کتاب ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایک استاد صاحب کا سنہری فرمان ہے کہ ٹھوس/ کاغذی کتاب گویا کہ ایک جسم رکھتی ہے جبکہ برقی کتاب اپنی ماہیت میں بے جسم ہے، اسی بنا پر مطالعہ ہمیشہ کاغذی کتاب کا کرنا چاہیے کہ جسم کی حرارت اور اس کے منحنی خطوط کو محسوس کرتے ہوئے دماغ کے خلیوں میں ” آہنی انتشار ” پیدا ہو جو کہ ارتقاء کی ہر سمت کیلئے لازم ہے۔
کتابی علم کے ذرائع کی کم از کم چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں، کاغذی یا پرنٹڈ کتاب، برقی (الیکٹرونک) کتاب، زبانی کتاب ( کتاب لفظی، سینہ در سینہ ) اور کتاب عکس، یعنی محرک و غیر محرک تصاویر والی کتاب، جیسے فلمیں ڈرامیں و دیگر ڈاکومنٹریز وغیرہ۔

آخر الذکر (کتاب عکس ) کا اثر انسانی دماغ پر سب سے کم بلکہ صرف تفریح کی حد تک محدود ہے، اسی لئے سست دماغ آدمی کیلئے یہ ہمیشہ پُر کشش رہی ہیں کہ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی لیکن نتیجہ اس کا یہ ہے کہ دماغ کے خلیوں کے درمیان کتے کی دم کی طرح ٹیڑی سائینیپس ٹیڑھی ہی رہتی ہے، تاریخ کی ایک بے سود کوشش یہاں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے جب بیسویں صدی کی ستر اور اسی کی دہائیوں میں مغرب نے افریقہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ٹھانی، چونکہ افریقہ کا ماحول اور آب و ہوا مغربی آدمی کیلئے تشویشناک تھیں لہذا فیصلہ یہ کیا گیا کہ محرک و غیر محرک تصاویر، ویڈیوز، فلموں اور ڈاکومنٹریز کی مدد سے افریقہ کو تعلیم یافتہ دنیا کی صف میں لایا جائے، کئی دہائیاں برباد کرنے کے باوجود یہ سطحی کوشش افریقہ کا بال بھی بیکا نہ کر سکی، وجہ یہی ہے کہ علم کے ذرائع میں سے سب سے کمتر کا انتخاب کیا گیا۔

اس ریٹنگ میں نیچے سے اوپر کی طرف دوسرا نمبر برقی کتاب کا ہے، جیسا کہ عرض کیا کہ یہ بغیر جسم کے کتاب ہے، اسی لئے ایسا مطالعہ آپ کیلئے معلومات کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے لیکن فکر میں حرارت پیدا نہیں کرتا، ایک بے باک دوست نے اوقات وصل میں مانع حمل “ساتھی” کے استعمال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے زبان پر غبارہ چڑھا کر چینی چکھنے کا کہا جائے، بس کتابی اور برقی کتاب کے مطالعہ میں یہی فرق ہے ۔

اس کے بعد کتاب لفظی کا نمبر ہے، یعنی زبانی کلام، ایسی کتاب انسان کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے اور اس کے تخیل میں وسعت پیدا کرتی ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت یونانی مفکر ہومر کی کتاب ہے، جو شروع میں زبانی شکل تک محدود تھی، اسی زبانی کتاب نے یونانی تہذیب کی بنیاد میں مضبوط ترین ستون کا کام دیا جس نے بعد میں پوری دنیا پر اپنا اثر چھوڑا، کتاب مقدس بھی اسی فہرست میں آتی ہے جو شروع میں صرف زبانی کلام کا درجہ رکھتی تھی، زبانی کلام تب تک کارآمد ہے جب تک فکر ایک مخصوص خطے تک محدود ہے، فکر جب جغرافیائی حدود کی محتاج نہ رہے تو اسے ٹھوس شکل میں لانا لازم ہو جاتا ہے۔

یہاں آڈیو کتاب کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جو اپنی اصل میں اسی لفظی کتاب کے قریب تر ہے ، لہذا جو احباب انٹرنیٹ پر کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں، ان کیلئے بہتر ہے کہ برقی کتاب کی بجائے آڈیو بک کا انتخاب کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتاب کی اہم اور مؤثر ترین شکل ٹھوس یعنی کاغذی کتاب ہے، اس کتاب کا اثر انسانی رویوں اور اس کی فکر پر اس قدر شدید ہے کہ جس گھر میں کتابیں موجود ہوں، اس گھر کے بچوں کی تن بولی، رویے اور اسلوب فکر دوسروں سے مختلف ہوگا چاہے انہوں نے ان کتب کا مطالعہ نہ بھی کیا ہو، یہ یقیناً جسم کی حرارت اور علم کی موجودگی سے سرشار ایک جادوئی احساس ہے جو شخصیت میں ہلچل کا باعث بنتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ انہی کتابوں کے قاریوں نے انسانی معاشروں کو مخصوص سمت دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، شاید اسی لئے کہا گیا کہ کتابیں پڑھنے والے افراد ٹی وی دیکھنے والوں پر حکومت کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply