اللہ کی مخلوق ۔نیلم احمد بشیر

 

دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ انہوں نے اپنا خفیہ ٹھکانہ، اپنی پناہ گاہ بنا رکھی تھی۔ وہ  اپنے ہر اس شکار کو یہیں لے کر آتے جسے اغوا کرنے کے بعد انہیں ایک موٹی رقم مل سکتی تھی۔ ان کی دہشت کو للکارنے کا کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ اغوا شدہ افراد میں، اس علاقے میں کام کرنے والے غیر ملکی انجینئرز، امریکن ڈپلومیٹ، ملک کے مشہور بزنس مین اور سیاستدانوں کے بیٹے سبھی شامل رہتے۔ ان سب کو اس غیر آباد ، سنسان پتھریلے علاقے میں لایا جاتا اور مہینوں، کبھی کبھار سالوں تک چھپا کر رکھا جاتا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ ان کے لوگ کہاں روپوش اور کہاں کھو گئے ہیں۔پہاڑ چپ چاپ دم سادھے یہ سب دیکھتے رہتے اور ہوائیں ہولے ہولے قدم بڑھاتیں سسکیاں لیتی رہتیں۔ وہاں دس پندرہ افراد کا مستقل قیام تھا مگر نئے لوگوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا۔ کبھی کبھار کوئی موت کا سیاہ پرندہ ادھر آدھمکتا تو ان پر چپکے سے تباہی برسانے کی کوشش ضرور کرتا مگر وہ کبھی ختم نہ ہوتے۔ خود رو کھُمبیوں کی طرح پھر سے اُگ آتے کیونکہ اس وادی کی متضادان کی مائیں زرخیز اور ہری بھری تھیں۔ دس دس بیٹے جنما کر نئی نئی کُمک پہنچانے میں جُٹی رہتیں۔ یوں ان کی نفری کبھی کم نہ ہوتی، بڑھتی ہی چلی جاتی۔

وہاں ہر عمر کے لوگ رہتے تھے مگر نو جوان لڑ کوں کو خصوصی طور پر خود کش بمبار بنانے کی تر بیت دی جاتی۔ انہیں اچھے اچھے نصیحت آمو ز سبق اور مثالیں دی جاتیں۔ انہیں بتایا جاتا کہ وہ ایک عظیم کارنا مہ سر انجام دینے جا رہے ہیں۔ اسلام دشمنوں کو ختم کرنا ان کی زندگی کا اہم ترین مشن ثابت ہوگا۔ کمانڈر ان سے کہتے۔۔۔’’اسلام کے فرزندو۔۔۔ یاد رکھنا، بٹن دباتے وقت اپنے سروں کو نیچے رکھنا، ٹھوڑیا ں دل کو چھو رہی ہوں۔ اس سے ایک تو یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جلو ۂ مبارک تمہیں دکھائی دے گادوسرا یہ کہ سر کٹ کر علیحدہ نہیں ہو گا اور یوں تمہیں شناخت نہیں کیا جاسکے گا۔۔۔حملہ کرتے ہی جنت کے دروازے تم پر نہایت کھلتے چلے جائیں گے۔۔۔ خوبرو حُوریں درجنوں کے حساب سے تمہیں خوش آمدید کہہ کر آغوش میں لے لیں گی اور تم ایک ابدی پاکیزہ زندگی گزارنے کے اہل قرار پاؤ گے۔۔۔‘‘

اس پناہ گا ہ میں قیا م پذیر لوگ بڑی خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔ یہ گھر ان کے گھروں سے لاکھ درجے بہتر تھا جہاں بے شمار افراد خانہ ہونے کے باعث انہیں نہ کبھی ڈھنگ کی روٹی نصیب ہوتی تھی نہ کوئی نیا کپڑا جوتا۔ ماں باپ غربت اور مسائل کی وجہ سے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے اور بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔یہاں بہت مزے تھے ۔ کھانے کو دنبے ، مرغے کا گوشت، نئے نئے کپڑے ، امریکن فو جیوں کی لاشوں سے اتارے ہوئے ڈیزائین جو گرز، مضبوط جوتے، سبز جیکٹیں، کاندھے سے لٹکانے والے بیگ ملتے تو بہت اچھا لگتا۔ نہ ماں باپ کی جھِک جھِک نہ بَک بَک،نہ روک نہ ٹوک۔ روز نئی نئی بندوقیں، اسلحہ ملتا تو طاقت کے نشے سے بدن سر شا ر ہو جاتا اور انگلیاں اسلام دشمن عناصر کی گردنیں کاٹنے کو مچلنے لگتیں۔

کمانڈر چا چا لڑکوں کی مذہبی ، روحانی، جسمانی ، اخلا قی ہر طرح کی تربیت کو اہم سمجھتے تھے۔ پا نچ وقت با قا عد گی سے با جماعت نماز پڑھوائی اور رمضان کے روزے رکھوائے جاتے۔ بچے بعد از فجر کلام پاک کی ایسی میٹھی تلاوت کرتے کہ با ز گشت سے سنگلاخ پہاڑوں کے دل موم ہو جاتے۔ ہو ائیں ورد کرتے کرتے جھو م اٹھتیں اور وجد میں آکر ناچنے لگتیں۔
’’ اللہ کے سپاہیوں۔۔۔ سنو۔۔۔تم نے معاشرے سے بدی اور بد لوگوں کو ختم کرنا ہے انہیں راہِ براست پر لانا ہے یہ دنیا بُرے لوگوں سے بھری پڑی ہے مگر ہم ایک مقدس جنگ لڑ رہے ہیں۔ہم پر لازم ہے کہ ہر اس شخص کو زندگی سے نجات دلوا دیں جو اللہ کے احکام کی پابندی سے گریز کرنے کی جرأ ت رکھتا ہو۔ مگر یہ بھی یاد رہے اللہ بڑا مہربان ، ربّ العالمین ہے۔۔۔کمزور اور بے بس کو تحفظ دینا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔۔۔ اللہ کی ہر تخلیق قابلِ عزت اور محبت ہے۔۔۔یہ سبق کبھی نہ بھولنا‘‘ بچے یہ سن کر تائید میں سر ہلاتے تو کمانڈر چا چا کا سینہ چوڑا ہو جاتا۔ خوش ہو کر وہ ایک دو اورفائر کرنے کی اجازت دے دیتے۔ بچے ہوائی فائر کر کے دل بہلاتے اور آپس میں خر مستیاں کرنے لگتے۔مزے کا سماں ہوتا۔

ایک صبح یونہی بچے کھیل کود رہے تھے کہ ایک لڑکے کو ایک خوبصورت نظارہ دکھائی دیا۔ دو ننھی ننھی پہاڑیوں کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سی سبز، ترو تازہ جھاڑی اُگ آئی تھی جس پر ٹکے ننھے ننھے سفید دلکش پھول صبح کی پاکیزہ ہوا سے اٹھکیلیاں کرتے، ہنس ہنس دہرے ہوتے جا رہے تھے۔
ٍ ایک بچے نے ہا تھ بڑھا کر انہیں تو ڑنا چاہا تو کمانڈر چاچا نے زور سے اس کی انگلیوں پر ایک چھڑی رسید کی۔۔۔’’پاگل ہوئے ہو کیا؟ پھولو ں کو جھاڑی سے تو ڑ رہے ہو؟بچوں کو اپنی ماں سے جدا کر رہے ہو؟خبر دار جو ایسا کبھی سوچا بھی۔۔۔بچو یہ سوچو یہ خدا کی نرم ونازک خوبصورت، پیاری تخلیق ہے۔اسے خراب کیا تو اللہ ہم سے ناراض ہو جائے گا۔ کملاگئے تو اللہ ہم سے اپنی رحمتیں چھین لے گا۔۔۔یہ زمین اللہ کی ہے اور یہ پھول زمین کی زیبائش ہیں۔۔۔سجاوٹ ہیں۔۔۔انہیں یونہی کھلنے دو۔۔۔سمجھے؟‘‘
’’جی چاچا۔۔۔بچوں نے سر جھکا کر مؤدبانہ انداز میں جواب دیا۔ اور اپنی رہائش گا ہ کے طور پر استعمال ہونے والے نماز کی جانب چل دیے۔

دو لڑکے شہباز خاں اور گلریز بخت کمانڈر چاچا کو خصوصی طور پر پسند تھے۔ ابھی 14 برس کے پورے بھی نہیں ہوئے تھے مگر کلاشنکوف چلانے اورگردنیں کاٹنے میں مکمل مہارت حاصل کر چکے تھے۔ کمانڈر چاچا کی ہر بات کو حرفِ آخرسمجھتے، ان کا ہر حکم بجا لاتے تو چاچا انہیں بہت محبت دیتے اور رات کو بھی اپنے ہی ساتھ سلالیتے تھے۔ دوسرے کمانڈر بھی ان دونوں لڑکوں کے کام، جرأ ت، فرمانبرداری، چُستی، مشاقی سے بہت خوش تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ یہ دونوں ہونہار سپوت ، بڑے کامیاب خودکش بمبار بنیں گے، بد لوگوں کی صفوں کی صفیں اڑا دیں گے اور یوں اسلام کا بو ل بالا ہو گا۔

کبھی کبھار ان سب کی پر سکون، دلفریب زندگی میں کو ئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا کہ سکھ چین غارت ہو کر رہ جاتا ۔ چند روز قبل وہ ایک شخص کو اغوا کر کے وہاں لائے تھے۔ اُسے کھانا پینا، بستر، کپڑے سب کچھ دیا گیا ، بس آنکھوں پر پٹی اور پاؤ ں میں زنجیریں ڈال دی گئی تھیں۔ اس نرمی کے با وجود وہ بے صبرا شخص چیخم دھاڑ مچائے ہوئے تھے۔ ہر وقت ہذیائی انداز میں چیخیں مارت رہتا اور ما حول کو خراب کر کے رکھ دیتا۔ اُس کے واویلے سے سبھی کو کوفت ہو رہی تھی۔
’’یا ر اس بد بخت کو آخر تکلیف کیا ہے؟ کیا کھانا نہیں مل رہا ؟اتنا غل مچاتا ہے کہ طبیعت خراب ہو کر رہ جاتی ہے‘‘کمانڈر افضل نے دوسرے کمانڈر سکندر سے چڑ کر شکوہ کیا۔
’’بھائی صاحب آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ کل رات تو اس سالے خنزیر کے بچے کی چیخو ں کی وجہ سے میں سو ہی نہیں سکا۔ اس بزدل کے بچے کو سمجھانا پڑے گا کہ یوں شور نہ کرے۔۔۔ ہم تنگ ہوتے ہیں۔‘‘ کمانڈر افضل نے گلریز اور شہباز کو اشارہ کیا تو بھاگے چلے آئے اور اس شخص کے منہ پر دو چانٹے رسید کیے وہ مزید بلک بلک کر رونے لگا۔ بچوں نے خاص قسم کے ہتھوڑے اور پلاس نکالے اور بزدل کے بچے کے ہاتھوں پر مار کر اس کی ہڈیاں تو ڑنا شروع کر دیں۔۔۔ بے صبرا مزید بلبلانے لگا اور درد کی شدت سے دہرا ہو کر زمین پر گر گیا۔ کمانڈ چا چا اور ان کے طالب علم بے ساختہ قہقے لگانے لگے۔

’’اوے۔۔۔ اگر تیرے دل میں ایمان کی طاقت ہوتی تو یوں کمزور نہ پڑتا۔۔۔ لگتا ہے تو نے اپنی ماں کا نہیں کسی بو تل سے دودھ پیا ہے اسی لیے زنا نیوں کی طر ح چیخیں مارت ہے۔۔۔‘‘ مغوی شخص کے ارد گرد طنز اور طعنوں کے تیر بر سنے لگے۔ تھوڑی دیر میں تھک ہا ر کر سبھی روٹی کھانے بیٹھ گئے اور خوش گپیاں شروع ہو گئیں۔ شام ڈھل رہی تھی۔ نمازیں پڑھ کر سبھی دراز ہو گئے اور پہاڑوں میں سنا ٹا چھا گیا۔ بزدل شاید ہوش کھو چکا تھا کیونکہ اس کے منہ سے سسکیوں کے علاوہ اب کر اہنے کی آواز بھی نکلنے لگی تھی۔
مغوی کچھ کچھ ہو ش میں آنے لگا تھا ۔ اس نے اپنے گلے کی پوری طا قت سے چلانا اور کر اہنا شروع کر دیا جس سے چائے نا شتہ کرتے ہوئے کمانڈر ان کو بہت کو فت محسوس ہوئی۔نماز کے لیے وضو کی کلیا ں کرتے ہی انہوں نے لڑکوں کو کچھ مخصوص اشارے کیے اور زنجیروں میں بندھے ہوئے شخص کی طرف سے منہ پھیر کر کھڑے ہو گئے۔ کُو اور پیشاب میں سنا ہو ا شخص ایک کریہہ منظر پیش کر رہا تھا اسے دیکھ کر سبھی کی طبیعت مالش ہونے  لگی۔

’’ابھی تو اس خنزیر کے بچے کے وارثوں کو ہمارا پہلا فون بھی نہیں گیا۔تاوان کی رقم بھی طے نہیں ہوئی اور اس نے ہمارا جینا محال کر دیا ہے۔ بزدل کا بچہ۔۔۔کسی بکری کا جنا‘‘ کمانڈر افضل نے اس کے پیٹ میں ایک زور دار لات رسید کی اور چھُری لے کر بکری کے دودھ کے پلے ہوئے کے گلے پر پھیرنا شروع کر دی۔ بچوں نے آگے بڑھ کر چا چا کی مدد کی اور گردن کو مکمل ماہرانہ صفائی سے کاٹ کر سر سے علیحدہ کر دیا۔ ایسے موقعوں پر ریکارڈ قائم کرنے اور رکھنے کے لیے جو وڈیو بنائی جاتی تھی۔۔۔۔وہ بھی ذوق شوق سے بنا لی گئی۔ایسی وڈیوز کو بعد میں میڈیا میں بھیج کر اور فیس بُک پر اپ لوڈ کرنے کا ایک اور ہی لُطف ہے۔۔۔بڑی دہشت قائم ہو جاتی ہے۔
’’چلو خلاصی ہوئی۔۔۔اب کم ازکم ہم رات کو سکون سے سو تو سکیں گے ۔ ایک بولا تو سب نے ہا ں میں ہاں ملائی۔

اچھا میں تھک گیا ہوں۔۔۔ کمانڈر نے چھُری کو پانی سے صاف کرتے ہوئے کہا۔’’ذرا آرام کرنے لگا ہوں۔جاؤ بچو۔۔۔تم لوگ کچھ دیر کے لیے باہر کھیلو کودو، مگر ادھر گھر سے زیادہ دور نہیں جانا۔۔۔ٹھیک! گھر کے پاس رہنا۔۔۔‘‘چا چا نے بڑے پیار سے بچوں کو ہدایات دیں۔
’’چا چا ہمیں فٹ بال کھیلنا ہے۔۔۔اسے لے جائیں؟’’بچوں نے کٹے ہوئے تازہ تازہ سر کی طرف اشارہ کیا جو اُس مہرے پر تھا۔ جس پر جڑی دو حیراں آنکھیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو مستقل گھورے چلی جا رہی تھیں جن سے کروڑوں سلگتے ہوئے سوال ابل ابل کر کیڑے مکوڑوں کی طرح باہر کو نکلتے ادھر اُدھربھاگتے نظر آتے تھے۔’’کیوں کیوں کیوں؟‘‘ کی صدائیں بنجر پہاڑوں سے ٹکر ا ٹکرا کر ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ آنکھوں کو کوئی جواب نہ مل رہا تھا ۔ آنکھیں لا جواب ہوتی چلی جا رہی تھیں۔
بچے کا فی دیر فٹ بال سے کھیلتے رہے۔ پھر تھک گئے۔۔۔پہاڑوں میں اوپر نیچے بھا گتے بھاگتے ان کے کپڑے جوتے میلے ہو گئے جن پر اب کہیں کہیں خون بھی لگا نظر آرہا تھا مگر خون بھی تو محض ایک رنگ ہی تھا۔۔۔ کبھی کبھی یہ سر خ سے سفید بھی ہو جاتا ہے۔

ُُ’’بچو۔۔۔صفائی نصف ایمان ہے۔۔۔آپ لو گ اب نہائیں۔۔۔پاک صاف ہوں اور پھر نماز پڑھ کر سونے سے پہلے ذکر الٰہی کا ورد کرنے کی تیا ری کریں۔‘‘ ایک اور نگران نے بچوں کو اگلی ہدایا ت جاری کیں اور خود مصلّٰی بچھا کر تسبیح ہا تھ میں تھا م لی۔
بچے نہا دھو کر صا ف ستھرے ہو گئے اور نماز کی تیاری شروع کر دی۔ کمانڈر سکندر نے غور کیا دس سالہ مجاہد شفیع محمد زور زور سے اپنے سر کو کھجا رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بالوں کو بکھیرے دیکھ کر دوسرے بچے زور زور سے قہقے لگا رہے ہیں۔
’’یہ کیا بد تمیزی ہے؟ نماز کے وقت ہنسی ٹھٹھا؟ بالکل منع ہے۔‘‘ چا چا درشتی سے بولا۔
’’چا چا ۔۔۔میرے سر میں بڑے زور سے کھمبل ہو رہی ہے۔۔۔میں کیا کروں!‘‘ شفیع معصومیت سے بولا تو سب مسکرا دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’اچھا لاؤ میں دیکھتا ہوں۔۔۔تمہاری ماؤں والے کام بھی مجھے ہی کرنے پڑتے ہیں‘‘چا چا شفیع کے بالوں کو بغور دیکھا اور سر پر ہلکی سے چپت لگاتے ہوئے بولا۔۔۔’’فکر کی کوئی با ت نہیں۔۔۔بس جوئیں پڑی ہوئی ہیں‘‘اس نے ایک موٹی سی کالی جو ں نکالی اور شفیع کی بڑھی ہوئی ہتھیلی پر رکھ دی۔ شفیع محمد نے بے اختیار اس سیاہ دھبے پر نا خُن رکھ دیا اور تھوڑی ہی دیر میں جو ں کا خاتمہ ہو گیا۔ چا چا کی آنکھوں سے غصے کی چنگاریاں نکلنے لگیں۔
’’یہ کیا کیا تم نے؟ اتنا ظلم ۔۔۔ایک بے بس مجبور ننھی سی جوں کو اتنی بے دردی سے قتل کر دیا۔۔۔عذابِ الہیٰ نازل ہو گا تجھ پر بد بخت۔۔۔ارے یہ جاندار ہے۔۔۔جاندار اور خدا کی مخلوق۔۔۔فوراً تو بہ کرو۔۔۔‘‘چاچا نے سب کو کان پکڑوا دیئے۔
’’جنید تم شفیع کے سر سے جوئیں نکالو۔۔۔انہیں رہائی دلواؤ۔۔۔بے چاری بے بس مخلوق اس کے بالوں کے جنگل میں الجھ کر بھٹک رہی ہوں گی۔۔۔رحم کروان پر۔۔۔‘‘چاچا نے جنید کو شفیع کے آگے بیٹھنے کا کہا او ر خود پاس کھڑا ہو کر جائزہ لینے لگا۔
’’یہ لو ڈبیہ۔۔۔ہر جوں اس ڈبیہ میں بند کرتے جاؤ مگر یا د رکھو۔۔۔انہیں مارنا نہیں بڑا گناہ ہو تا ہے۔۔۔‘‘چا چا نے ایک چھوٹی سی ڈبیہ جنید کو تھماتے ہوئے کہا۔
’’جمع کر کے پھر کیا کروں چاچا؟‘‘ جنید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’کرنا کیا ہے بے وقوف؟‘‘ جب ساری جمع ہو جائیں تو انہیں زمین پر چھوڑ دینا تاکہ آزادی سے گھومیں پھریں۔۔۔آخر یہ اللہ کی زمین ہے اور یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔۔۔جینے کا حق تو انہیں بھی ہے نا۔۔۔‘‘چاچا نے بڑے پیار سے سمجھایا جنید نے جوئیں نکال نکال کر ننھی سی سفید ڈبیہ بھر نا شروع کر دیں۔ اسے یقین تھا اللہ اسے اب اپنی رحمتوں سے دور نہیں کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply