مایوسی گناہ ہے۔۔عاصمہ حسن

مایوسی گناہ ہے۔۔عاصمہ حسن/ اللہ تعالی نے اس دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ـ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اس مقصد حیات کو پا لیتے ہیں اور کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگتے ہیں ـ یہ آگاہی ہونا کہ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے یہ بھی اللہ تعالی کی خاص عنایت ہوتی ہے ـ۔
جب ہم بات کرتے ہیں کامیابی کی تو اس کی کوئی خاص تعریف یا فارمولا بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کامیابی کا معیار اور اس کو جانچنے کا طریقہ کار ہر ایک کے لئے مختلف ہوتا ہے ـ کسی کو کامیابی جلدی یا عمر کے اوائل حصے میں حاصل ہو جاتی ہے اس کے برعکس کسی کو دیر سے حاصل ہوتی ہے ـ ہر کام کا اور اس کے ہونے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور وہ وقت کیا ہے اس کا علم صرف اللہ تعالی کی ذات کو ہی ہوتا ہے کیونکہ وہی مالک و خالق اور قادر ہے ـ قدرت رکھنے والا ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کب اور کتنا نوازنا ہے ـ۔
اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ساری عمر محنت کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہو پاتے اور اسی ناکامی کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں لہذا اسی کشمکش میں وہ نہ صرف محنت کرنا ترک کر دیتے ہیں بلکہ اس رستے پر چلنا ہی چھوڑ دیتے ہیں ـ دراصل ان کی یہ روش غلط ہوتی ہے کیونکہ مایوسی گناہ ہے ـ قرآن پاک میں بھی کئی بار اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہم انسانوں کو اللہ کی ذات سے ‘اس کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے ـ
اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ : ساری حماقتیں کر لینا مگر اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ مایوس صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے انھیں اپنے رب پر اس کی رحمتوں پر یقین و بھروسہ نہیں ہوتا ـ ایسے لوگ اپنی ناکامیوں سے سیکھنے کی بجائے اپنی قسمت کو دوش دینا شروع کر دیتے ہیں ـ دراصل اس میں قصور ہمارے حالات اور لوگوں کی باتوں کا ہوتا ہے جو ہمارے ایمان کو ڈگمگا دیتے ہیں اور وقتی طور پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ رب جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور جو سترماؤں سے زیادہ ہم سے محبت کرتا ہے کبھی ہمارے لئے برا نہیں چاہ سکتا ـ فرق صرف ہماری سوچ اور اس طریقہ کار میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ
یہ سچ ہے کہ کئی بار ہم یکے بعد دیگرے یا مسلسل ناکامی کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم مایوسیوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگیں اور ہمارا ایمان اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئیے کہ ہم اپنے رب کی رحمتوں سے مایوس ہو کر گناہ کا رستہ اپنا لیں ـ یہ مصائب اور پریشانیاں ہمیں کندن بنانے کے لئے ہوتی ہیں کیونکہ ہمارا رب چاہتا ہے کہ ہم مضبوط بنیں اور اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور کامیابی کا اصل ذائقہ محسوس کریں کیونکہ جب تک ہم ناکام نہیں ہوتے ‘ ٹھوکریں نہیں کھاتے اس وقت تک ہم اپنی کامیابی کو محسوس نہیں کر سکتے ـ
اگر کوئی مقام یا چیز جس کی ہمیں طلب یا آرزو نہ ہو اور اس کے حصول کے لئےہم نے محنت نہ کی ہواور وہ حاصل ہو جائے تو اس کی ہمارے نزدیک اہمیت نہیں رہتی ـ اس کے برعکس وہ چیز’ مقصد یا مقام جس کو حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کی ہو’ خواب بنیں ہوں در در کی ٹھوکریں کھائیں ہو’ ناکامیاں دیکھیں ہوں اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو انسان خود کو آسمان کی بلندیوں پر پرندوں کی طرح پر پھیلائے اُڑتا ہوا محسوس کرتا ہے سجدہ ریز ہو کر خداوند تعالٰی کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے ـ۔

دراصل ہم انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو درپیش مسائل اور ناکامیوں سے پریشان ہو کر مایوسیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرے وہ جو اپنے پروردگار کی آزمائیش سمجھ کر توکل رکھ کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں اور اپنا سفر جاری رکھتے ہیں ـ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی منزل کو حاصل کر لیتے ہیں ـ۔
دراصل بات صرف اپنی سوچ کو بدلنے اور حالات و واقعات کو دیکھنے کے زاویے کو بدلنے کی ہے ـ اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت کر لیں اور مسائل کو دیکھنے کا زاویہ بدل لیں تو ہمارے مسائل آہستہ آہستہ خودبخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے ـ دوسروں کو بدلنا انتہائی مشکل کام ہے لیکن خود پر’ اپنی سوچ اور رویوں پر کام کرنا آسان ہے جس کی وجہ سے ہم نہ صرف اپنے اندر بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول میں بھی واضح تبدیلی لا سکتے ہیں ـ۔

اکثر  ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کی قابلیت’ حکمت عملی یا حاصل کردہ وسائل کی وجہ سے ترقی یا کامیابی جلدی حاصل ہو جاتی ہے اور ہم ان سے حسد اپنے دل میں پال لیتے ہیں جو ہمیں اندر ہی اندر کھا جاتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو تلف کر دیتا ہے ـ۔
ہمیں چونکہ بظاہر دوسروں کی کامیابی تو نظر آتی ہے لیکن اس کامیابی کے پیچھے ان کی سالہاسال کی محنت و مشقت’ ریاضت دکھائی نہیں دیتی ـ بس یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم چیزوں کو فرض کر لیتے ہیں ـ محنت کرنے سے مایوس ہو کر بیٹھ جانا ہمیں زیادہ آسان لگتا ہے اس لئے ہم وہ رستہ چن لیتے ہیں جو آسان ہو ۔ـ

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہمیں اپنے اندر وقت کے ساتھ تبدیلی لانی پڑتی ہے جیسے موبائل اور لیپ ٹاپ’ کمپیوٹر وغیرہ کا سسٹم یا سافٹ وئیراپ گریڈ ہوتا ہے نئے برقی آلات آتے ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی دن بہ دن تبدیلیاں لے کر آتی ہے بالکل اسی طرح ہم انسانوں کو بھی اپنا سافٹ وئیر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے وقت کے ساتھ چلنے کے لئے سسٹم اپ ڈیٹ کرنا پڑتا ہے اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہم آؤٹ ڈیٹڈ ہو جائیں گے اور ہماری کوئی وقعت نہیں رہے گی ـ۔
اپنی صلاحیتوں اور زورِباذو پر یقین رکھتے ہوئے نئے ہنر سیکھیں اس کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں بہتری لے کر آئیں اور درست سمت کا تعین کرتے ہوئے اپنی بھرپور توانائیوں کا استعمال کرتے ہوئے محنت کا سفر جاری رکھیں ـ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ضروری نہیں ہے کہ نتائج ویسے حاصل ہوں جیسا کہ آپ نے سوچا ہے یا چاہتے ہیں لیکن اس بات کا قوی یقین رکھیں کہ مسلسل جدوجہد ایک دن کامیابی کے دہانے پر ضرور پہنچا دے گی ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply