بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط3)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

باوا جی سید وقار حسین شاہ کو جس چک میں مربعہ الاٹ ہوا تھا وہاں قدیمی قصبہ شاہ پور والی تھا۔ ملتان سے قریب اور اس علاقے میں مرکز تھا، نہری نظام جب قائم ہو رہا تھا تو یہ ٹرانزٹ کیمپ تھا، اس لئے یہ چک سب سے آخر میں آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ ریلوے لائن بچھائی  گئی تو نواح میں دنیا پور ، قطب پور اور دیگر بڑے قصبے ٹریک پہ  آئے اور وہاں سٹیشن قائم ہوئے، نہر۔جھال، راجباہ بنائی  گئیں تو یہاں کے پرانے راستے بھی بند ہوئے، تو ملتان سے یہاں آنے کے لئے لمبا چکر پڑتا تھا، دو سال قبل کینٹ کا بائی  پاس بنا تو ملتان سے چک کا سفر  آدھے گھنٹے کا  رہ گیا۔

چک بساتے یہ پالیسی بھی تھی کہ آباد کار عام طور پر ایک آبائی  علاقے کے ہوں، یہ چک اب بھی شاہ پور تھا ،اکثریت سید اور شیعہ لوگ تھے، پرانی امام بارگاہ، مساجد، سکول ڈاکخانہ اور ڈسپنسری محفوظ تھیں، چک میں مشترکہ شاملات ملکیت تھی۔

باوا جی سب سے آخری الاٹی گروپ میں تھے ، ان کے اور کزن کے مربعے بھی چک کی غربی طرف آخری لین میں تھے، لیکن اب سڑک بالکل ان کے سامنے بن گئی تو وہ قطب پور ۔ دنیا پور والے چکر کے بعد پورے گاؤں سے گزر کے آنے کی ضرورت ختم ہو گئی۔

سڑک جھال کے متوازی شمال جنوب بنی، ان کے مربعے کونے میں آئے، جن سے آگے جھال پر پُل اور چار چک کا چوک بن گیا، جہاں شرق غرب دوسری سڑک زیر تعمیر تھی،باوا وقار شاہ سال کے بعد آئے تھے، اصغر شاہ کے کالج داخلے اور مستقل یہاں رہنے، منشی کے ساتھ مل کے سارا کام سنبھال لینے سے وہ یہاں کی ذمہ داری سے فارغ بھی تھے ، صحت اور گاؤں کی مصروفیات بھی آڑے  آتی رہیں۔

سٹیشن سے چک تک جیپ پر پہنچتے مشکل سے آدھا گھنٹہ لگا، مربعے والے ڈیرے پر اُترے تو وہاں کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ بیٹھک کی چار دیواری بن چکی ،اس میں دو گیراج ایڈ ہوئے، سفیدی  ہوئی  تھی ، ملازم نے گیٹ کھولا۔۔۔۔جیپ برآمدے کے سامنے کھڑی کی ، اصغر نے خود پھرتی سے جیپ کا دروازہ کھولا ۔ باوا جی حیرانی کے عالم میں برآمدے میں بچھے پلنگ جس پر تکیے لگے تھے اس پر بیٹھ گئے، ڈرائیور اور منشی نے سامان نکالا ، اور جیپ ریورس کر کے گیراج میں لگا دی، ڈیرے کے دیگر ملازمین ، مرد و زن سب سلام کرنے آئے ، منشی نے بیٹھک اور ساتھ ملحق بیڈ روم اور باتھ روم کے دروازے کھول دیئے، چائے بن کے آ گئی، واش روم سے فریش ہو کے جب باپ بیٹا برآمدے میں شہ نشین ہوئے تو سارے ملازم اپنی اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے، ڈرائیور نے کلاشنکوف ان لوڈ کر کے بیڈ روم میں الماری کے اندر بند کر دی ۔وہ چلا گیا تو پہلا سوال باوا جی نے اسلحہ بندی بارے ہی پوچھا !
اصغر شاہ نے میز پلنگ کے ساتھ رکھی۔ پانی کا جگ اور گلاس اس پہ رکھا۔ بیڈ روم سے دوائیوں کا باکس لے آیا۔۔۔اسے بھی میز پر رکھ کے، پلنگ کی پائنتی پہ  باوا جی کے پاؤں پکڑ کے بیٹھے بہت ادب سے بولا۔۔
“ باوا جی، یہ سب آپکی دعا ہے، مجھے آپ کا بیٹا ہونے پر فخر ہے، آپ تھکے ہوئے ہیں اور آپ نے دوپہر کی دوا ء بھی نہیں لی ، میں آپ کو یہ کھلاتا ہوں، آپ تھوڑی دیر ریسٹ کریں، یہاں سڑک بننے سے چک میں سکیورٹی کے مسائل بن گئے ہیں، کرنل انکل کے بھائی  میجر صاحب پچھلے سال یہاں تھے انکی وساطت سے کلاشنکوف کا لائسنس مجھے ڈی سی صاحب نے بنوا کر دیا ، کل آپ کو ساری صورت حال بتاؤں گا، مطمئن رہیں آپ کا بیٹا دو سال میں بیس سال بڑا ہو گیا ہے”۔

اُس نے باکس کھولا جس میں دوائیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق صبح دوپہر رات لکھے لفافوں میں ترتیب سے  بند تھیں۔باوا جی کو دوائی  کھلا کے، ان کی ٹانگوں پہ  کھیس ڈالا، تکیہ ہٹا کے سرہانہ رکھا انہیں لٹا کے اصغر ملازموں کے ڈیروں کی طرف چلا گیا ، تا کہ باوا جی آرام کریں اور سو جائیں، باوا جی کے لئے اصغر کے یہ روپ نئے تھے لیکن ان کے لئے باعث سکون بھی تھے، وہ واقعی سو گئے، تھوڑی دیر میں ان کے خراٹے بیٹھک میں گونج رہے تھے،باوا جی مغرب کے وقت جاگے، غسل لیا نماز مغربین کے بعد کھانا کھایا، ملازموں کے ساتھ گپ شپ کی،اور بیٹھک میں اپنے پرانے بیڈ لیکن بہت اجلے بستر پر ہلکا سا پنکھا لگا کے سوئے، اصغر سارا وقت حاضر خدمت رہا۔۔۔
جب وہ سو گئے تو وہ بھی بیڈ روم میں اے سی لگا کے سو گیا، سفر کی تھکن تھی، اور کچھ طبیعت میں ہیجان بھی تھا۔۔صبح باوا جی فجر کے وقت جاگے، نماز پڑھنے تک مانا منشی ناشتہ لے آیا، اصغر تو بے خبر سو رہا تھا۔

باوا جی نے اسے جگانے سے منشی کو منع کر دیا،باپ کی کمزوری ہوتی ہے کہ بیٹا سو رہا ہو تو وہ اسے نہیں  جگاتے، بلکہ قرب و جوار میں شور شرابہ بھی نہیں  ہونے دیتے،باوا جی نے منشی کے ساتھ زمینوں کا چکر لگایا ، باغ دیکھے، حیران ہوئے کہ ساتھ کزن والے مربعے میں درختوں کی کٹائی ہو رہی تھی، ٹریکٹر سے زمین ہموار کی جا رہی تھی، آم کے پودے لگائے جا رہے تھے، منشی نے بتایا کہ کل شام کو چھوٹے شاہ جی نے یہ سارے کام لائن اَپ کر دیئے تھے، ٹریکٹر اور گاڑی کے کچے راستے بن چکے تھے،واپسی پہ  مزارعین کے ڈیرے اور مویشی دیکھ کے بیٹھک پہنچے تو اصغر شاہ نہا دھو کے ناشتہ کر چکا تھا۔

اب باوا جی کے سامنے منشی کی روایتی پیشی شروع ہوئی ، اس نے وہی پرانا  بوسیدہ کھاتا کھول کے پچھلے دو سال کا حساب بتانا شروع کیا۔ اصغر شاہ خاموش بیٹھا مسکراتا رہا،اس کے کھاتے میں ہر وصولی کے آگے “شاہ جی کو ادا کیے”۔۔۔ لکھا تھا ، پہلے یہ ہوتا کہ نارمل خرچے نکال کے باقی رقم باوا جی کے پوسٹ آفس کے سیونگ اکاؤنٹ میں جمع ہوتی، جب منشی کا بیان ختم ہوا تو باوا جی نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا، وہ مسکرا کے اٹھا اور بیڈ روم سے رجسٹر اور فائلیں اٹھا لایا ۔ساتھ سیونگ اکاؤنٹ کی پاس بُک بھی تھی۔
میز پہ پہلے رجسٹر رکھا ، جس میں ہر مہینے کی تاریخ وار وصولی ایک صفحے پر اور اس کے مقابل اخراجات درج تھے۔۔ماہوار بچت اکاؤنٹ میں جمع کرانے، اور وہاں سے رقم نکالنے کا علیحدہ اندراج تھا،باوا جی کو کرنل کزن کی بات یاد آ گئی کہ اصغر شاہ قدرتی طور حساب کتاب کا ماہر ہے۔
پوسٹ آفس کی پاس بک میں پچھلے ماہ تک جب اصغر کوہاٹ کمیشن کے امتحان کے لئے گیا تھا، بیلنس مصدقہ تھا،ایک فائل ٹریکٹر کی تھی، پرانا ٹریکٹر بیچنے کی رسید اور نئے ٹریکٹر کے مکمل کاغذات رسیدیں موجود تھیں۔
سپیشل فائل  جیپ کی تھی، کمپنی کے آکشن بڈ سے ادائیگی کی رسید، ٹرانسفر لیٹر اور دیگر کاغذات ۔۔ٹریکٹر اور جیپ سید وقار حسین شاہ ولد سید فضل حسین شاہ کے نام خریدے گئے، رجسٹر اور ٹرانسفر ہوئے۔

باوا جی تو یہ سب اکاؤنٹنگ دیکھ کے ششدر رہ گئے، منشی اپنی جگہ پریشان ۔ خیر باوا جی نے اٹھ کے بیٹے کو گلے لگایا پیار کیا، آنسو روکتے ، بھرائی  آواز میں توجہ بدلنے کو یہ پوچھ لیا کہ میرا شناختی کارڈ کہاں سے لیا تھا؟
اصغر شاہ نے باپ کے پاؤں چھوئے اور کہا، “ باوا جی آپ بھول گئے ! میرا کالج میں داخلہ آپ کے کارڈ پہ  ہوا تھا میرا شناختی کارڈ تو بعد میں بنا ۔ کاپی میرے پاس تھی، نہ ہوتی تو بھی آپ کے نام پہ  ہر شے ہونی چاہیے۔اسی میں تو برکت ہے، اس میں تو دادا جی کا اسم مبارک بھی ہے !
باوا جی میرے دادا پہ  آپ میرا نام رکھتے ناں ۔ وہ تو ذاکر تھے تو میں بھی ذاکر بن رہا ہوں “
باپ بیٹے کی گفتگو منشی ایک موڑھے پہ  بیٹھا سن رہا تھا، اچانک وہ کانپنے لگا اور اٹھ کے باوا جی کے پاؤں پکڑ  کے زار و قطار رونے لگا ۔۔
جاری ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط2)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply