• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قصہ رپٹ اندراج کا۔۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

قصہ رپٹ اندراج کا۔۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

آخری روزے کے دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ خیال یہ تھا کہ روزے تیس ہی ہوں گے لہٰذا بہت سے کام تیسویں روزے کے دن کرنے کے لیے چھوڑ دیے تھے کہ دن کو اچانک فواد چودھری نے چاند دیکھنے سے پہلے ہی نہ صرف عید کا اعلان کر دیا بلکہ ٹویٹر پر قوم کو عید کی مبارکباد بھی دے دی۔ ذہن میں آ رہا تھا کہ مولوی صاحبان نے اگر اس کو اناء کا مسئلہ بنا لیا تو تنازع ہی کھڑا نہ ہو جائے، پھر بھی ذہن میں یہی تھا کہ ہم تو ہمیشہ سعودی عرب سے ایک دن بعد عید کرنے کے عادی ہیں لہٰذا روزے تیس ہی ہوں گے۔ سہہ پہر کو اچانک خیال آیا کہ یہاں تو کچھ بھی ممکن ہے، انہونی ہونی بھی ہو سکتی ہے، صبح عید ہو گئی تو کام ادھورے چھوڑ رکھے ہیں وہ تو رہ ہی جائیں گے۔ فوراً اٹھا، بیگم کے لیے عید کا تحفہ، جو آخری دن لینے پہ چھوڑ رکھا تھا، لینے مارکیٹ چلا گیا اور وہاں سے گاڑی دھلوانے آئی جے پی روڈ پہ واقع شیل پٹرول پمپ کے کارواش چلا گیا۔ کارواش کے بعد گاڑی خشک کرنے کے لیے وہ سڑک کے کنارے  کھڑی کر کے اسے صاف کرتے ہیں۔ لڑکا گاڑی صاف کر رہا تھا اور میں بر لبِ سڑک ٹریفک کی طرف پیٹھ کیے ہاتھ پیچھے باندھے ڈھیلا ڈھالا سا موبائل پکڑے کھڑا تھا، ایک دم مجھے دھکا لگا، خیال گزرا بالکل سڑک پہ کھڑا ہوں تو شاید ٹکر لگ گئی، ساتھ ہی محسوس ہوا کہ شاید موبائل نیچے گر گیا ہے، ایک دم پیچھے مڑ کے دیکھا، موبائل نظر نہیں آیا تو خیال کوندا کہ موبائل چھن گیا ہے، یہ ادراک ہونے میں بمشکل پندرہ سیکنڈ لگے ہوں گے، نظر اٹھائی تو ایک موٹرسائیکل سوار بیس تیس قدم دور نکل چکا تھا اور ایک دم اس نے موٹرسائیکل کو ریس دی اور یہ جا وہ جا۔ ظاہر ہے میں پیدل اس کا پیچھا نہیں کر سکتا تھا اور اُس کے نکل جانے کے بعد شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ گاڑی صاف کروا کے دو چار کام جو باقی رہتے تھے ادھورے چھوڑ کے گھر لوٹا، سِم بلاک کروائی۔ پہلے خیال آیا کہ موبائل بھی بلاک کروا دوں لیکن پھر ذہن میں آیا کہ موبائل بلاک ہو گیا تو ٹریس نہیں ہو سکے گا۔ میرے چھوٹے سالے صاحب جو آئی ٹی کے ماہر ہیں، اُنہیں فون پر بتایا تو اُس نے فوراً میرا ای میل لاگ ان کر کے دیکھا تو آخری لوکیشن آئی ٹین آ رہی تھی، اُس کے بعد فون آف ہو گیا تھا۔ افطاری کے بعد رپورٹ درج کروانے کی غرض سے تھانہ پیرودھائی گیا، تفتیشی افسر بیٹھا تھا، اُسے قضیہ سنایا تو کہنے لگا وکیل صاحب! درخواست لکھ دیں۔ درخواست لکھ کر دی تو کہنے لگا آئیں وقوعہ دیکھ آئیں۔ راستے میں اُسے دو تین کالز آئیں تو ہر ایک کو اُس نے بتایا کہ یار اِک وقوعہ ہو گیا اے اوہدا معائنہ کرن جا ریاں (ایک وقوعہ ہو گیا ہے، معائنہ کرنے جا رہا ہوں)۔ اُس کے بتانے کے انداز سے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید قتل کا کوئی وقوعہ دیکھنے جا رہا ہے۔ خیر جائے “حادثہ” پہنچے، میں نے اسے تفصیل بتائی کہ میں یوں اور یوں کھڑا تھا اور یہ اور یہ ہوا۔ وقوعہ دیکھ کے واپس جا رہے تھے تو کہنے لگا کہ وکیل صاب! ایہہ علاقہ ساڈے تھانے دی حدود وچ نئیں اؤندا، ایہہ تھانہ سبزی منڈی اسلام آباد دی حدود اے لیکن فیر وی واپس چل کے تُسی ایس ایچ او صاحب نُو مل لو۔ تھانے جا کے ایس ایچ او سے ملا تو اُس نے کہا کہ سر ہماری حدود تو پٹرول پمپ کی پچھلی گلی سے شروع ہوتی ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ گلی میں واقع کسے گھر کے گیٹ کے باہر کوئی وقوعہ ہو جائے تو وہ تھانہ سبزی منڈی اسلام آباد کی حدود میں آتا ہے اور گیٹ کے اندر وقوعہ ہو تو ہماری حدود وہاں سے شروع ہوتی ہے، آپ پراپر فورم پہ درخواست دے دیں۔ میں نے بحث کر کے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور تھانہ سبزی منڈی اسلام آباد چلا گیا۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود اے ایس آئی کو تعارف کروا کے واقعہ بتایا تو اُس نے بھی یہی کہا کہ سر ایہہ علاقہ پیرودھائی تھانے دی حدود وِچ آندا اے تُسی اوتھے درخواست دیو۔ میں نے اُسے کہا کہ وہ علاقہ آپ کی حدود میں آتا ہے اور آپ میری درخواست پر رپورٹ درج کریں۔ وہ درخواست لے کر ایس ایچ او کے پاس چلا گیا، تین چار منٹ بعد واپس آیا اور کہا سر پٹرول پمپ کے عین پیچھے پولیس چوکی ہےِ آپ وہیں درخواست دیں۔ صبح ہم وہاں جا کے طے کر لیں گے کہ علاقہ کس تھانے کی حدود میں آتا ہے۔ میری اُس سے تھوڑی بحث ہو گئی تو میں نے کہا کہ میں خود ایس ایچ او سے مل لیتا ہوں۔ ایس ایچ او کے کمرے میں گیا تو وہ صاحب بڑے کھلے ڈُلے انداز میں بیٹھے تھے، دیکھتے ہی کہنے لگے کہ وکیل صاحب حکم کریں۔ میں نے کہا سر حکم کیا کرنا ہے، عام آدمی کو تو آپ وقوعے کے بعد دو تھانوں کے درمیان چکر لگواتے رہتے ہیں لیکن مجھے تو آپ پیرودھائی اور سبزی منڈی تھانوں کے بیچ شٹل کاک نہ بنائیں، علاقہ آپ ہی کی حدود میں آتا ہے لہٰذا رپورٹ کا اندراج کریں۔ پہلے تو اُس نے بھی تین چار بار  علاقہ ہماری حدود میں نہیں آتا کی گردان دہرائی، بات چیت خوشگوار ماحول میں ہو رہی تھی، ایک دم ایس ایچ او نے کہا کہ سر بات یہ ہے کہ آئی جے پی روڈ تو ہماری حدود میں آتی ہے اور اُس کے پیچھے جو رہائشی علاقہ ہے وہ تھانہ پیرودھائی کی حدود میں آتا ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہو گیا، اب سڑک اور رہائشی علاقے کے بیچ کا  علاقہ جو آپ نے چھوڑ دیا ہے  وہ کِس کی حدود میں آتا ہے اور میں تو ویسے بھی سڑک پہ ہی کھڑا تھا۔ تو ایک دم ایس ایچ او نے درخواست میرے ہاتھ سے لی اور کہا کہ لیاؤ وکیل صاب تواڈا موبائل اسی ہی ٹریس کر دینے آں (لائیں وکیل صاحب آپ کا موبائل ہم ہی ٹریس کر دیتے ہیں)۔ درخواست مارک کر کے مجھے کہا سر بے فکر ہو جائیں، موبائل چھننے کے بعد اگر رپورٹ درج ہو جائے تو تقریباً 70 فیصد ریکوری ریٹ ہے، انشااللہ آپ کا موبائل بھی ٹریس ہو جائے گا (یہ ساری تگ ودو میں نے اِس لیے بھی کی کہ موبائل مجھے اپنی بیگم کی طرف سے سالگرہ پر تحفہ ملا تھا)۔ رپورٹ درج کروا کے نکلے تو اتنے میں پتہ چل چکا تھا کہ فواد چودھری کے بعد اپنے مفتی منیب صاحب بھی چاند چڑھا چکے ہیں، اب فکر دامن گیر ہوئی کہ صبح تو عید ہے، سِم نہ نکلوائی تو عید پر موبائل کے بغیر کیسے گزارا ہو گا؟ مارے مارے پھرے کہ کہیں سے سِم مل جائے، بڑی مشکل سے ایک جاننے والے صاحب کی موبائل شاپ پر اِس امید سے گئے کہ سَم نکل آئے گی، تفصیل دی تو صاحب کہنے لگے کہ یہ تو وارد کی سِم ہے، جیز کی ہوتی تو نکل آتی، دونوں کمپنیوں کے انضمام کے باوجود وارد کی سمیں نکلوانے کے لیے فرنچائز ہی جانا پڑتا ہے اور فرنچائز اب عید کے بعد کھلے گی۔ لہٰذا اب اپنا دوسرا پرانا موبائل سم کے بغیر میرے کس کام کا ہوتا۔ رمضان لاک ڈاؤن میں گزارنے کے عید کے دن اب کرفیو میں گزریں گے۔ موبائل نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی کو عید مبارک کا پیغام بھیج سکا اور نہ ہی کال پر کسی کو مبارکباد دے سکا۔ اِس لیے سب دوستوں اور احبابوں کو اِس تحریر کے ذریعے کرونا زدہ عید کی ڈھیروں مبارکباد۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply