رقص گر۔۔۔نیلم احمد بشیر/نظم

محبتوں کے ناچ گھر میں ناچتے تھے دو بشر
تھام کر ہاتھوں میں ہاتھ
پیر اٹھتے تھے ساتھ ساتھ
ایک حسینہ پھول سی، اک دیوانہ مست سا
زندگی کے والٹز(waltz) کی دھن کیسی تھی مدھر مدھر
اڑتے تھے ہرجا گلابی انگنت سے میٹھے سُر
تھرکتے تھے دو بدن، دم بدم قدم قدم
دھیرے دھیرے محوِ رقص ہوں جیسے سطحِ آب پر
بدلیاں سی تیرنے لگتیں رخِ ماہتاب پر
اتنے قریب تھے جیسے ہو کوئی ایک وجود
ماسوا ان دونوں کے کوئی نہ ہو وہاں موجود
ڈال کر بازو کمر میں، کھینچتا جب پیار سے
سانس روک لیتی وہ بھی دیکھ کر دلار سے
قربتیں تھیں بے پناہ، فاصلہ کوئی نہ تھا
پیار کا بپھرا سمندر کیسا ٹھاٹھیں مارتا
خون میں مچتی دھمال
عشق کا بہتا سیال
گھومتی تھی کائنات
جھومتا تھا پات پات
رقص سرور انگیز تھا
کِھلتا دلِ نوخیز تھا
جادوئی لَے میں وہ دونوں گم ہوئے اور کھو گئے
ایک دوجے کے ہی بس وہ ہو کر رہ گئے

اچانک تھم گیا میوزک، کھلی آنکھیں، سحر ٹوٹا
ہاتھ لڑکی کا دیوانے ہاتھ سے چھوٹا
توڑ کر بازو کا وہ دلکش حصار
جھٹک کے لڑکی کا وہ معصوم پیار
اک نئی ہم رقص کی جانب بڑھا
ڈانس کا تھا پارٹنر پل میں ہی بدل گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply