• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔ اظہر سید

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔ اظہر سید

جب کوئی فوج اپنے پیشہ ورانہ امور کی بجائے پوری ریاست کی  ذمہ داری سنبھال لے تو ایک وقت آتا ہے کہ  تمام تر زوال اور ابتری کی  ذمہ داری کا بوجھ بھی سنبھالنا ہوتا ہے ۔جب جوابدہی کا کوئی نظام اور خوف موجود نہ ہو تو پھر چند افراد پوری ریاست کے فیصلے کرنے لگتے ہیں ۔ اس بات کا تعین بھی نہیں ہو سکتا کہ ملکی سلامتی کا نام لے کر کئے جانے والے فیصلے  ذاتی مفادات کیلئے تھے یا پھر کسی سسٹم کے تحت فیصلے کئے گئے تھے ۔

امریکی افواج افغانستان سے جا رہی ہیں اور انہیں اپنی افواج کی حفاظت کیلئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔افغانستان میں سکول پر حملہ ہوا ،طالبات شہید اور زخمی ہوئیں ۔ مسلح افواج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کابل پہنچ گئے ۔یہ بہت الارمنگ ہے کہ افغانستان میں ہوئے حملے  کا جواب پاکستان سے مانگا گیا ہے اور چیف کابل میں دنیا کو بتا رہے ہیں کہ افغان امن پاکستان میں امن کیلئے ضروری ہے ۔

ماضی کو بھول جائیں اس وقت امریکی فوج افغانستان میں موجود تھی اور انہیں پاکستانیوں کی ضرورت تھی ۔ افغانستان میں خود کش دھماکے ہوتے ،نہتے معصوم لوگ مرتے ۔ افغان طالبان پر الزامات لگتے لیکن راوی چین ہی چین لکھتا ۔اب ایسا ممکن نہیں ۔افغان طالبان کے خود کش حملوں کا جواب پاکستان سے مانگا جائے گا ۔جو پاکستانی افغانستان میں شہید ہونگے یا جاں بحق ان کا جواب بھی طلب کیا جائے گا ۔

ہمیں خوف آرہا ہے ،وقت کا پہیہ اب بہت تیز تیز گھومے گا ۔جس طرح  آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کیلئے آرمی پبلک سکول کا سانحہ ایک جواز تھا جبکہ بونس میں عمران خان کے برباد ہوجانے والے دھرنے  سے بھی نجات مل گئی تھی اسی طرح کابل کے سکول حملہ کے اندر سے افغان طالبان کے خلاف ایک بھر پور  آپریشن نکلے گا ۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بازو مروڑنے کیلئے امریکی بہت سارے دباؤ استعمال کریں گے اور بلوچستان میں فوجی اڈہ حاصل کر لیں گے ۔ اگر امریکیوں کو بلوچستان میں فوجی اڈہ مل گیا تو یہ ایک تیز سے دو تین شکار ہونگے ۔امریکی بلوچستان میں بیٹھ کر سی پیک کی موثر نگرانی شروع کر دیں گے ۔افغان طالبان کے خلاف فضائی  آپریشن کریں گے اور ہر دو فریق یعنی افغان طالبان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی گروپ کا اتحاد توڑ دیں گے ۔

ہمیں لگتا ہے کہ جو حال کشمیری مجاہدین کا ہوا اور  جو انجام “کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے  ” کے نظریہ کا ہوا وہی حال افغانستان کو پانچو یں  صوبے یا تزویراتی گہرائی بنانے کی پالیسی کا ہونے جا رہا ہے ۔

جب تیمور کے گھر سے غیرت چلی جائے تو پھر مغل شہزادیوں کو غلام قادر روہیلہ کے دربار میں برہنہ رقص کرنا ہوتا ہے اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود صدقے اور فطرانے کے چاول کی بوریاں اپنے عوام کو دینا ہوتی ہیں ۔

ہمیں نہیں پتہ کہ نواز شریف کو کیوں فارغ کیا گیا لیکن تاریخ بہرحال صاف صاف بتا دے گی کہ اس کھیل کے پیچھے چین کو سی پیک کے  ذریعے عالمی طاقت بننے سے روکنے کی امریکی خواہش تھی ۔ یہ کھیل جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کے غصے میں رچایا گیا یا پھر اس بات کا خوف تھا کہ معاشی ترقی سے اگر نواز شریف یا جمہوریت مستحکم ہو گئی تو ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسوں کی ملکیت چھوڑنا پڑے گی اور آئین میں دیے  گئے کردار تک محدود ہونا پڑے گا ۔

جو کچھ بھی ہوا زمانہ عصر ریاست کی دو بڑی پالیسیوں کا جنازہ دیکھ رہا ہے ۔شہ رگ کا حال یہ ہو گیا ہے کہ وزیر خارجہ صاف الفاظ میں کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ بتا رہا ہے اور “پانچویں”صوبے کا یہ حال ہے کہ خبریں آ رہی ہیں کہ امریکی افغانستان سے جانے کے بعد بلوچستان میں فوجی اڈہ بنا کر بیٹھ جائیں گے ۔

اس حال پر خود پہنچے ہیں ۔یہ سوچی سمجھی  سکیم لگ رہی ہے ۔معیشت ترقی کرتی تو بھکاری نہ بنتے اور نہ دنیا اچھوت بناتی ۔تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا پہیہ دھرنوں ،جلسوں ،اداروں اور ففتھ جنریشن وار کا نام لے کر میڈیا کو پالتو بنا کر روک دیا اب کشکول لے کر نگری نگری قریہ قریہ گھومتے ہیں اور جھولی میں چاول کی بوری ڈال کر لے آتے ہیں ۔

آرمی پبلک سکول پر حملے کے وقت کا چیف بھی کابل گیا تھا لیکن اس وقت وضاحت طلب کرنے گیا تھا ۔کابل کے سکول پر حملے کے وقت بھی چیف کابل گیا ہے لیکن وقت اتنا تیزی سے گزرا ہے کہ اب وضاحت دینے کا وقت آن پہنچا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ڈر لگ رہا ہے جو پالیسی بلوچستان کیلئے بنائی گئی اور جس پالیسی پر قبائلی علاقہ جات میں عمل کیا گیا اس کی بھاری قیمت ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔پنجاب کی مقبول سیاسی قیادت کے خلاف کارروائی کر کے بڑے صوبے میں اپنے خلاف عوامی جذبات پیدا کر لئے ۔ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں لاپتہ کرنے کی پالیسی سے یہاں بھی عوامی رائے عامہ اپنے خلاف کر لی ۔کوئی مشکل وقت آن پہنچا تو کیا ہو گا یہ سوال خوف پیدا کر رہا ہے ۔خدا پاکستان کا حامی و ناصر ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply