا کرتا اور اس پہ یوں ہی اپنے ہاتھ گھنٹوں پھیرتا رہتا ۔ کبھی کبھار پہن کر آئینے کے سامنے خود کو دیکھا بھی کرتا اور فوجی وردی پہن کر اسے خود بخود سلیوٹ کرتا۔ فوجی کی وردی کو وہ بڑی احتیاط سے باقی کپڑوں سے الگ سنبھال کر رکھتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارڈر کے قریب ہونے پر اس کے گاؤں میں اکثر فوجی ٹیمیں گشت کرتی رہتی تھیں۔ ان کا علاقہ شہر سے دور تھا۔ جہاں ہسپتال اور سکول کی سہولت میسر نہیں تھی۔ گرمیوں میں اکثر ان کے علاقے میں کچھ اساتذہ کیمپنگ کرتے اور گاؤں کے بچوں کو کچھ ماہ مفت پڑھاتے تھے۔ کتابیں ، کاپیاں اور پنسلیں بھی وہ خود بچوں کے لیے لے کر آتے تھے۔ ہفتے میں ایک دفعہ ان کی طرف ڈاکٹر بھی چکر لگاتے تھے اور گاؤں والوں کا مفت علاج بھی کر دیا کرتے تھے۔ وہ استادوں کے مفت تعلیم دینے اور کاپیوں، کتابوں اور پنسلوں کے لانے پر بڑا خوش ہوتا تھا۔ اور ہفتے کا دن اسے ویسے ہی اچھا لگتا تھا کہ اس دن ڈاکٹر آتا تو گاؤں کے سارے بچوں میں کیلشیم والے ساشے بانٹا کرتا اور وہ اس ساشے کو پانی میں تھوڑا تھوڑا گھول کر ہفتہ بھر پیتا رہتا تھا۔ مگر فوجی تو جب بھی آتے تھے بس اپنے کام میں لگے رہتے ۔ اسے فوجیوں کی گاڑیاں ہمیشہ بھاتی تھیں۔ وہ چھپ چھپ کر روز فوجیوں کی گاڑی کے آنے والے راستے کی طرف جا کر ان کا انتظار کیا کرتا اور جس دن ان کی گاڑی نظر آ جاتی تو وہ ہر اس جگہ جاتا جہاں جہاں فوجی گشت کرتے اور تنہائی میں انہی کی طرح لکڑی کی بندوقیں بنا کر وہ بھی گشت کیا کرتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سیاست سے وابستہ تھا ۔ اس کو دو دفعہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے اسے بہت سے شعبوں اور بہت سے لوگوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کا تجربہ ہوا تھا۔ مشکل وقت میں پاک وطن کے لیے اور پاک قوم کے لئے اپنا تن من دھن قربان کردینے کے حکم ملنے پر بڑی خوشی اور ہمت و دلیری سے بلا خوف ” YES ” اور ناجائز کام کے لیے بڑے سے بڑے معاوضے کی پیشکش ہوتے ہوئے بھی بڑی بے باکی سے دو ٹوک انداز میں ” NO ” کہنے کا فن اسے صرف پاک فوج کے جوانوں کے پاس نظر آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

دشمن فوج نے ارض پاک کے ایک سرحدی علاقے پر اچانک حملہ کر دیا تھا۔ بہت سے لوگ زخمی ہو گئے تھے ۔ اس علاقے کا اکلوتا ہسپتال ، سکول اور اکلوتی مسجد بھی تباہ ہوگئی تھی۔ سرحد پہ پہرہ دینے والے باہمت فوجیوں نے بڑی دلیری سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا مگر اس سب میں بہت سے فوجی جوان جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ لاشیں لواحقین کے حوالے کی جا رہی  تھیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کر رہے تھے۔ وطن پہ مر مٹنے والے فوجیوں کے لواحقین کو پاک پرچم میں لپٹے شہید جوانوں کی لاشیں اعزاز ،سیلوٹ اور بڑے شان کے ساتھ بھیجی گئی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ فاتحہ خوانی کرنے قبرستان آیا تھا۔ قبرستان میں کچھ قبروں پر بڑی شان سے پاک پرچم لہرا رہے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر ان قبروں کے کتبے پڑھنے چاہے تو وہاں افواجِ پاکستان کے شہداء کے نام لکھے تھے۔ وطن کے جیالوں کو دنیا میں بھی عزت و توقیر ملی تھی اور ان کی آخری آرام گاہیں بھی بڑی شان و شوکت کا مرقع نظر آ رہی تھیں۔ اللّٰہ نے ان کی آخرت بھی شان و شوکت والی بنادی تھی کہ ” شہید کبھی نہیں مرتا ” ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply