کینسر (86) ۔ ٹارگٹڈ دوا/وہاراامباکر

اکیوٹ پرومائیلوسائٹک لیوکیمیا (APL) خون کا ایک کمیاب قسم کا کینسر ہے۔ خون کے نارمل سفید خلیات ہڈی کے گودے میں کئی سٹیج سے گزر کر بلوغت تک پہنچتے ہیں۔ درمیانی سٹیج کا ایک خلیہ پرومائیلوسائٹ ہے۔ اور اس بیماری میں یہاں پر خلل آ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نارمل پرومائیلوسائٹ زہریلے انزائم اور گرائنیول سے بھرے ہوتے ہیں۔ خون کے سفید خلیات انہی کی مدد سے وائرس، بیکٹیریا اور دوسرے پیتھوجن کو ہلاک کرتے ہیں۔
اس لیوکیمیا میں یہ خلیات اپنی بلوغت تک پہنچنا بند کر دیتے ہیں اور اپنے زہریلے گرینیول بے موقع خون میں شامل کرتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیماری 1950 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی۔ اس کے خلاف بہت سی ادویات آزمائی جا چکی تھیں۔ صرف ایک نے کچھ اثر دکھایا جو ریٹینوئک ایسڈ تھا۔ یہ وٹامن اے کی آکسیڈائزڈ صورت ہے۔ لیکن یہ ناقابلِ اعتبار تھا۔ کوئی بیچ اثر دکھاتا تھا جبکہ اسی کیمیکل کا دوسرا بیچ ناکام ہو جاتا تھا۔ اس سے مایوس ہو کر بائیولوجسٹ اور کیمسٹ نے اس کو ترک کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیوکیمیا کے محققین کی ایک ٹیم 1985 میں چین سے فرانس گئی۔ چین میں ژن یی وانگ شنگھائی کے روئیجن ہسپتال میں ایسے ہی مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی ملاقات لارین ڈیگوس سے ہوئی۔
ریٹینویک ایسڈ دو شکلوں میں آتا ہے۔ سس اور ٹرانس۔ دونوں کا کیمیائی فارمولا بالکل ایک ہی ہے لیکن ان کے مالیکیولر سٹرکچر میں معمولی سا فرق ہے اور اس وجہ سے کیمیائی ری ایکشن میں یہ الگ طریقے سے کام کرتے ہیں۔ جس مالیکیول پر ٹیسٹ کئے گئے تھے، وہ سس ریٹینوئک ایسڈ تھا۔ وانگ اور ڈیگوس کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل میں ہونے والا ریسپانس اس میں شامل ٹرانس ریٹینوئک ایسڈ کی معمولی سی مقدار کی وجہ سے ہوتا ہو؟ کبھی کبھار کی معمولی کامیابی صرف اس وجہ سے ہوئی ہو کہ یہ تھوڑا سا ناخالص تھا؟ کیا یہ تجربہ نہ کر لیا جائے کہ خالص ٹرانس ریٹینوئک ایسڈ بنا کر کوشش کی جائے؟
وانگ نے شنگھائی میں فرنچ زبان سیکھی تھی۔ اور لسانی بیرئیر نہ ہونے کی وجہ سے یہ اشتراک ممکن رہا۔ ان دونوں ہیماٹولوجسٹ نے اس پر بین الاقوامی اشتراک کا خاکہ بنایا۔ وانگ کو ایک فارماسیوٹیکل فیکٹری کا علم تھا جو خالص ٹرانس ریٹینوئک ایسڈ بنا سکتی تھی۔ اس کو رئیجن ہسپتال میں مریضوں پر ٹیسٹ کیا جا سکتا تھا۔ ڈیگوس کی ٹیم دوسرا راونڈ فرنچ مریضوں پر کر سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وانگ نے پہلا ٹرائل چوبیس مریضوں پر کیا۔ تئیس میں زبردست ریسپانس آیا۔ لیوکیمیا کے پرومائیلوسائٹ خون کے سفید خلیوں میں بدلنے لگے۔ چوتھے روز میچور گرینولوسائٹ بن چکے تھے۔
پھر اس سے بھی زیادہ غیرمتوقع بات ہوئی۔ کینسر کے خلیات مکمل بلوغت کے بعد مرنے لگے۔ اگلے چند ہفتوں میں ان کی موت کا سائیکل تیز ہو گیا۔ اچانک میچور ہو جانے کی وجہ سے مریض کے جسم میں مختصر مدت کی میٹابولک گڑبڑ ہوئی لیکن اس کو ادویات سے بآسانی کنٹرول کر لیا گیا۔
ٹرانس ریٹینوئک ایسڈ کے سائیڈ ایفیکٹ معمولی تھے۔ منہ اور ہونٹوں کی خشکی اور کبھی پڑنے والا ریش۔
اس سے ہونے والی صحتیابی اکثر مہینوں تک باقی رہی۔
تین سے چار مہینوں میں یہ کینسر واپس آتا۔ پیرس اور شنگھائی کی ٹیموں نے اس کے بعد پرانی اور نئی ادویات کی کاک ٹیل تیار کی۔ سٹینڈرڈ کیموتھراپی کی ادویات کے اضافے کے بعد مریض کو مزید اضافی وقت مل گیا۔ تین چوتھائی مریضوں میں یہ ایک سال تک واپس نہیں آیا اور پھر پانچ سال تک نہیں آیا۔ 1993 تک وانگ اور ڈیگوس نے نتیجہ نکال لیا تھا کہ ٹرانس ریٹینویک ایسڈ اور سٹینڈرڈ کیموتھراپی کی مدد سے 75 فیصد مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کامیابی ہوئی کیوں تھی؟ کینسر بائیولوجسٹ کو اس کو سمجھنے میں کئی سال لگے۔ اے پی ایل کی اونکوجین ایک پروٹین بناتی تھی جو ٹرانس ریٹینوئیک ایسڈ کے ساتھ چپک جاتی تھی۔ اس کا چپکنا اونکوجین کے سگنل کو بجھا دیتا تھا اور اس وجہ سے مریضوں میں اچھا ریسپانس دیکھنے کو ملا تھا۔ اس کو فرانس، اٹلی اور امریکہ میں سائنسدانوں کو ٹیموں نے 1990 میں آئسولیٹ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئیجن کی دریافت مالیکیولر اونکولوجی کا خواب تھا۔ یہ اونکوجین کو ٹارگٹ کرنے والی دوا تھی۔ وانگ اور ڈیگوس اتفاق سے اس تک اندازہ لگا کر پہنچ گئے تھے جبکہ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ اس کی کامیابی کی وجہ اونکوجین کو ٹارگٹ کرنا تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply