کوہ پیمائی میں پورٹرز کی اہمیت/عمران حیدر تھہیم

اللہ ربّ العِزّت نے اِس کائنات میں جتنی بھی مَخلُوقات تخلیق کی ہیں اُن میں سے صرف انسان کے بارے میں ربّ ِ کائنات نے قرآنِ پاک میں بتلا دیا کہ ” لَقَد خَلَقنَا الاِنسَانَ فِی اَحسنِ تَقوِیم”۔ احسنِ تقویم یعنی بہترین سانچہ، بہترین قالب، بہترین ڈیزائن، بہترین شباہت جو بھی مُراد لے لیں مطلب یہی نکلتا ہے کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے  اللہ نے اپنی صنّاعی کے اعلیٰ نمونے کے طور پر تخلیق کیا اور پھر اُسے “اشرف المخلوقات” کا خطاب دیا۔

یوں تو دیگر ایسی کئی خصوصیات ہیں جن کی بِنا پر انسان باقی مخلوقات سے الگ اور ممتاز ہے لیکن تین خصوصیات ایسی ہیں جو بہت اہم ہیں ۔۔۔
پہلی: جمالیاتی حِسّ (Aesthetic Sense)
دوسری: اُسکا مدنی الطبع (social) ہونا
اور
تیسری: ہر قسم کے ماحول میں خُود کو ڈھالنے (Adaptation) کی قدرتی صلاحیت رکھنا۔

زیرِ بحث موضوع انسان کی تیسری صلاحیت سے متعلق ہے۔

اس کُرّہ ارض پر انسان وہ واحد مخلوق ہے جو ہر طرح کے علاقے، خطّے، بُودوباش اور موسمی حالات کے مطابق خُود کو ڈھال کر رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسوقت لمحہء موجود میں بھی ہزاروں انسان تہہِ آب سمندر کی گہرائیوں میں آبدوزوں اور دیگر زیرِ سمندر لیبارٹریز میں کام کر رہے ہونگے۔ لگ بھگ ایک لاکھ سے زیادہ ہوائی جہاز لاکھوں انسانوں کو لیکر فضا میں ہر لمحہ محوِ پرواز ہیں جبکہ زمین کے مدار کے آس پاس بھی دسیوں خلاباز اس کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے میں اس لمحہ بھی موجود ہیں۔
غرض یہ کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو ہر طرح کے حالات سے موافقت پیدا کر کے زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔

دوسری طرف دیگر جانداروں جن میں ہر طرح کے آبی و خُشکی کے جانور، چرند، پرند اور حشرات وغیرہ مخصوص علاقوں، خطّوں اور موسمی حالات کے علاوہ اپنے جینیاتی ارتقاء پذیری (Genetic Evolution) قائم نہیں رکھ پاتے۔ کچھ جانور تو صرف مخصوص موسمی حالات سے باہر بالکل ہی زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔
مچھلیاں پانی سے باہر نہیں رہ سکتیں۔
بڑے ممالیہ جانور پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتے۔
یاک جیسے پہاڑ کے جانور میدانی علاقوں میں نہیں رہ سکتے۔ مختصر یہ کہ ہر مخلوق اپنی جینیاتی ارتقاء پذیری کےلیے انسان سے کم صلاحیت رکھتی ہے۔ انسان کی نوع میں لاتعداد صلاحیتیں اُسکی جینیاتی بُنت کاری (Genetic-Make) سے جُڑی ہوئی ہیں۔ لگ بھگ ہر انسان جو ذہنی اور جسمانی طور پر نارمل ہے کم و بیش ہر علاقے، ہر خطّے، ہر طرزِ رہائش، ہر طرح کی بُودوباش اور ہر طرح کے موسمی حالات میں اپنی ارتقاء پذیری کے ہر عمل سے کامیابی کے ساتھ گُزر سکتا ہے۔

پہاڑوں کا ذکر کریں تو زمین کے کُل رقبے کا تقریباً 25 فیصد حصّہ پہاڑوں اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ کُل آبادی کا تقریباً 12 فیصد حصّہ پہاڑوں میں رہتا ہے اور زمین کی کُل آبادی کا لگ بھگ 3 فیصد حصّہ بُلند ارتفاع (High Altitude) یعنی سطح سمندر سے 3500 میٹر سے زیادہ بُلندی پر مُستقلاً سال بھر رہتا ہے۔ دُنیا کی وہ 3 فیصد آبادی جو ان بُلند ارتفاعی علاقوں کی مُستقل باسی ہے اُن میں اکثریت ایشیا میں Greater Himalaya اور جنوبی امریکہ میں Andes Mountains کے پہاڑی سلسلوں میں رہتی ہے۔ بھوٹان دُنیا کا وہ واحد مُلک ہے جس کی 78 فیصد آبادی پہاڑوں میں رہتی ہے۔

پہاڑوں کی مخصوص بُلند ارتفاعی آبادی (High Altitude Population) چونکہ نسل در نسل پہاڑوں میں رہتی آرہی ہے لہٰذا اس لحاظ سے اُنکی جینیاتی بُنت کاری میں کچھ ارتقاع پذیری ہوئی ہے جو اُنہیں میدانی علاقوں کی آبادی سے تھوڑا مختلف بناتی ہے۔ سب انسانوں کی بنیادی جینیاتی ساخت ایک ہی ہے یعنی ہر انسان کے نظام ہائے بدنی (Body Systems) ایک جیسے ہیں۔ بُلند ارتفاعی علاقوں میں رہنے والے انسانوں کو نہ تو پَر لگے ہیں، نہ ہی اُنکی چار چار ٹانگیں اور ہاتھ ہیں، نہ ہی اُنکے پھیپھڑے بہت بڑے ہیں اور نہ ہی اُن کی رگوں میں دوڑنے والا خُون ہم سے آدھا لیٹر زیادہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بس اُنکی جینیاتی ارتقاء پذیری قدرے مُختلف ہے۔ سالہا سال اور نسل در نسل پہاڑوں کی بُودوباش نے مختلف اعضائے بدنی کے افعال کو اُن علاقوں کے حساب سے تھوڑا تبدیل کردیا ہے۔ اس تبدیلی (adaptation) نے اُنکی جسمانی ساخت تو نہیں بدلی لیکن اُنکی جسمانی صلاحیت ضرور بہتر کردی ہے۔

اس جینیاتی ارتقاء پذیری (Genetic Evolution) کو سمجھنے کےلیے آپ ایک مشاہدہ کریں۔ آپ نے شمالی علاقہ جات میں بکروال اور چرواہوں کے ریوڑ ضرور دیکھے ہونگے۔ اب کی بار مشاہدہ کیجیے گا اور غور سے دیکھیے گا کہ وہاں پر رہنے والی بکریوں کے جسم پر ہماری میدانی علاقے کی بکریوں کی نسبت زیادہ بال ہونگے۔ ایسا کیوں ہوا؟ حالانکہ یہ وہی بکریاں تھیں جو بکروال اور چرواہے زیریں میدانی علاقوں سے کچھ ماہ قبل لیکر چلے تھے اور اب جب یہ واپس پہاڑوں میں گئے تو بکریوں کے بال غیرمعمولی رفتار سے بڑھ گئے۔ ہوا یُوں کہ سخت موسمی حالات میں زندہ رہنے کی خواہش جو کہ ایک قدرتی صلاحیت ہر جاندار میں خالق نے رکھی ہوئی ہے اُس صلاحیت نے اُن بکریوں کے نظاماتِ بدنی (Body Systems) میں نئے حالات کے مطابق تبدیلی (Adaptation) کردی اور سردی سے بچنے کےلیے اُنکے جسم کے بال بڑھانے والے ہارمونز نے زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کردیا۔ یہی جینیاتی ارتقاء پذیری دراصل بُلند ارتفاع پر رہنے والے انسانوں کو میدانی علاقوں کے لوگوں سے تھوڑا مختلف اور ممتاز کرتی ہے۔

اِس مُفصّل تمہید کے تناظر میں آئیے اب ذکر کرتے ہیں کوہ پیمائی کا۔۔۔

میدانی علاقوں میں رہنے والوں میں جب کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہوتا ہے تو اُنکی سب سے پہلی کشش مختلف لینڈ اسکیپ دیکھنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انبساط (ecstasy) سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ خصوصیت کارفرما ہوتی ہے جو اُسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے، جسکا ذکر مَیں نے اُوپر بیان کیا ہے یعنی جمالیاتی حِسّ (Aesthetic Sense). اسی حِسّ کےہاتھوں مجبور ہو کر میدانی علاقوں کے لوگ پہاڑوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

پہاڑ کی ضخامت (Mammoth Size) اُن کے اندر کشش پیدا کرنے والی دوسری چیز ہوتی ہے۔
اور اُسکے بعد انسان کے اندر پہاڑوں کو تسخیر کرنے کی خواہش جاگتی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اِس کائنات میں جن جن مظاہرِ قدرت کو دیکھتا ہے اُنہیں اپنا تجسّس ختم کرنے کےلیے تسخیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا پہاڑ کو دیکھتے ہی اُسے سر کرنے کی قدرتی خواہش ہر انسان کے اندر قُدرتی طور پر built-in ہے۔

جب بھی آپ کے اندر پہاڑ کو سَر کرنے کی خواہش جاگے تو سب سے پہلے آپ اپنے نظاماتِ بدنی کا جائزہ لیں کیونکہ قُدرت نے آپکے اندر یہ صلاحیت پہلے ہی رکھ چھوڑی ہے۔ آپ کے جسم کے وہ اعضاء (Organs) اور وہ عُضلات (Muscles) جو کوہ پیمائی میں استعمال ہو سکتے ہیں آپ اُنہیں adaptation کی طرف لے آئیں اور اپنی جسمانی تربیت پر توجہ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوہ پیمائی کےلیے بُنیادی تربیت کا اہتمام کریں یا پھر بصورتِ دیگر اُس بکری کی طرح کسی بکروال کے ساتھ 6 ماہ وہیں چرنا شروع کردیں تاکہ آپکی قُدرتی مُبدّل پذیری (Natural Adaptation) خُودبخود ہی ہو جائے۔ لیکن ہم ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ ہم اشرف المخلوقات ہیں اس لیے بہترین یہی ہے کہ اپنی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
لیکن ہم پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی شوق کی تکمیل بھی دوسروں کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس جگہ ہمیں ضرورت پڑتی ہے پورٹرز کی۔

پورٹرز کون ہوتے ہیں؟

کبھی غور کریں اور سوچیں کہ کیا پورٹرز کوئی جِن ہوتے ہیں یا کوئی دیوقامت مخلوق (Monsters) ہیں؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔
پورٹرز دراصل وہ انسان ہیں جن کی جینیاتی ارتقاء پذیری نسل در نسل پہاڑوں میں رہنے کی وجہ سے وہاں کے حالات کے مطابق قدرتی طور پر ہو چُکی ہے اور پھر اُنہوں نے اپنے روزگار کی غرض سے کوہ پیمائی میں استعمال ہونے والی مختلف تکنیکی عوامل اور آلات سے متعلق مخصوص تربیت حاصل کر رکھی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں وہ monsters لگتے ہیں۔

خالصتاً ادبی الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو
“اپنے شوق کی تکمیل کےلیے آپ نے خُود پر تن آسانی کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اُسے اُتارے بغیر آپکو پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے میں مدد کرنے والا بندہ پورٹر کہلاتا ہے۔”

پورٹرز کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والے ہر اُس کھلاڑی کےلیے ضروری ہیں جو جسمانی، دماغی اور تکنیکی تربیت پر یقین نہیں رکھتا۔

ہمارے خِطّے کے پہاڑی سلسلوں میں کوہ پیمائی کےلیے استعمال کیے جانے والے پورٹرز اگر صرف کوہ پیماؤں کی اشیائے خُوردونوش اور ٹیکنیکل سازوسامان کی ترسیل کےلیے ہی استعمال کیے جائیں تو یہ کوہ پیما اور پورٹرز دونوں کی صلاحیتوں اور اُنکی زندگی کےلیے بہت بہتر ہوگا بصورتِ دیگر جب آپ پورٹرز پر بوجھ بنتے ہیں تو آپ اپنی اور اُنکی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ پہاڑ پر High Altitude Porters کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ایک انتہائی خُودغرضی پر مُشتمل فعل ہے۔ کوہ پیمائی میں پورٹرز کو غیرضروری طور پر اوور لوڈ کرکے استعمال کرنا اور سب سے بڑھ کر اُنکی حفاظت کا خیال نہ رکھنا میرے نزدیک غفلتِ مُجرمانہ (Criminal Negligence) ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میدانی علاقوں کے لوگ اگر اپنے نظاماتِ بدنی کو مدّ ِ نظر رکھ کر اپنی جسمانی تربیت پر توجہ دیں اور کوہ پیمائی کی بُنیادی تربیت حاصل کرلیں تو یقیناً پورٹرز پر اُنکا انحصار کم ہو جائے گا جو کوہ پیمائی میں دونوں کی زندگی کےلیے ضروری ہے اور یقیناً کامیابی کی ضمانت بھی نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply