مہمانوں کے آنے سے پہلے فضیلہ نے اپنے بیک یا ر ڈ پر ایک طائرا نہ نظر ڈالی ۔ سب کچھ کتنا خو بصورت لگ رہا تھا ۔ نفاست سے کٹی ہوئی ہری گھاس ، ٹراپیکل پھولوں والے سرا مک← مزید پڑھیے
میرے بیٹے علی نے ہمیشہ کی طرح اپنا سکول بیگ شاپ کے ایک کونے میں پٹخا اور سٹول کھینچ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے بھی اپنا معمول کا سوال دہرایا۔ ”کھانا کھا لیا تھا؟“ حقیقت یہی ہے کہ← مزید پڑھیے
یکایک چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں ،راہ گیر چلتے چلتے منجمند ہوگئے۔سب لوگ پناہ لینے کو اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔سڑک پل بھر میں سنسان ہوگئی۔ہم وطن ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے تھے۔ایک گروپ ان لوگوں کا← مزید پڑھیے
دونوں میں دوستی ناگزیر تھی۔ دونوں جوان تھے‘ خوبرو تھے ۔ بلاکے ذہین اور ایک سی سوچ رکھنے والے۔ گھنٹوں گپ شپ کرتے ‘ بحثیں کرتے اور فلسفے جھاڑتے رہتے۔ وہ اسے کبھی کبھار چھیڑ کر ’’ فلسفیہ‘‘ بھی کہہ← مزید پڑھیے
تانے بانے میں اُلجھی جالے بُنتی ہوں مکڑی جیسی لگتی ہو ں۔۔۔خود سے سُنتی ہوں یہ تالاب بھی کہتا ہے جس کے بھیتر عکس میرا چھپ رہتا ہے دراصل میں تتلی ہوں گُل کو ڈھونڈنے نکلی ھوں چہکتے مہکتے← مزید پڑھیے
شنید ہے کہ معاشرے کو راست باز اور پاکیزہ تر بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جارہا ہے۔ خبر آئی ہے کہ آنے والے یوم محبت یعنی بد نام زمانہ ویلنٹائن ڈے کو جائز اور حلال بنانے کے لئے← مزید پڑھیے
حقیقت کیا ہے؟ وہ جو آنکھ دیکھتی ہے، دماغ سوچتا ہے یا پھر وہ منظر جو ٹی وی سکرین پر دکھائی دیتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے۔ کسی کو کیا معلوم کہ کونسا درد ایسا ہے جو دِکھتا تو← مزید پڑھیے
آج کل پاکستانی سیاست پر ایک دلچسپ تماشا چل رہا ہے، پردہ کبھی اٹھتا ہے تو کبھی گرتا ہے مناظر تبدیل ہوتے اور ہوتے چلے ہیں۔ گلی گلی میں پھیری لگانے والے آوازہ لگاتے گھوم رہے ہیں پرانے برتن دے← مزید پڑھیے
آج آخری روزہ تھا- افطاری کا وقت ہونے ہی والا تھا، نوری مسجد کے بڑے سے صحن میں قرآن شریف پڑھنے کے لئے آئے ہوئے طالبعلم دھلی ہوئی اینٹوں والے سرخ سرخ فرش پر منظم انداز میں قطاریں بنا کر← مزید پڑھیے
محبتوں کے ناچ گھر میں ناچتے تھے دو بشر تھام کر ہاتھوں میں ہاتھ پیر اٹھتے تھے ساتھ ساتھ ایک حسینہ پھول سی، اک دیوانہ مست سا زندگی کے والٹز(waltz) کی دھن کیسی تھی مدھر مدھر اڑتے تھے ہرجا گلابی← مزید پڑھیے
دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ انہوں نے اپنا خفیہ ٹھکانہ، اپنی پناہ گاہ بنا رکھی تھی۔ وہ اپنے ہر اس شکار کو یہیں لے کر آتے جسے اغوا کرنے کے بعد انہیں ایک موٹی رقم مل سکتی← مزید پڑھیے