غالب کی نظم اور مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی کا ای میل مکتوب(حصّہ اوّل)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نظم
شب خمار ِ شوق ِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیط ِ بادہ صورت خانہ ٗ خمیازہ تھا
(غالب)

ستیہ پال آنند

بندہ پرور، پرسش ِ احوال ہے، بے جا ، مگر
اہم کیوں ہے رات کا احوال نامہ ، صبحدم؟
صبح تو ہنگام ہے حمد و دعا، تمجید کا
رات میخانے میں گذری، اس کا َقصہ کیوں بھلا؟
’’شوق ساقی‘‘ ، ’’بادہ صورت‘‘ جیسے یہ الفاظ تو
صبحدم سننا بھی کانوں کے لیے مقطوع ہے

مرزا غالب
عمر بھر تو رات کے قصے ہی سنتے آئے ہیں
اب بھلا روداد دن کی کیا سنائے گا کوئی

ستیہ پال آنند
جانتا ہوں، فارسی سے آج کی اردو تلک
ر ات کی ہی داستانیں ہیں ، گئی گذری یہاں
دن کا کوئی کاروبار ِ زیست ہے عنقا، حضور
شعر ِ حاضر بھی اسی بدعت کا مظہر ہے، مگر
یہ کہولت یا حداثت آپ کے شایاں نہیں

مرزا غالب
یہ سخن گوئی کی رسم و راہ ہے، طور و طریق
آج تک جاری و ساری نہج ہے، طور و طریق
اس سے غیر آمادگی ، برگشتگی ، سُنت نہیں
میں بھلا کیوں اس الِف سے دست کش ہونے لگا؟

ستیہ پال آنند
میں ہی ،استاذی، ہوا جاتا ہوں اس سے دست کش
یہ بتائیں، ’’شوق ِ ِ ساقی ‘‘کے معانی کیا ہیں یاں؟
کیا یہ شوق و ذوقِ ساقی ہےکہ اس کا انتظار؟

مرزا غالب
تم بتاؤ ، مصر ع اولیٰ  کے کیا معنی ہیں یاں؟
دیکھتا ہوں تم نے کیا سمجھا ہے اس میمنت سے

ستیہ پال آنند
پہلے تو الفاظ کا مفہوم دیکھیں غور سے
کیا’’ خمار ِشوق ِ ساقی‘‘ سےطلب ساقی کی ہے؟
جو نشے کے ٹوٹنے میں یاد آیا ہے بہتِ
’’رستخیز اندازہ ‘‘تو ہے حشر کی منظر کشی
ہاتھ اُٹھائے جس میں اُٹھ کر چل پڑ یں گے مرد زن
کیا یہ نظارہ نشے کی ابتری کا ہے گواہ
جس میں بے لطفی ، نقاہت کی ہے اک واضح جھلک؟
میری تو پہلی نظر میں بس یہی بینش ہے یاں
آپ اپنی دید بافی سے مجھے واقف کریں

مرزا غالب
مصرع ِ ثانی پہ اک غائر نظر بھی اہم ہے

ستیہ پال لنند
’’تا محیط ِ بادہ صورت خانہ ٗ خمیازہ تھا‘‘
ہے ’’محیط ِ بادہ‘‘ کیا دریائے مے کا جوش ، یاں؟

اور ’’خمیازہ‘‘ ہے کیا اُٹھ کر کھڑا ہونے کا فعل ؟
گویا مردے اٹھ رہے ہیں حشر کے میدان میں؟

مرزا غالب
تم بتاؤ ، کیا سمجھتے ہو ، عزیزی ستیہ پال؟

ستیہ پال آنند
لفظ ’’مہمل‘‘ ذہن میں میرے ہے کب سے رو بکف
آپ کے غصّے سے، استاذی ،میں ڈرتا ہوں بہت
اس لیے خاموش ہوں ، پنبہ دہن، صامت کھڑا
ورنہ کہہ دیتا کہ اس کوحذف ہی کر دیں ،جناب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکتوب شمس الرحمن فاروقی
14 ستمبر 2019
میں سمجھتا ہوں کہ مربوط مکالمات کی صورت میں تحریر کردہ یہ نظمیں واقعی ایک دلچسپ کوشش ہے۔ البتہ کس حد تک یہ غالب فہمی میں کامیاب تسلیم کی جائے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

اس شعر پر شارحین نے بہت کم لکھا ہے۔ مجھے صرف تین چار باتیں آپ کے گوش گزارکرنا ایک لازمی امر محسوس ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے اہم جملوں پر خوب غور و خوص کیا ہے ، لیکن جہاں بھی وہ الفاظ در آئے ہیں جن سے دو یا تین معانی اخذ کیے جا سکتے ہیں، آپ نے انہیں زیرِ  بحث لانا پسند نہیں کیا۔ “خمار” ایسا ہی ایک لفظ ہے۔ اس کے ایک سے زیادہ معنی ہیں۔ “نشہ” تو عام فہم ہے، لیکن “نشے کا تدارک ، یعنی نشے کے اُترنے کے بعد جو اعضاء  شکنی اور سستی ہوتی ہے اس کو زائل کرنے کے لیے شر اب پینا “خمار” کے ذیل میں آتا ہے۔”صبوحی” ، یعنی صبح جاگنے کے بعد رات کی بچی کھچی ہوئی شراب پینا اسی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح رات کو ساقی کے انتظار کا خمار ، یعنی طلب کی شدت اس قدر تھی کہ ساغر میں انڈیلی ہوئی شراب کے دائرے کی شکل میں  بنا  ہوا   نشان تک انگڑائیوں کا نقشہ پیش کرنے لگ گیا تھا۔ بیخود دہلوی نے لکھا ہے کہ انگڑائی کے وقت دونوں ہاتھ اوپر ایسے ہی اٹھ جاتے ہیں جیسے کہ قیامت میں مردے ہاتھ اٹھائے ہوئے قبروں سے نکلیں گے۔
آپ بخوبی سمجھتے ہیں کہ غالب کی ایک مخصوس ادا اس قسم کی رعایت معنوی کا استعمال ہے۔

چونکہ اس نکتے کو آپ نے اپنی مکالماتی نظم میں زیرِ  بحث لانے سے گریز کیا ہے، اس لیے آپ اس راہ پر آگے نہیں بڑھ سکے۔”شوق ِ ساقی” کو ہی لیں ۔ اس کے معنی “ساقی کی آمد کا انتظار” تو ہے ہی، لیکن “ساقی کا ذوق و شوق” بھی ہو سکتا ہے۔ اب معنی میں وسعت پیدا ہو گئی۔ یعنی extended meaning یہ ہو گا کہ ساقی کے ذوق و شوق ،(جو نشے کی طرح تند و تیز تھا) کے اتار میں قیامت کی تھکن اور بے لطفی کی کیفیت پید ا ہوئی۔ یعنی اس میں بھی وہی سستی اور بے لطفی تھی جو شراب کے نشے کے ٹوٹنے میں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ خمار اس قدر شدید بے لطفی کا حامل تھا کہ ساغر میں جوش کرتی ہوئی شراب بھی جو خط ایاغ تک چھلک رہی تھی، انگڑائی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ایک اور نکتہ جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ،وہ یہ   کہ انگڑائی میں ہاتھوں کا اٹھا نا اور قیامت کے ر وز ہاتھ اٹھانے کا منظر نا مہ کیاخاص معنی پیش کرتا ہے۔ یہ معنی دور از کار تو نہیں لیکن بالکل قریب بھی نہیں ہے۔ صرف ہاتھ اٹھانے کے عمل سے ان کا تعلق ظاہر ہونا اس مطلب کے لیے کافی نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply