جس جرم کی سزا نہیں ہوتی۔۔امر جلیل

چونکہ میں جھوٹ بولتا ہوں، جھوٹ لکھتا ہوں، جھوٹ سنتا ہوں، جھوٹ دیکھتا ہوں، اس لیے سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں لکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اب تو میں احتیاط سے کام لیتا ہوں، ورنہ ایک ایسا دور بھی آیا تھا جب میں لگاتار، بےدریغ سیاسی کالم لکھا کرتا تھا۔ ایسے ایسے کالم لکھتا تھا جنہیں پڑھ کر سیاستدانوں میں بھگدڑ مچ جاتی تھی۔ کئی سیاستدان بھگدڑ کے دوران گر پڑتے اور پیروں تلے کچلے جاتے تھے۔ کچھ سیاستدان گھبرا کر سیاست کرنا چھوڑ دیتے تھے اور برنس روڈ پر دہی بڑے بیچنے لگتے تھے۔ دیکھا دیکھی نسل در نسل دہی بڑے بیچنے والے سیاستدان بن جاتے تھے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب آرام باغ کے نکڑ پر بند کباب بیچنے والے نے ایک نامی گرامی سیاستدان کو انتخابات میں عبرت ناک شکست دی تھی اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ بند کباب بیچنے والا وزیر تعلیم بن گیا تھا اور لوگوں نے نامی گرامی سیاستدان کو آرام باغ کے نکڑ پر بند کباب بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔
کمال کا سیاسی پس منظر ہے ہمارا!
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں ایسے سیاستدان ظہور پذیر ہوئے تھے جو ہر دور میں الیکشن جیت کر قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنتے تھے۔ ہمیشہ خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ جمائیاں لیتے رہتے تھے۔ بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ کھلے ہوئے مائیکروفون کی وجہ سے ان کے خراٹے ایوان میں گونجتے رہتے تھے۔ آخرکار اسپیکر کو ایسے ممبران کے مائیکروفون بند کروانا پڑتے تھے۔ ایسے ممبران اپنے قبیلوں کے سردار ہوتے تھے۔ بڑے بڑے زمیندار ہوتے تھے۔ جاگیردار ہوتے تھے بلکہ ہوتے ہیں۔ وہ سب اسمبلیوں میں اپنی اپنی سیٹ کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں ایسے ممبر بھی دیکھے جاتے ہیں جن کے آباؤاجداد انگریز کی اسمبلی کے ممبر ہوا کرتے تھے۔ ان کی موروثی نشست کبھی بھی ان کی فیملی سے باہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ آج بھی ان کے پوتے، پڑپوتے ان کی موروثی نشستوں پر براجمان ہیں اور وہ اپنی موجودگی سے دستور ساز اور قانون ساز اسمبلی کو چار پانچ چاند لگاتے رہتے ہیں۔ ایک ایک کنبے کے قبضے میں پانچ چھ نشستیں ہوتی ہیں۔ ایسے سرداری اور جاگیرداری گھرانے بھی ہیں جن کی فیملی کے دس بارہ افراد ایک ساتھ اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔ ایک نجی ادارے کی تحقیق کے مطابق اسمبلی کے تمام ممبران آپس میں دور کے یا نزدیک کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ وہ سب شام سے رات گئے تک ایک دوسرے کو دعوتوں پر بلاتے ہیں۔ دعوتوں میں دیرینہ دوست واحباب بلائے جاتے ہیں۔ جزا اور سزا کو مد نظر رکھتے ہوئے ان محفلوں کا آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنانا مناسب نہیں سمجھتا۔ آپ کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ ان دعوتوں کے دوران خفیہ اور ظاہری حکمرانوں اور سیاسی اتار چڑھائو پر باتیں ہوتی ہیں اور قہقہے لگتے ہیں۔تہیہ کیا تھا کہ آج سیاست کا ذکر خیر نہیں ہوگا۔ اس لیے سیاست اور سیاستدانوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا ہے۔ میں آپ کو ایک افسانہ سنانا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ افسانہ پڑھنے کی شے ہے، سنانے کی نہیں ہے۔ سنائی شاعری جاتی ہے۔ سنایا گانا جاتا ہے۔ آپ گانا پڑھتے کم اور سنتے زیادہ ہیں۔ بہرحال میں آپ کو آج ایک افسانہ سناتا ہوں مگر افسانہ سننے سے پہلے آپ ایک پہیلی بوجھیں۔آسان سی پہیلی ہے۔ آپ پہیلی سنیے۔ وہ کون سا جرم ہے کہ جرم کرتے ہوئے کوئی پکڑا جائے تو اسے قانون کےتحت مجوزہ سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی جرم سرزد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے کوئی سزا نہیں ملتی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسے کوئی جج سزا نہیں دے سکتا؟ اس اثنا میں مجھے درست جواب موصول ہوچکا ہے۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ وہ جرم خودکشی کرنا ہے۔ اگر آپ خودکشی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، تو آپ کو قانوناً دوڈھائی برس جیل کاٹنے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ خودکشی کرتے ہوئے اگر کوئی اللہ سائیں کو پیارا ہوجائے، تو پھر اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملتی۔اب آپ افسانہ سنیں جوکہ سچ پر مبنی ہے۔ افسانے میں جائے وقوع، ملک اور معاشرے کا ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ اس نوعیت کی کہانی کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے میں جنم لے سکتی ہے۔ایک شخص نے عمارت کے ساتویں فلور سے چھلانگ لگادی۔ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے کے مصداق، خودکشی کرنے والا شخص سڑک سے گزرتے ہوئے ٹرک پر جاگرا۔ ٹرک بھس بھری بوریوں سے لدا ہوا تھا۔ خودکشی کی کوشش کرنے والا شخص بھس بھری بوریوں سے لڑھکتا ہوا سڑک پر گرا۔ اسے تھوڑی بہت چوٹیں آئیں۔ دھرلیا گیا۔سرکاری اسپتال سے مرہم پٹی کروانے کے بعد پولیس نے ملزم کو عدالت میں پیش کیا۔جج نے عدالت میں ایک طرف بیٹھے ہوئے چار لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ ان چار چشم دید گواہوں نے تمہیں عمارت کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا‘‘۔ملزم نے چشم دید گواہوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تب یہ چشم دید گواہ کہاں تھے جب میں ہنرمند روزگار کیلئے دھکے کھارہاتھا؟ تب یہ چار چشم دیدگواہ کہاں تھے جب میری بیوی نے اپنے بچوں کو بھوک اور بیماری میں بلکتے ہوئے دیکھ کر خودکشی کرلی تھی؟ ان چار چشم دید گواہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کیو ں خود کشی کرنے جارہا تھا؟‘‘۔
اب آپ سوچیں کہ جج نے کیا فیصلہ دیا ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply