واہ نی مائے ۔۔صوفیہ بانو

رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی عید کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ عید کی تیاریاں پورا مہینہ کی جاتی ہیں لیکن یہ کون جانتا ہے کہ اس مہینے کے اختتام پر آنے والی عید کی خوشیاں منا بھی پاتے ہیں کہ نہیں۔ تین سال ہونے کو آئے جب ایک ایسی عید زندگی میں آئی کہ عید کے نام کے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ عید کے لیے کی گئی شاپنگ پڑی کی پڑی رہ گئی۔ ماں کے لیے سلوائے عید کے دو جوڑے درزن کے پاس سے لانے کادل ہی نہ چاہا۔ درزن کہتی ، ہائے باجی ایک جوڑا تو لے جاتیں،امی پہن لیتیں۔۔اُسے  کہا !بہن میں کون سا جانتی تھی کہ عید سے پہلے ہی ماں ہم سے روٹھ کر چلی جائے گی۔ علم ہوتا تو ہاتھ جوڑ کے، پاؤں پڑ کے روک لیتے کہ ماں رُک جا عید آ رہی ہے۔
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

ماں کی جدائی میں لکھے جانے والے گیتوں ، نظموں کو سُنتے تو آنکھیں خوامخواہ بھر آتیں اور سوچتے کہ وہ بیچارے لوگ کیسے زندگی گزارتے ہوں گے جن کی ماں اس دنیا میں نہیں ہوتی۔ کیا علم تھا کہ ایک دن ہم بھی موسی ؑ کی صف میں شامل ہونے والے ہیں، جن کو اللہ نے تنبیہ کی کہ اے موسی! سنبھل کے چلنا ، اب تیرے پیچھے ہاتھ اُٹھانے والی تیری ماں نہیں رہی۔

میری ماں ، عام ماؤں کی طرح بھولی بھالی عورت تھی۔ جس کی ساری زندگی خاوند اور بچوں کے ارد گرد گھومتی تھی ۔ بچوں کو پالنے ، اُن کے لیے کھانا بنانے اور کپڑے دھونے میں اپنی عمر صَرف کر دی۔ ساری عمر ماں نے تنکا تنکا جمع کر کے آشیانہ بنایا ،کیونکہ ان کے خیال میں ذاتی گھر ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیےخود کو ترسایا۔ اولاد کو پڑھانا لکھانا اُن کا سب سے بڑا خواب تھا۔ مجھے علم ہے کہ میری ماں ایک جنتی عورت ہے کیونکہ وہ ہماری طرح نہ تو چالاک تھی اور نہ ہی زمانہ ساز۔ اُس نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ ہاں اگر اُن کے میکے یا بھائیوں کے خلاف  کسی کی زبان سے کلمات نکل جاتے تو پھر گھر میدانِ جنگ بن جاتا تھا۔ آخری وقتوں میں جب بولنا بہت کم کر دیا تھا تب بھی اگر کبھی ان کے میکے کی بات چھڑ جاتی تو اُن کو چُپ کرانا مشکل ہو جاتا تھا۔
ساری عمر کوئی نہ کوئی ضعیف ڈھونڈ لیتیں اور اُس کی خدمت میں جُت جاتیں۔ اپنے دادا، دادی، نند کی خدمت کی ،اُس کے بعد محلے کی دو ضعیف عورتوں کی بھی اپنے سگے رشتوں سے بڑھ کے خدمت کی۔ اللہ پاک ہر انسان کو اُس کے کیے کا اجر دنیا میں  میں ہی دے دیتا ہے ،اس بات پر مجھے سو فیصد یقین ہے۔ اور یہ اجر دینے کے لیے فرشتے اُتر کر نہیں آتے بلکہ نیک اولاد کی شکل میں یہ اجر آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ میری ماں کے کیے گئے تمام نیک اعمال کا ادنیٰ  سا بدلہ ان کو اولاد ، خاص کر بیٹوں کی شکل میں ملا۔ جنہوں نے دل و جان سے ماں کی خدمت کی۔ لیکن وائے حسرت ماں کا لاڈلا بیٹا اور پیاری بیٹی اُس کا آخری دیدار نہ کر سکی۔ ایک کے نصیب نے یاوری کی اور اس نے عین دفنائے جانے سے پہلے ماں کا منہ دیکھ لیا۔سب سے خوش نصیب تو ماں کا چھوٹا فوجی بیٹا رہا جو آخری وقت میں ماں کے ساتھ تھا۔ ماں کو اُٹھا کر واش روم اور سی ایم ایچ کے چکر لگاتا رہا۔ باقی بیٹے منہ دیکھتے رہ گئے اور فوجی بازی لے گیا۔ چھوٹا مجھے ایک دن  کہنے لگا باجی، کل انتیسواں روزہ ہے اور اس بار عید انتیس کی ہی ہو گی۔ اگر امی کو ہسپتال سے چھُٹی نہ ملی تو کل مجھے اُن کے نئے کپڑے دیجیے گا ،ساتھ کون مہندی بھی، میں اُن کو خود مہندی لگاؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہائے رے خواب! انتیسویں روزے کو صبح دس بجے ابو جی کی ہسپتال سے کال آئی کہ مجھے لگتا ہے کہ اس بار تمہاری ماں نہیں بچے گی۔ میں نے چیخ کے کہا ابو جی ایسے تو نہ کہیں۔ وہ ایسے ہی بیمار ہوتی ہیں پھر ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ بھاگم بھاگ ہسپتال کے آئی سی یو میں پہنچے تو ڈاکٹر اُن کے منہ پر سفید چادر دے رہا تھا۔ یہ کیا ماں؟؟ بغیر کچھ کہے ہی رُخصت ہو گئی؟ کوئی نصیحت؟ اس دنیا میں کیسے جینا ہے ؟ کچھ تو بتاتی جاتی۔ پردیس میں بیٹھے بیٹوں اور بیٹی کا خیال نہیں آیا کہ وہ عید کے دن اس خبر کو کیسے سُنیں گے؟ چلو ہم تو تیرے جسدِ خاکی کا لمس محسوس کر لیں گے وہ کیا کریں گے جو تجھے جیتا جاگتا چھوڑ کے گئے تھے۔
بانو قدسیہ ٹھیک کہتی ہیں کہ جب بیٹیوں کو ضرورت ہوتی ہے مائیں چُپکے سے مر جاتی ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ کون اُن کے لیے دعائیں کرے گا اور کون اُن کو زندگی کے نشیب و فراز سکھائے گا۔ ماں ابھی تو ہم نے تیرے وہ سارے خواب پورے کرنے تھے جو ساری عمر جاگتی آنکھوں سے تُو نے دیکھے۔ محدود آمدن میں بڑے کنبے کو پالنا کوئی آسان کام نہیں۔ ابا جی نے ساری عمر جو کمایا لا کے امی کے ہاتھ پر رکھ دیا کہ بھلیے لوکے جو مرضی کر۔ اور بھلی لوک نے سوچ سوچ کے خرچ کیا۔ اب قدم قدم پر ماں کی وہ قربانیاں یاد آتی ہیں تو دل سے ہائے نکلتی ہے کہ ماں تھوڑا سا تو موقع اور دیتی۔ تو نے جانے میں بہت جلدی کی۔ ابھی تو ہم نے جی بھر کے تیری خدمت بھی نہیں کی تھی اور تُو ہاتھ چھُڑا کر چلی گئی۔ واہ نی مائے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply