الوداع (اپنی جوانی کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

(اپنی جوانی کے نام)
تو۔۔۔۔۔تو تم جا رہی ہو۔۔۔
مجھے خیر باد کہنے کیلئے ہاتھ ہلا رہی ہو،
جس دل میں تم رہتی تھی اسی کو توڑ کر جا رہی ہو،
جس گھر میں تم بستی تھی اسے چھوڑ کر جا رہی ہو،
جان نہیں پاتا کہ اتنی جلد جدائی کی آخر وجہ کیا ہے،
نہیں معلوم تمہاری بے اعتنائی کی آخر وجہ کیا ہے،
ٹھیک ہے جب تم آئی تھی تومیں غمِ دوراں پرموقوف تھا
حیات کے رستے سے احتیاج کے کانٹے چننے میں مصروف تھا
میں مانتا ہوں کہ میں تب تمہارا واجب استقبال نہیں کر سکا تھا۔۔۔
تمہاری راہوں میں جذبات و احساسات کے پھول نہیں بھر سکا تھا۔
مگر اس بات کا اتنا برا مناؤ گی مجھے معلوم نہ تھا،
اس طرح راہ میں اکیلا چھوڑجاؤگی مجھےمعلوم نہ تھا،
میں کہ جس نے تمہیں غمِ دوراں سے بچا کر دل میں بسائے رکھا۔۔۔
میں کہ جس نے تمہیں تمہاری تمام بے رخی کے باوجود اپنا بنائے رکھا۔۔۔
یہ دلِ بےتاب چاہے درگاہِ حیات کا راندہ تھا تمہارا تھا۔۔۔۔
جس قدر میں زمانے کے خرچ کے بعد باقی ماندہ تھا تمہارا تھا۔۔۔
اے میری ناؤ!کتنے طوفانوں سے بچا کر میں تمہیں ساحل تلک لے کر آیا۔۔۔
کتنے صدموں کے پل صراط سے گزر کر تمہیں اس دل تلک لے کر آیا۔۔۔
اے میری مشعل! میں نے زمانے کی ہوا کے سنگدل تھپیڑوں کو تمہاری طرف آنے نہیں دیا۔۔۔
ظلمتِ بخت کی دیوی کو پھونک مار کر تمہیں بجھانے نہیں دیا۔۔۔
اے میری گلِ رعنا! میں نے حالات کی پت جھڑ میں تمہیں بکھرنے نہیں دیا۔۔۔
تمہارے شبستان کے پاس سے خزاں کی رت کو گزرنے نہیں دیا۔۔۔
میں اپنی آنکھوں میں آنسو لیےتمہارے سامنے مسکراتا رہا
مایوسی کے اندھیرے میں بھی تمہارے لئے امید کی شمع جلاتا رہا۔۔
دریائے زیست میں ساحلِ مرگ تک تمہارے ساتھ بہناچاہتا ہوں۔۔۔
میں اپنی آخری سانس تک تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔
اور تم۔۔۔۔۔ بے وفا۔۔۔ ہرجائی۔۔۔ سنگدل اور خود غرض نکلی۔۔
معیشتِ حیاتِ شاعر کے ذمے واجب الادا ایک قرض نکلی۔۔
میرے کاندھوں پر برسوں کا بوجھ کیا پڑا مجھ سے منہ موڑنے لگی ہو۔۔۔
میرے بالوں میں چاندی کے تاروں کو شمار کر کے مجھے چھوڑنے لگی ہو۔۔۔
اگر فراق زندگی کے ہاتھ کی لکیروں میں کندہ ہے۔۔۔
اگر وقت کا ازل سے یہی کاروبار یہی دھندا ہے۔۔۔
تو بھی تم مجھے جانتی ہو۔۔۔۔
پچھلی دو دہائیوں سے مجھے پہچانتی ہو۔۔۔
جس دل میں تم آباد تھی اسے تمہاری یادوں سے آباد رکھوں گا۔۔۔
میں اپنے آخری دم تک تمہیں یاد رکھوں گا،
جن راہوں سے تم چل کر آئی تھی وہ رستے تادمِ مرگ بستے رہیں گے۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ ایک بوڑھے پر اسطرح لوگ ہنستے رہیں گے۔۔۔۔۔
مگر لوگوں کا کیا روتوں پر ہنستے ،ہنسنے والوں پہ روتے ہیں۔۔
لوگوں کو چھوڑو میری جان لوگ تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔
میں وقت کےبت کےآگے سر جھکانے سے انکار کرتا ہوں۔۔۔
باقی عمر تمہاری جدائی کاسوگ منانےسے انکار کرتا ہوں۔۔۔
تم نہ ہوگی تو میں تمہاری یادوں کی حفاظت کروں گا۔۔
میں تمہارے بعد بھی تمہی سے محبت کروں گا۔۔۔
کیونکہ محبت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔۔۔
کیونکہ محبت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔۔۔
الوداع اے وقت کی روانی۔۔۔۔الوداع
الوداع اے شاعر کی جوانی۔۔۔الوداع !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply