اجازت۔۔۔۔نیلم احمد بشیر

دونوں میں دوستی ناگزیر تھی۔

دونوں جوان تھے‘ خوبرو تھے ۔ بلاکے ذہین اور ایک سی سوچ رکھنے والے۔ گھنٹوں گپ شپ کرتے ‘ بحثیں کرتے اور فلسفے جھاڑتے رہتے۔ وہ اسے کبھی کبھار چھیڑ کر ’’ فلسفیہ‘‘ بھی کہہ ڈالتا تھا جس پر وہ پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جایا کرتی تھی۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کی ذات سے خوف نہیں محسوس کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کو جگہ دیتے تھے ‘ محسوس کرتے تھے ‘سانس لینے دیتے تھے اور ایک دوسرے کو انجوائے کرتے تھے۔وہ آج کی نوجوان نسل کے دو نمائندے تھے۔

چائینز ریستوران میں چکن کارن سوپ کے دو پیالے ان کے سامنے رکھے تھے۔ لڑکی گرم گرم سوپ میں سرکہ اور ہری مرچیں ملانے لگی۔

’’ تم نے غور کیا کبھی ؟‘‘ لڑکے نے سوپ کے پیالے سے اٹھتے دھوئیں کی اوٹ سے لڑکی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ کیا ؟‘‘ لڑکی نے سوپ پینا شروع کردیا۔

’’ ہماری بہت سی عادتیں اور خیالات ملتے ہیں ۔‘‘

’’ شاید ہم پچھلے جنم میں ہمسائے رہے ہوں ۔‘‘لڑکی نے مذاق کیا۔

’’ہاں پچھلے جنم میں ہم یقیناً ہم۔سایہ رہے ہوں گے۔‘‘ لڑکے نے ذومعنی انداز میں فقرہ اس کی طرف اچھال دیا۔

’’ ارے !‘‘لڑکی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ وہ اس کی لفظوں کو توڑ مروڑ کر نئے معنی پہنا دینے کی قابلیت سے بہت متاثر ہوئی تھی کیونکہ وہ اکثر ایسے ہی کیا کرتا تھا۔

’’ کمال کرتے ہو تم‘ ہمسائے یعنی جو ادھار چیزیں مانگاکرتے ہیں ۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

’’ ہاں ۔ ہم ۔سایہ۔ جن کا قدم ملا کر ساتھ ساتھ چلناہوتا ہے ۔آئی ایگری۔‘‘

لڑکی شرمانے لگی۔ حالانکہ وہ ہر گز شرمیلی نہیں تھی‘ بہت پر اعتماد تھی۔ صاف صاف کھل کر بات کیا کرتی تھی‘ روایات سے بغاوت کرنا چاہتی تھی۔

’’یہ تم مجھے ایسی لال لال آنکھوں سے کیوں دیکھ رہے ہو۔ ہٹاؤاپنی یہ آنکھیں‘ مجھے نروس کررہی ہیں ۔‘‘ اس نے لڑکے کو ڈانٹا۔

وہ خاموش بیٹھا مسکراتا رہا۔ اسے دیکھتا رہا ۔ اس کا سوپ اس کے سامنے پڑا ٹھنڈا ہوتا رہا۔

’’ ارے کہیں تم مجھ پہ عاشق تو نہیں ہوتے جارہے ؟‘‘ لڑکی شوخی سے بولی۔

’’ ہاں۔‘‘ لڑکے نے بڑے آرام سے جواب دیا اور اس کے متحیر چہرے سے نظریں نہ ہٹانے کا فیصلہ قائم رکھا۔ اس نے جس طریقے سے ’’ ہاں ‘‘ کہا تھا۔ اس گھمبیرتا کا احساس اسے فوراً ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی پرسکو ن جھیل کے کنارے بیٹھے ہوں اور ’’ ہاں‘‘ کا ایک بڑا سا کنکر گرداب بنا کر غائب ہوگیا ہو۔ ریستوران کی دیواریں’’ ہاں۔ہاں‘‘ سن کر ایک دوسرے سے مزید لپٹ گئیں۔ کنکر جھیل کی تہہ میں چھپ کر بیٹھ گیا‘ ہاں سینے میں کھب کر رہ گئی۔

’’ نہیں۔نہیں۔ یہ غلط ہے۔ یہ کام نہیں ہوگا۔ یہ عشق و شق بیچ میں کہاں سے آگیا۔ مجھے تمہاری دوستی بہت عزیز ہے۔ میں اس کی بَلی نہیں چڑھاسکتی۔ تم مجھے بہت عزیز ہو ۔‘‘ وہ تقریر کرنے لگی۔ اسے تقریر کرنے کی بہت عادت تھی۔

’’ تم جو چاہتی ہو کرو۔مجھے‘کیا‘ تم نہ کرو عشق۔میں تم سے کرتا ہوں‘یہ میرا مسئلہ ہے۔‘‘

یار فریدا اودیاں او جانے

سانوں اپنی توڑ نبھاون دے

لڑکے نے یوں تحمل سے بات کی جیسے وہ دونوں کورس کے نوٹس کا تبادلہ کررہے ہوں ’’ لیکن پھر کیسے کام چلے گا؟کیا ہوگا۔ بڑی مصیبت ہوجائے گی بھئی کیونکہ مجھے اپنا پتہ ہے نا۔ جواباًمجھے بھی محبت ہوجائے گی۔ میں اس اولڈ فیشن آؤٹ ڈیٹڈ جذبے کا روگ نہیں پال سکتی۔مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ؟‘‘ لڑکی رو ہانسی ہو کر بولی۔

’’ دیکھو روپ ۔ گھبراؤمت۔ قدرت کے راستے میں مت آؤ۔ جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ تم جو مرضی کرو۔ جو اوپر ماسٹر پلانر بیٹھا ہے نا اس کی مرضی ہے تو ہماری مرضیاں نہیں چلیں گی۔‘‘

’’ ارے اس نے تو پیار سے مجھے روپ کہہ ڈالا ۔‘‘ روبی دل ہی دل میں ڈرگئی۔’’ یہ تو سچ مچ مجھ سے محبت کرنے لگا ہے۔ اب کیا ہوگا؟‘‘

’’ میرا ایک مسئلہ ہے رضی۔‘‘ وہ خود اپنے انداز تخاطب پہ حیران ہوگئی کیونکہ اس نے آج پہلی بار رضا کو پیار سے رضی کہہ ڈالا تھا۔

’’ دیکھا یہ میرا مسئلہ ہے۔ اس بات سے میں ڈرتی ہوں‘‘

’’ کیا ہوا‘ کس بات سے؟‘‘

’’ میرا جذبہ بہت شدید ہوتا ہے ۔ ایک بار پہلے بھی مجھے عشق ہوا تھا۔ میں تو ہیڈ اوورہیلز بیوقوفانہ عشق میں گرفتار ہوجاتی ہوں ۔ نکمی بے کار‘ فضول پاگل‘ احمقPossessiveاور نہ جانے کیاکیا بن جاتی ہوں۔ میں اپنے آپ سے ڈرتی ہوں ۔ مجھے جب محبت ہوتی ہے تو میں اس پہ نہیں بلکہ یہ مجھ پہ غلبہ پالیتی ہے۔ مجھے اپنے میں ضم کرلیتی ہے ۔ میں کسی کے آگے اور کسی جذبے کے آگے کمزور نہیں پڑنا چاہتی‘ جھکنا نہیں چاہتی ‘ محکوم نہیں بننا چاہتی لیکن محبت مجھے مفلوج کردیتی ہے ۔‘‘ روبی کی تقریر جاری تھی۔

رضا نے روبی کی خوبصورت نیل پالش سے سجی چھوٹی انگلی کو ٹیبل کے نیچے سے ہاتھ لگا کر چھولیا۔ وہ دم بخود رہ گئی‘ سن ہوگئی‘ خاموش ہوگئی‘ اسے اچھا لگا تھا‘ یہ نیا سا جذبہ پسند آیا تھا۔

اب دونوں میں محبت ناگزیر تھی۔

دونوں محبت کی پھوار میں بھیگتے رہتے۔ زیادہ تر وقت ساتھ گزارتے تھے۔ ہنستے کھیلتے‘ سیریں کرتے خوش خوش رہتے تھے۔ اکثر لڑ بھی پڑتے تھے مگر رضا ہمیشہ ہی روبی کومنا لیتا اور وہ من جانے کے لیے ہمیشہ تیار ملتی۔ روبی کو اپنی پیش گوئی درست ثابت ہوتی نظر آرہی تھی۔ وہ رضا کی ذات میں گم ہوتی جارہی تھی۔ اسے اور کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔

اس کے کئی کام ادھورے رہنے لگے تھے ۔ وہ کئی قسم کے سوشل ورک اور عورتوں کے حقوق کی تنظیموں کی رکن تھی۔ بہت سرگرم ممبر تھی مگر اب اس سے اپنے کالج کی اسائنمنٹس ہی بمشکل ختم کی جاتی تھیں ۔ راتوں کو نیند بھی مشکل سے ہی آتی تھی۔ بڑی مصیبت ہوگئی تھی اور اس مصیبت سے وہ ڈرتی تھی۔

کبھی سوچتی۔

نہ جانے وہ اس وقت کیا کررہا ہوگا۔ شاید کلاس اٹینڈ کررہا ہو یا شاید کسی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے چلاگیاہو۔ شاید اس وقت سو رہا ہو یا شاید جاگ چکاہو۔ ہوسکتا ہے بارش کے پہلے قطروں میں بھیگنے کے لیے گھر سے باہر کی سڑک پہ چلتا جارہا ہو ۔ روبی کو بارش دیوانہ بنا دیا کرتی تھی اور رضا کو بھی بارش سے عشق تھا۔

شام گہری ہوچکی تھی۔

وہ دونوں کالج میں ایک ڈرامہ کررہے تھے۔ بریک ملی تو لان میں ایک بنچ پربیٹھ گئے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ سی محسوس ہورہی تھی۔ دونوں قریب قریب ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔ روبی نے رضا کے ہاتھ حسب عادت اپنے ہاتھوں میں لے رکھے تھے‘ اسے ہاتھ پکڑنا بہت اچھا لگتا تھا۔ چودھویں پندرہویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا لیکن اس کے آگے ایک بہت بڑے سے ننگے درخت نے ہاتھ پھیلا رکھے تھے۔ جیسے چاند سے کچھ حسن بھیک لینا چاہتا ہو۔ ماحول کے جادو میں وہ دونوں نہائے چلے جارہے تھے۔

رضا نے حسب عادت جیب سے جوس کے دو چھوٹے چھوٹے ڈبے نکالے ۔ روبی کا پسندیدہ ذائقہ پائن کول تھا اور وہ وہی لایا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ دونوں کے پینے کے لیے دو ڈبے لایا کرتا تھا لیکن وہ پیتے ایک ہی ڈبے اور ایک ہی سٹرا سے تھے ۔ پہلے ایک ڈبہ باری باری چسکیاں لے کر ختم کرتے پھر دوسرا۔ یہ بھی ان کی ذاتی تخلیق کردہ روایات میں سے ایک روایت تھی۔ جب سے ان کے درمیان محبت کا تناور جذبہ اور رشتہ قائم ہوا تھا انہوں نے ایک ہی پلیٹ میں سے کھایا اور ہمیشہ ایک گلاس میں سے ہی پیا تھا۔

یہ بات دونوں کو بہت اچھی لگتی تھی۔

’’ روپ سردی لگ رہی ہے۔‘‘ رضا نے پیار سے سرگوشی کی۔

روبی نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑلیا جیسے کبھی نہ چھوڑنے کا ارادہ ہو۔

’’ روپ۔ ہم دوست ہیں نا۔ ہم ہر بات ایک دوسرے سے کھل کر کرسکتے ہیں نا؟‘‘

رضا نے روبی کی کمر میں ہاتھ ڈال دیئے۔

’’ ہاں۔‘‘ روبی گم صم سی بیٹھی تھی۔

’’تمہیں مجھ پہ ۔ میری محبت پہ اعتماد ہے نا۔ یہ پتہ ہے ناکہ میں صرف تمہیں چاہتا ہوں‘ پچھلی ساری دوستیاں‘ چاہتیں میں نے تمہارے لیے چھوڑ دی ہیں ۔ ہیں نا؟ پتہ ہے نا؟‘‘

’’ دوستیاں یا دوستنیاں ؟‘‘ روبی نے اسے گدگدایا۔

’’ ہاں ہاں دوستنیاں ۔ مانتا ہوں کہ میری تھیں لیکن وہ تو جہالت کا زمانہ تھا۔ روپ چند مہاراج ۔ اب تو ہم صرف آپ کے ہیں سرکار اور آپ ہمارے۔‘‘

’’ وہ تو ہم ہیں۔ تمہیں اچھی طرح پتہ ہے جاناں! کیا شک ہے کسی قسم کا؟‘‘

’’ اگر کہتے ہو تو چیخ چیخ کر اعلان کردوں کے مجھے رضی احمد سے عشق ہے۔ لوگو سن سو‘ درختوں ‘ چڑیو‘ کوؤ۔‘‘ روبی اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور ہنس ہنس کر سرگوشیوں میں جھوٹ موٹ اعلان کرنے لگی۔

’’ تم بالکل جھلی ہو‘ بیٹھو اِدھر ۔ تمہاری انہی اداؤں پہ تو ہم مرتے ہیں ظالم۔‘‘ اب رضی بھی شوخ ہو چلا تھا۔

’’ اچھا دیکھو سنجیدہ ہو جاؤ پل بھر کے لیے ۔ میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘

’’کرو۔‘‘

’’ہم دونوں بالغ ہیں نا۔ذہین ہیں‘ سمجھدار ہیں ۔ اپنا اچھا برا خود سوچ سکتے ہیں۔ اپنے فیصلے خود کرنے کے مختار ہیں ‘ جدید سوچ رکھتے ہیں نا۔ فرسودہ خیالات کے حامی تو نہیں ؟‘‘ رضی کچھ پوچھنے لگا۔

’’ نہیں تو۔‘‘ روبی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سرہلایا۔

’’ تو پھر؟‘‘

’’ پھر کیا؟‘‘

’’ سمجھو نا۔ میں تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ رضا نے اس سے اس لہجے میں کبھی بات نہیں کی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک نیا جذبہ نظر آرہا تھا۔شراب سی چھلک رہی تھی۔

’’ میں چاہتا ہوں ‘ ہم میں کوئی فاصلہ بھی نہ رہے۔‘‘

روپ  خود بخود رضی سے چمٹ گئی۔ ہاتھ گیلے گیلے ہونے لگے۔ یکدم بجلی کا کوندا سا لپکا۔ روبی ایک جھٹکے سے اس سے علیحدہ ہوگئی۔

’’ نہیں نہیں جاناں ‘ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’ کیوں ؟ کیوں نہیں ؟ کیا تم اس کی اہمیت سے انکار کرسکتی ہو؟

کہو کیا کنول کے بغیر تالاب خوبصورت رہ سکتا ہے؟‘‘ بھوکا شیر بپھرگیا تھا۔

’’ اچھا اچھا چپ ہوجاؤ۔ اس مسئلے پہ آرام سے بیٹھ کر سوچ بچار کرلیتے ہیں ۔ کام ڈاؤن پلیز ۔ لاجک استعمال کرتے ہیں ۔ ہر مسئلہ کا حل دنیا میں موجود ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پہ غور کرتے ہیں۔‘‘

’’ بکواس بند کرو روپ۔ہر وقت استانی بنی تجزیئے کرتی رہتی ہو۔‘‘

وہ مٹی کی طرح بھر بھری ہو کر جھڑنے ہی والی تھی کہ اس نے اپنا پرس کھولا اور اپنا ہیئر برش نکال کر اپنے بال سنوارنے شروع کردیئے۔ وہ اپنی گھبراہٹ اسی طرح دور کیا کرتی تھی۔

’’دیکھو رضی ٹین ایجرز جیسی بات مت کرو۔ مجھے پتہ ہے کہ تم ایک جوان مرد ہو اور تمہاری کچھ ضرورتیں ہیں مگر میں ان کو پورا نہیں کرسکتی۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ مجھ سے پہلے تمہارے کچھ لڑکیوں سے تعلقات تھے اور تم نے میری وجہ سے ان سب کو چھوڑ رکھا ہے مگر میں نے تو تمہیں ایسا کرنے پہ کبھی مجبور نہیں کیا نا؟سوری یہ تمہارا پرابلم ہے ‘ میرا نہیں ۔ تمہاری چوائس ہے ۔ میں اس بات کو سراہتی ضرور ہوں مگر اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ میں اس تعلق کے لیے تیار نہیں کیونکہ میں اس کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتی ۔‘‘ روبی نے اچھی تقریر کرکے اپنی طرف سے اسے قائل کردیا تھا مگر وہ بھی جوابی حملہ کررہا تھا۔’’ تم صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ تم اندر سے وہی ڈرپوک‘ روایتی مشرقی لڑکی ہو جو ہر وقت سہمی رہتی ہے جو معاشرے ‘ مذہب‘ روایات کی مضبوط زنجیریں نہیں توڑ سکتی ۔ جو جتنی مرضی ڈگریاں لے لے۔ آزادی کے گیت گا لے محکوم اور مظلوم ہی رہتی ہے کیونکہ وہ اسی میں تحفظ محسوس کرتی ہے۔ اپنے جذبات کو جھٹلانا‘ انسانی محسوسات ‘ خواہشات کو دبانا کہاں کا انصاف ہے۔ تم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہی ہو ۔ تم خود بھی یہی چاہتی ہو لیکن تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔‘‘

رضی نے مصنوعی غصے سے ہاتھ چھڑاناچاہالیکن روبی نے اتنے زور سے ہاتھ پکڑتی تھی کہ چھڑانا مشکل ہوجاتا تھا۔

’’ آخر وجہ کیا ہے انکار کی؟‘‘ رضا جواب لینے پہ تلاہوا تھا۔

’’ وجہ!‘‘ روبی سٹپٹا گئی۔‘‘’’ ہاں وجہ بس جو بھی کچھ ہو۔ دراصل میرے نزدیک اصل محبت آپس کی شیئرنگ ‘ ذہنی تعلق اور کمیونی کیشن ہے۔ قربت ایک کھیل نہیں بلکہ گہری کمٹ منٹ ہے۔ دل لگی نہیں دو دلوں کے درمیان کاپل صراط ہے۔ میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتی مگر شادی کے بغیر۔۔۔‘‘

روبی کی آدھی بات نے اس کے لبوں پہ ہی دم توڑ دیا۔

’’ شادی ! یہ شادی بیچ میں کہاں سے آگئی۔ ہم نے تو کبھی شادی وادی کو ڈسکس نہیں کیا۔ شادی تو دو انسانوں کے میل کا نہیں بلکہ وہ انسانوں کے خوابوں کے آپس میں ٹکراؤ کا نام ہے ۔‘‘ رضی بھی کھل کر ہی بات کررہا تھا۔

’’ میں جانتی ہوں ‘ مجھے پتہ ہے ۔ میں خود شادی جیسے بوسیدہ انسٹی ٹیوشن کو مسترد کرتی ہوں۔ جو عورت کو غلام اور مرد کو حاکم بنا ڈالتا ہے ۔ مجھے اپنے لیے‘ اپنے والدین کے لیے پوری وومن کائنڈ کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا ہے۔ ابھی اپنی سیلف ورتھ کو ثابت کرنا ہے۔ میں خود شادی وادی کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتی جناب۔’’ اینڈ آف روبی خان‘‘ نہیں ہونے دوں گی۔‘‘

وہ پھر تقریر شروع کرچکی تھی۔

’’ اچھا دیکھو ایک کام کرتے ہیں ۔‘‘ اس نے پیار سے رضا کے گھنگریالے بالوں کا ماتھے پہ آیا ہواچھلّا ہٹاتے ہوئے کہا۔

’’ چونکہ میں تمہاری دوست ہوں اور مجھے تم سے شدید پیار ہے۔ اس لیے تمہارا خیال بھی تو مجھی کو رکھنا ہے۔ ایک سمجھوتہ کرلیتے ہیں ۔ محبت ہم آپس میں ہی کریں گے۔ عشق تم مجھ  سے ہی کرو گے لیکن اپنی وہ ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسری لڑکی سے۔۔۔ لیکن صرف ایک شرط پہ کہ اس میں کسی جذباتی وابستگی کا دخل نہیں ہوگا۔‘‘ روبی نے فیصلہ سنادیا۔

’’ لو۔ یہ کیا بات ہوئی۔‘‘ رضا کسی چھوٹے بچے کی طرح پھسپھسانے ‘ منہ بسورنے لگا۔’’ یہ مجھے سے نہیں ہوگا۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟ میں کیسے کروں۔ محبت کسی سے اور۔۔۔‘‘

’’ میرا جواب نفی میں ہے۔ کتنے الو ہو تم ۔ میری اس سنہری آفر کا فائدہ نہیں اٹھارہے۔ ارے بے وقوف اتنی انڈرسٹینڈنگ لڑکی تمہیں کہاں ملے گی؟‘‘

رضی روبی کو بہت دن اپنے مطلب کی بات منوانے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دونوں کے فائنل نزدیک تھے‘اس لیے بات آئی گئی ہوگئی۔ روبی کو اپنے دل میں سو فیصد یقین تھا کہ رضا اس کے پیار کی رسیاں نہیں تڑوا سکتا۔ اس کے پیار کے میٹھے گاڑھے شیرے کی دلدل میں ڈوبتا ہی چلا جائے گا۔ ہاتھ پاؤں نہیں مارے گا‘ کسی کے نزدیک نہیں جائے گا۔ اسے رضی پہ بہت اعتماد تھا۔ اتنا ہی جتنا اپنے اوپر۔ وہ محبت میں رومانویت کے مزے لوٹنا چاہتی تھی ‘ جسم سے اسے لاگ نہ تھی۔ وہ رات کو سوتے وقت رضا کو جسمانی طور پر ساتھ نہ پاکر بھی خوشی خوشی سوجایا کرتی تھی کیونکہ وہ اسے خوابوں میں جو مل جایا کرتا تھا ۔ وہ صبح اٹھ کر ٹیلی فون پہ رضی کو اپنے خواب سناتی اور بدلے میں اس کے خواب سنا کرتی ۔ پھر کہتی’’ آؤ ہم اپنے خوابوں کو جمع کرلیں اور ان کا ایک ملا جلا خواب بنائیں۔ ریشمی ‘ سلکی ‘ شبنمی خواب شیشے کی ایک ٹرانسپیرنٹ بوتل میں جمع کرلیں اور اس پہ ہینڈل وِد کیئر کا لیبل لگا کر شیلف پہ سجا کر دیکھا کریں ‘ محظوظ ہوا کریں۔‘‘

’’ اور اگر وہ بوتل کسی دن ہاتھ سے پھسل گئی تو وہ خواب تتلیاں بن کر صابن کے چمکیلے رنگ دار بلبلوں کی مانند اڑ جائیں گے۔‘‘ وہ چھیڑتا۔

’’ تو ہم نئے خواب دیکھنے کی از سر نو ابتداء کردیں گے۔‘‘ وہ پُر یقین ہو کر کہتی۔

رضا اپنے دوست شکیل کے آفس اس سے ملنے گیا تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس کی ایک پرانی جاننے والی لڑکی زبیدہ فائلیں اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جارہی تھی۔وہ شاید وہاں کوئی سیکرٹری وغیرہ کی نوکری کررہی تھی۔ ایک زمانے میں زبیدہ سے رضی کے گہرے مراسم رہ چکے تھے۔ پھر سننے میں آیا کہ وہ شادی کروا کر کراچی چلی گئی ہے اور ان کا پھر کبھی دوبارہ رابطہ نہ ہوا۔

’’ زبیدہ تم‘ یہاں اس دفتر میں کیسے؟‘‘ رضا نے اس سے ہیلو کرنے کے بعد پوچھا۔

’’ میں بس دوبارہ اپنے شہر واپس آگئی ہوں ۔ گھریلو حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ مجھے نوکری کرنا‘ اپنا پیٹ پالنا لازم ہوگیا تھا۔‘‘

’’ اچھا بھئی بہت خوشی ہوئی تم سے مل کر۔ اگر کبھی فارغ ہو تو ملنے آؤ گھر پر۔‘‘ رضا نے ہوا میں تیر چلایا۔

’’میں تو ابھی پانچ منٹ میں فارغ ہونے والی ہی تھی‘ چلیں چلتے ہیں۔‘‘ وہ بھی شاید تنہائی کا شکار تھی۔ رضا کو اس کے ساتھ اپنا پرانا تعلق یاد آگیا اور پھر روبی کی پیش کردہ آفر اور خوشدلی سے دی ہوئی اجازت بھی۔

گھر پہنچتے ہی زبیدہ نے اپنے جانے پہچانے کمرے کا رخ کیا اور دوپٹہ اتار پھینکا۔ گرمی بہت محسوس ہورہی تھی۔ اس لیے فوراً پنکھا چلایا اور خود بستر پر ڈھیر ہوگئی۔

رضا نے فریج  میں سے جوس کے دو چھوٹے چھوٹے ڈبے نکالے ۔ ایک زبیدہ کو تھمادیا‘ دوسرا خود پینے لگا۔

زبیدہ اپنی شادی کی ناکامی کی دکھ بھری داستان رضا کو سنانے اور سسرال والوں کے کیے گئے مظالم کو رونا رونے لگی ۔ وہ بول رہی تھی مگر رضا کے کان سن نہیں رہے تھے۔ اسے اپنے کمروں کے جھروکوں سے روبی کی دو بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں دو بھوری بلیوں کی طرح تاک جھانک کرتی نظر آرہی تھیں ۔ اس کا بھرا بھرا جسم جسے اس نے صرف محسوس کیا تھا‘ دیکھا نہیں تھا‘ نظر آنے لگا تھا وہ اس کی پتلی پتلی مخروطی انگلیوں کا لمس اپنے ہاتھوں پہ محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کبھی کبھار بڑی بوڑھیوں جیسی سیانی باتیں کرنا اور کبھی بچوں کی طرح روٹھ جانا یاد آنے لگا ۔اُسے وہ اپنے ارد گرد ایک ہالے کی طرح چھائی نظر آنے لگی۔ وہ اس ہالے کو توڑنے کی سکت سے محروم تھا۔ وہ ایک انجانے سحر میں لپٹا خود کو بے بس سا محسوس کررہا تھا۔

زبیدہ خاموش ہوچکی تھی اور رضا کو پتہ بھی نہیں چل سکا تھا۔ اس نے اپنے ڈبے سے جوس ختم کرلیا تھا اور رضا کی طرف طالب اور سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

’’چلو تمہیں گھر چھوڑآؤں۔‘‘ رضا نے کرسی سے اٹھتے ہوئے یکلخت فیصلہ کرلیا۔حیران حیران سی زبیدہ نے بستر سے اٹھ کر دوپٹہ اپنے اوپر ڈال لیا۔

روبی کو ڈھونڈنا چنداں مشکل نہ تھا۔ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں اپنے مخصوص گوشے میں کتابوں میں چھپی بیٹھی تھی۔ فائنل میں بہت تھوڑا ٹائم رہ گیا تھا۔ رضا اسے بتانے کے لیے بے تاب تھا کہ اس نے کتنے ضبط کامظاہر کیا تھا۔

وہ اسے یہ بھی بتادینا چاہتا تھا کہ اسے اب یقین ہوگیا ہے کہ وہ روپ کے ساتھ ہی اپنا ہر تعلق‘ ہر بندھن‘ ہر رشتہ قائم کر سکتا ہے ‘ کسی اور سے نہیں ۔ دل ہی دل میں وہ ایک لمبا بیان تیار کرچکا تھا۔

میں اسے کہوں گا ’’ کہ میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘

’’ اگر شادی بھی کرنی پڑی تو اسے بھی ڈسکس کرلیں گے۔ میں محبت اور قرب کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر اپنے جذبات سے کھیل نہیں سکتا۔ میرے نزدیک محبت کی تکمیل کا ایک روپ قربت ہے۔

تم ہی میرے دل ‘ جسم اور ذہن پہ حق جتا سکتی ہو اور کوئی دوسرا اس کا حقدار نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’ ارے جانو تم اس وقت‘‘ روبی نے اسے کھڑے دیکھ کر کرسی آفرکر دی۔

’’ پڑھائی کیوں نہیں کررہے؟ آپ کا پہلا پرچہ پرسوں ہے‘ کچھ ہوش نہیں ہے آپ کو اچھا ادھر لاؤ اپنا ہاتھ ٹھنڈا ہورہا ہوگا۔‘‘ اس نے حسب عادل خوشدلی سے رضا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر سہلانا شروع کردیا۔ پھر دھیرے دھیرے اسے اپنے لبوں سے چھو کر شرارت سے مسکرادی۔

’’ کیا ہوا؟ ایسے کیوں گھوررہے ہو؟ تمہیں پتہ ہے تمہاری آنکھیں مجھے نروس کردیتی ہیں۔‘‘ وہ بھولپن سے بولی۔

’’ روپ تم نے کہا تھا نا۔۔۔ تم ہی نے تو اجازت دی تھی نا۔۔۔۔‘‘

رضا کچھ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے۔

’’ اوہ مائی گاڈ!‘‘ روبی کے دل پہ ایک گھونسا لگا۔ لائبریری کی شیلفوں کی تمام کتابیں شور کرتی دھڑا دھڑ سے نیچے آن گریں۔

آج یہ خبیث انسان اپنی ہوس پوری کر آیا ہے اور مجھ سے شاباش مانگ رہا ہے یا شاید اپنا احساس جرم چھپانے کے لیے کسی سڑی ہوئی ایمانداری کا ڈھونگ رچانے لگا ہے۔ روبی کا ہاتھ رضا کے ہاتھ میں سرد اور بے جان ہوگیا۔ اس نے ہاتھ کھینچے بغیر سرسری انداز میں بغیر کسی ردعمل کے پوچھا’’ اوہ توپھر کیسا رہا تجربہ؟‘‘ جیسے پوچھ رہی ہوتمہیں اس نئی فائنڈنگ سے اختلاف ہے یا تم بھی سچ مچ مانتے ہو کہ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹوٹی جس نے فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا‘ اس اکیلے کی برین چائلڈ نہیں بلکہ اس کی بیوی کی اور اس کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا اور اس نے دانستہ طور پر اپنی بیوی کا نام نہ لے  کر اسے جائز کریڈٹ سے محروم رکھا تھا؟‘‘

’’ سنو تو تمہیں یقین نہیں آئے گا۔‘‘ رضا بہت ایکسائیٹڈ تھا۔

’’ سنا دو یا نہ سناؤ‘‘ تمہاری مرضی ہے ۔ کوئی مجبوری نہیں۔‘‘ روبی نے کندھے اچکائے۔

’’ میں اسے اپنے گھر لے گیا۔ باتیں واتیں کرتے رہے‘ گرمی بہت لگ رہی تھی۔ میں نے سوچا پہلے کچھ ٹھنڈا وغیرہ ہونا چاہیے ۔ بوتلیں تو اب کون لاتا باہر سے ۔ فریج میں سے جوس ہی نکال کر پلا دیا اسے۔‘‘

’’کیا کہا؟‘‘ روبی اس کی تفصیلات سنتے سنتے بات کاٹ کر بولی۔

’’ تم نے اسے جوس پلایا؟‘‘

’’ ہاں ۔ کچھ تو پلانا تھا بھئی ‘ آخر مہمان تھی۔ ویسے بھی ہم دونوں کو ہی پیاس لگ رہی تھی ۔ کیوں کیا ہوا؟‘‘

کتنے ڈبے تھے جوس کے ؟‘‘ روبی نے آرام سے پوچھا۔

’’ دو ۔‘‘

’’ اور کتنے سڑا تھے؟‘‘

’’دو بھئی۔ یہ کیابکواس ہے؟‘‘

’’ تم دونوں نے کس طرح جوس پیا؟‘‘

’’کس طرح پیا؟ جس طرح پیتے ہیں اور کیا؟‘‘ رضا غصہ کھا گیا۔

’’کیا فضول باتیں کررہی ہو‘ جوس کا اس قصے سے کیا تعلق ہے؟ عجب پاگل لڑکی ہو۔ یہ نہیں پوچھتی کہ ہم نے ۔۔۔جاننا نہیں چاہتیں کہ کیا ہوا؟‘‘

’’ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کیا ہوا؟‘‘ روبی بھی غصے میں آگئی۔

’’اچھا۔ کوئی غرض نہیں۔ تو سن لو جوس ہم نے ایک ہی ڈبے اور ایک ہی سٹرا سے پیا تھا۔ بس یہی جاننا چاہتی تھی نا تم؟‘‘ رضا نے سڑ کر خوا ہ مخواہ ہی جھوٹ بول دیا۔ وہ اس کے لیے اتنی بڑی قربانی دے کر آیا تھا اور اس جھلی لڑکی کو جوس کی پڑی ہوئی تھی۔

روبی چھما چھم رونے لگی۔ ہچکیا ں لیتے بولی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’ میں نے تمہیں کسی اور بات کی اجازت دی تھی ۔ انٹی میسی Intimacy کی تو نہیں۔‘‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply