• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برما کی فوجی بغاوت اور خون مسلم۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

برما کی فوجی بغاوت اور خون مسلم۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

آنگ سانگ سوچی جنرل اونگ سنگ کی بیٹی ہیں، انہوں برما کی جنگِ آزادی لڑی اور بڑی جدوجہد کے بعد برما کو برطانوی استعمار سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ برطانیہ منتقل ہوگئیں اور 1988ء میں برما واپس لوٹیں، جب برما میں فوجی آمریت عروج پر تھی۔ ان کے آتے ہی بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے، آرمی نے بڑی بے دردی سے برما کی عوام کے مظاہروں کو کچل دیا، اس آپریشن میں ہزاروں لوگوں مارے گئے۔ آنگ سانگ سوچی نے نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی بنیاد رکھی، اس کے چند ماہ بعد ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ 1990ء کے الیکشن ان کی پارٹی نے جیت لیے مگر انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ اس طرح پندرہ سال ہاوس اریسٹ میں گزارے، اسی جدو جہد کی وجہ سے انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ 2012ء میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئیں، 2015ء کے جنرل الیکشن میں ان کی پارٹی جیت گئی، جس کے بعد ملٹری کے ساتھ باقاعدہ شراکت اقتدار کا معاہدہ ہوا۔ ان کے اقتدار کے باوجود سیاسی قیدی اسی طرح جیلوں میں رہے، صحافی تشدد کا شکار ہوئے۔ آنگ سانگ سوچی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ صرف اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کیا۔

یقیناً آپ کو یاد ہوگا کہ 2017ء برما کے روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے نام پر مسلمانوں کی بستوں کو تہس نہس کر دیا گیا، ایسا ظالمانہ فوجی آپریشن کیا گیا، جس کی بربریت کی مثال نہیں ملتی۔ یہ آپریشن اس حوالے سے بھی انسانیت کش تھا کہ اس میں فوج کے ساتھ ساتھ مقامی انتہاء پسندوں نے مسلم آبادیوں پر حملے کیے۔ یہ لوگ مسلمان آبادیوں کو آگ لگاتے اور مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کرتے تھے۔ آج بھی آنکھیں آنسووں سے بھر آتی ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں برما کے مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں بنگلہ دیش میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس بربریت کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مسلمان برما سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم ہیں۔

آنگ سانگ سوچی نے میانمار کی فوجی کارروائی کا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں دفاع کیا تھا اور اس نسل کشی کے مقدمے میں فوج کا ساتھ دیا تھا۔ آج اسی فوج نے ان کو گرفتار کر لیا ہے اور کسی بھی طور پر انہیں حکومت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ فوج دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے، یہ شائد دنیا میں واحد ملک ہوگا، جس کی فوج دھاندلی کا الزام لگا کر منتخب حکومت کا تختہ الٹ رہی ہے۔ دنیا بھر سے آوازیں اٹھی تھیں کہ جس طرح برما کی فوج کے مظالم کو آنگ سانگ سوچی نے دفاع کیا ہے، اس کے بعد یہ نوبل نہیں رہیں، اس لیے ان سے نوبل پرائز کا اعزاز واپس لیا جائے۔ آنگ سانگ سوچی پانچ سال مسلسل حکومت کرتی رہیں، انہوں نے روہنگیا کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح فوج کی خوشامد کرکے اپنے اقتدار کو طول دے سکتی ہیں اور تھوڑا بہت شائد وہ اس میں کامیاب بھی ہوئیں کہ پانچ سال کی ایک مدت ِاقتدار انہوں نے مکمل کر لی۔

انسان کو اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کرنی چاہیئے، کیونکہ اقتدار عارضی و فانی چیز ہے، اقدار انسان کو نہ بھولنے والا بنا دیتی ہیں۔ دنیا آنگ سانگ سوچی کا احترام کرتی تھی، مشرق و مغرب میں ان کے نام کا ڈنکہ فقط ان کی اقدار کی وجہ سے تھا مگر جیسے ہی انہوں نے اپنا ٹریک تبدیل کیا اور اقتدار کے پیچھے بھاگنے لگیں، اقدار کو بھلا دیا، خونِ مسلم ان کے مقابل آگیا اور آج اقتدار چھِن چکا ہے اور وہ پھر سے قید تنہائی کا شکار ہوگئی ہیں۔ ان کے تمام ساتھی بھی گرفتار ہوچکے اور ان کی جماعت آمرانہ جبر کا شکار ہوگئی ہے۔ آنگ سانگ سوچی صاحبہ اگر آپ نے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی ہوتی تو آج آپ کے پاس اقتدار ہوتا یا نہ ہوتا، عزت ضرور ہوتی، جس سے آج آپ محروم ہوچکی ہیں۔ یہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لہو کا انتقام ہے، جو آج آپ قابل رحم حالت میں ہیں۔

روہنگیا کے یہ مظلوم مسلمان آج بھی تنگی کا شکار ہیں۔ انڈیا میں پناہ لی تو وہاں شہریت کا قانون آگیا، جس میں دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ پسے ہوئے طبقے کو شہریت دی جائے گی، مگر انڈیا کی ہندتوا حکومت نے برما کو اس لسٹ میں ہی شامل نہیں کیا، جہاں کے شہریوں کو شہریت دی جائے گی۔ اسی طرح یہ لوگ بنگال میں بھی مسائل کا شکار ہیں اور کیمپوں میں محرومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک بات یہ بھی کی جا رہی ہے کہ یہ انٹرنیشنل گیم کا حصہ ہے، چین بڑی تیزی سے برما کے ذریعے خلیج بنگال تک ایک تجارتی راہداری تعمیر کر رہا ہے۔ اس راہ داری میں رخنہ ڈالنے کے لیے برما کے حالات اس طرف لے جائے جا رہے ہیں کہ افرا تفری ہو اور چائنہ اسے مکمل نہ کرسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ جان کر شائد آپ کو حیرت ہو کہ برما کی پارلیمان کا ایک چوتھائی اور طاقتور وزارتوں جن میں دفاع، داخلہ اور سرحدی امور کی وزارت شامل ہے، فوج کو ملتا ہے۔ یعنی جس کی مرضی حکومت آئے، پچیس فیصد اراکین پارلیمنٹ اور مذکورہ وزارتیں فوج کو ہی ملیں گی۔ اس سب کے باوجود فوج نے مارشل لاء لگا دیا، جو دنیا بھر کے ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بنا ہے۔ برما میں نیا الیکشن ہوا، جس میں اسی فیصد ووٹ آنگ سانگ سوچی کی جماعت نے حاصل کیے تھے اور شراکت اقتدار کے معاہدے کو اسی طرح آگے بڑھنا تھا، جس میں فوج نے اپنے مفادات کا تحفظ کر لیا تھا۔ اس سب میں آنگ سانگ سوچی کو سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ملا۔ اب وہ سوچ رہی ہوں گی کہ کاش میں نے فوج کا ساتھ نہ دیا ہوتا اور روہنگیا کے مظلوموں کا ساتھ دیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply