نجد کا مَجْد /علی ہلال

بہت سے دوست سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز آل سعود کی ایک نازیبا تصویر لگاکر ان کے بارے بڑے ہتک آمیز انداز میں لکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ پاش پاش ہوئی تھی اور ان کے پڑوس میں اکیس ہزار بچے مرے ہیں اور یہ خاموش ہیں۔

جن دوستوں کے علم میں نہیں ،ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلیاں 2015ء کے بعد رونما ہوئی ہیں۔ شاہ عبداللہ کا دور سعودی عرب کے اچھے ادوار میں سے تھا۔ شاہ عبداللہ کو قریب سے دیکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ شاہ ایک انتہائی ملنسار اور خدا ترس انسان تھے۔ سادہ مزاج اور اپنے ملک وعوام سمیت مسلمانان ِعالم کے لئے نیک دل انسان تھے۔   جس میں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندرونی باشندوں کے لئے لاتعداد خدمات ہیں۔

جہاں تک سلطنت عثمانیہ کا تعلق ہے  تو سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں انگریز نے کردار ادا کیا ہے ،مگر بنیادی وجہ عثمانی حکمرانوں اور شہزادوں کی عیاشیاں ہی تھیں۔ انہوں نے ترکی میں شاندار محلات کھڑے کرنے کے لئے یورپی ممالک سے قرضوں پر قرضے لئے اور اپنی عیش پرستیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی۔
( مولانا فضل الرحمٰن جیسے صاحب ِنظر سیاستدان بھی عثمانی خلفاء کی قرضوں کی عیاشی کا اعتراف کرتے ہیں)

آپ برطانوی راج اور سلطنت عثمانیہ کا موازنہ کریں ۔ برطانیہ نے برصغیر سمیت اپنی تمام نو آبادیوں میں تعمیر وترقی کے اتنے کام کئے ہیں جو آج تک نظر آرہے ہیں۔ پل ہیں،بندرگاہیں ہیں، بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ اس کے برعکس سلطنت عثمانیہ نے عرب خطے کو بنجر ہی رکھاہے ۔ آج آپ کو الجزائر سے لیکر قطراور عراق تک کہیں بھی ترک حماموں کے سوا سلطنت عثمانیہ کی سطوت کی کوئی نشانی نظر نہیں آئے گی۔

اس کے برعکس ترک سرزمین پر سلطنت عثمانیہ کے خلفاء نے جو شاندار محلات اور پیلس تعمیر کئے ہیں وہ آج بھی ان کی عیاشی کی زندہ تصویر کے طور پر موجود ہیں۔

عرب خطے کے ساتھ ان کا سلوک غلاموں اور بدوؤں کا تھا۔ ایسے میں عربوں میں محرومیوں کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ جس بھی علاقے میں محرومیاں ہوں گی وہاں کے باشندوں کے دلوں میں حکومت کے لئے ہمدردی نہیں ہوتی۔

آج ہی کی صورتحال کو دیکھ لیجیے۔ فلسطین پر سب سے بڑی پبلسٹی ایران اور ترکی کررہاہے ۔ مگر 7 اکتوبر کے بعد ترک صدر کا کیا کردار ہے ۔اسے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،  کہ ماضی میں عثمانیوں کی ہمدردیوں کابھی یہی حال تھا۔ مور کو جنگل میں ناچتے کس نے دیکھا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ آل سعود کی سیاسی غلطیاں بہت ہیں  مگر عثمانیوں کے خلاف انہوں نے انگریز کو کاندھا نہیں دیا، حالانکہ آل سعود کی پہلی امارت جو ایک مکمل شرعی امارت تھی اسے 1818ء میں ترکوں نے بڑے ظالمانہ طریقے سے ختم کیا تھا۔

آل سعود کے چوتھے امیر امام عبداللہ بن سعود بن عبد العزیز کو 300 علما ومشائخ کے ساتھ صلح کا دھوکہ دے کر استنبول لایا گیا اور ان کے سر کاٹ دیے گئے ۔لیکن اس کے باوجود جب عرب بغاوت اٹھی تو عثمانیوں کے خلاف مصری پاشاؤں اور حجاز کے ہاشمی شریف مکہ نے برطانیہ کا ساتھ دیا۔ شریف مکہ کو بعد ازاں آل سعود نے شکست دے کر حجاز سے بھاگنے پر مجبور کیاتھا۔

برطانیہ نے شریف کے بعد آل سعود کے سخت حریف آل رشید کی حمایت کی ، کیونکہ شریف مکہ کی طرح آل رشید بھی تھے۔ جبکہ آل سعود کےبیک پر موحد علما  کا وژن تھا  مگر آل رشید اور شریف مکہ کو شکست دیکر جب آل سعود فاتح بنے تو برطانیہ کے پاس ان سے ہاتھ ملانے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ جس پر برٹش نے ان کی حکومت کو نجد و حجاز پر تسلیم کرلیا۔

آل سعود نے اپنی کمزوریوں کے باوجود 300 برس تک اسلامی شریعت کو تمام احکامات کے ساتھ نافذ رکھا ہے۔ اسلامی شریعت کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد میں یہ لوگ اس قدر سچے ،کھرے اور منصف مزاج واقع ہوئے ہیں کہ اپنے شہزادوں اور شہزادیوں تک کو حدود اور قصاص سے معاف نہیں کیا۔ 1977ء میں شہزادی مشاعل جیسی بااثر شہزادی کو زناء کے ارتکاب کے اعتراف پر معاف نہیں کیا گیا اور اس پر حد جاری کردیا گیا۔

ہم جب عثمانی خلفاء اور آل سعود کے حکمرانوں کی طرز زندگی اور خواتین کی زندگیوں کا موازنہ کرتے ہیں تو بات بہت واضح ہوجاتی ہے۔ آپ عبدالحمید کی نواسیوں اور پوتیوں کی تصاویر دیکھیں اور دوسری طرف آل سعود کی شہزادیوں کو دیکھیں ۔ آل سعود میں حجاب ،اسلامی طرز لباس اور حمیت نظر آئے گی۔ اس کے برعکس عثمانی خواتین اسکرپٹس میں ملبوس ہوتی ہیں۔ جن پر کہیں سے مسلمان ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔
آل سعود میں آج تک شریعت نافذ ہے۔ شرعی حدود نافذ ہیں۔ اب مرور زمانہ کےساتھ کچھ کمزوریاں ضرور آئی ہیں ۔ جس کے لئے دعاکی کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply