صبح بہت خوبصورت تھی۔ ہنزہ ہلکے نیلے دھوئیں کے غبار میں لپٹا ہوا تھا۔ ڈرائیور لڑکا وقت پر پہنچ گیا تھا۔ سفید ویگن اچھی حالت میں تھی۔ اگلی نشست پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ من و عین یونانی شہزادہ معلوم ہوتا تھا۔ موٹی موٹی نیلی آنکھیں چمکتا دمکتا گلابی رنگوں ستواں ناک فراخ پیشانی باریک ہونٹ اور سنہری بال۔ سلیقے سے سنورے بالوں اور دیدہ زیب لباس سے غیر ملکی بھی نہیں جان پڑتا تھا۔ میں غیر ملکی سیاحوں کے اتنے مڑے تڑے حلیے دیکھ بیٹھی تھی کہ اب انہیں پہنچاننا مشکل نہیں رہا تھا۔
‘‘ڈاکٹر شیر عزیز’’ ڈرائیور لڑکے نے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔
‘‘علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا ہے۔ میرا دوست ہے گلمت میں اس کا گھر ہے اسے وہاں جانا تھا میں نے اسے بٹھا لیا ہے امید ہے آپ کو اعتراص نہیں ہو گا’’۔
‘‘ارے بھئی کیوں اعتراض ہو گا۔ اتنے خوبصورت اور پڑھے لکھے لڑکے کے ساتھ سفر کرنا تو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ یوں بھی گلمت کا رہنے والا ہے ہمیں ایک پیالی چائے پلانے اپنے گھر تو لے ہی جائے گا۔ کیوں بیٹے؟’’
میں نے ہنستے ہوئے شیر عزیز کی طرف دیکھا۔
‘‘ضرور ضرور آنٹی’’۔ شیر عزیز خوشدلی سے مسکرایا۔
ہمارے درمیان خالہ بھانجے کا رشتہ آناً فاناً ہی استوار ہو گیا تھا۔ شفقت آگے بیٹھ گئی میں اور شیر عزیز پیچھے تھے۔
کریم آباد سے نظام آباد تک کا چالیس کا کلو میٹر فاصلہ کب اور کیسے طے ہوا؟ مجھے ا سکا علم تک نہ ہوا۔ ڈاکٹر شیر عزیزکی رفاقت حد درجہ معلوماتی اور دلچسپ تھی۔
گلمت اور نظیم آباد کے درمیان انسانی کاریگری کا منہ بولتا شاہکار پل کراس کرتے ہی خدائی کاریگری کے شاہکار نے آنکھوں کو ٹھنڈک دی۔
گاڑی میرے کہنے پر رُک گئی تھی۔ ہم لوگ باہر آگئے تھے۔ آبشار دھواں دھار انداز میں بلندیوں سے پستیوں کی طرف بہہ رہی تھی۔
گلمت میں داخل ہوتے ہی میری زبان پر بے اختیار سورہ رحمٰن کی وہ آیت آئی ‘‘اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے’’۔
یہاں منہ کو نت نئے ذائقے دینے والی نعمتیں نصیب ہوئی تھیں۔ آنکھوں نے حسین نظاروں سے روح کو سیراب کیا تھا۔ پسو کو نز دیکھنے کی چیز ہیں۔ کون کی شکل کے یہ پہاڑ ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے بنانے والے کی صناعی کے گیت گاتے ہیں۔ ہم نے دیر تک ان کا نظارہ کیا۔
گلمت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے خاصا بڑا گاؤں ہے۔ بائیں ہاتھ دریا زور و شور سے بہہ رہا تھا۔ دائیں ہاتھ سڑک کے ساتھ تھانہ اور بچوں کا سکول ہیں۔ تھانے کی عمارت بھی نئی ہے اور سکول بھی حال ہی میں تعمیر ہوا تھا۔ پیچھے آبادی ہے۔
گلمت کے اس حصے کو چمن گل کہتے ہیں۔
اس سے آگے وسطی گلمت ہے۔ وسطی گلمت دراصل پرانا حصہ ہے۔ نالہ گلمت دونوں حصوں کو الگ کرتا ہے۔ نالے کو پار کرتے ہی دائیں طرف ہوٹل سلک روٹ لاج نظر آیا۔ بائیں طرف ہارس شو موٹل ہے۔
ڈاکٹرشیر عزیز نے گاڑی رکوا دی۔
‘‘آجائیے۔ چائے کا ایک کپ پیتے ہیں’’۔
ہم لوگ سلک روٹ لاج میں داخل ہوئے۔ یہ بیس’ پچیس کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت ہوٹل ہے جو کرنل شاہ خان کی ملکیت ہے۔ اندر کا ماحول خاصا خوابناک قسم کا تھا۔ دو میزوں پر چند غیر ملکی بیٹھے کولڈ ڈرنک سے دل بہلا رہے تھے۔ تین میزیں ملکی لوگوں نے سنبھال رکھی تھیں۔ ایک خاندان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔
بچوں کے شورو غل نے پرسکون فضا کو خاصا ہنگامہ خیز بنا رکھا تھا۔
چائے بہت مزیدار تھی۔ زہر مہرہ کے وزنی کپوں میں دم دی ہوئی چائے نے طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیا تھا۔ بل کی ادائیگی میرے بے حد اصرار کے باوجود شیر عزیز نے کی۔ بہتیرا کہا بھی کہ میاں تم تو خود ابھی اسٹوڈنٹ ہو۔ چھوٹے بھی ہو۔ تمہارا خرچ کرنا تو مناسب ہی نہیں۔ مگر وہاں ایک ہی رٹ تھی۔
‘‘ارے آنٹی’’ آپ ہماری مہمان ہیں’’۔
میرے اندر کُھدبُد سی تھی۔ پتہ نہیں شیر عزیز ہمیں اپنے گھر لے جانے کی دعوت دے گا یا نہیں۔ لیکن یہ میں بھی دل میں طے کئے بیٹھی تھی کہ اس کی مہمان ضرور بننا ہے۔ چاہے ناخواندہ ہی سہی۔
مگر شیر عزیز بہت بیبا لڑکا ثابت ہوا۔ سلک روٹ لاج سے نکلنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا:
‘‘آنٹی آپ کو گلمت کی مشہور جگہیں دکھا دیں پھر گھر چلیں گے’’۔
بڑی سڑک سے دو کلو میٹر اندر پولو گراؤنڈ ہے۔ مگر پولو گروانڈ سے پہلے ایک ہوٹل مارکو پولو ان ہے جسے را جہ بہادر خان اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر خود چلاتے ہیں۔ گھر کے ساتھ ہی انہوں نے چھوٹا سا لوک ورثہ میوزیم بنا رکھا ہے ۔کیا خاصے کی چیز تھی۔۔
انٹری ٹکٹ خرید کر اندر داخل ہوئے۔ برتن’ کپڑے ’کھیتی باڑی کے اوزار’ کڑھائی کے مختلف نمونے’ میوزیم کی سیٹنگ لوکل گھروں جیسی تھی۔
بہت لُطف آیا اس میوزیم کی سیر سے۔ شیر عزیز نے تاریخی حوالوں سے بھی بہت کچھ بتایا۔
پولو گراؤنڈ کے سامنے جماعت خانہ ہے اور جماعت خانے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت لائبریری ہے۔ اس میں کم و بیش ڈھائی تین ہزار کے قریب کتابیں ہیں۔
جماعت خانے کے داہنے ہاتھ اسکول اور ریسٹ ہاؤس ہیں۔ یہاں سے کچی سڑک گاؤں جاتی ہے۔ شیر عزیز نے ڈرائیور لڑکے کو اپنی وخی زبان میں کچھ کہا۔
گاڑی کچے پر بھاگی جاتی تھی۔ کھیتوں کے سلسلے دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے کہیں کہیں اکّا دکّا مکان بھی نظر آتے۔ تقریباً نصف کلومیٹر طے کرنے کے بعد آبادی کے آثار ملے۔ گاڑی گاؤں کے باہر رک گئی تھی۔
ہم لوگ اب پیدل مارچ کرتے ہوئے گلیوں میں سے گزرتے ہوئے دلگرم محلے کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں شیر عزیز رہتا ہے۔ گھر کے لوگوں نے خوشگوار مسکراہٹوں سے استقبال کیا۔ گلے لگایا۔ رخسار چومے اور ہمیں بانہوں کے حلقے میں لئے آگے بڑھے۔ ایک خوبصورت گھر جس کے گیسٹ روم میں ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
میں نے پچاس سالہ صحت مند گھبرو مرد حکمت نذر کی طرف دیکھ کر کہا۔
‘‘مجھے امید نہیں تھی آپ لوگوں نے گاؤں میں اتنے خوبصورت گھر بنا رکھے ہیں۔’’
وہ اور ان کی حسین بیوی گل اندام ہنسے۔ دونوں اردو سے شُد بُد رکھتے تھے۔ یہ شیر عزیز کے والدین تھے۔
‘‘ان پختہ کمروں کے پیچھے ہمارا پرانا گھر ہے۔ ہمیں تو اسی میں راحت ملتی ہے۔ یہ حصہ آپ جیسے لوگوں کے لئے بنایا ہے’’ اب میرے ہنسنے کی باری تھی۔
شیر عزیز کے والد کی لمبی چوڑی فیملی ہے۔ والد کے بھائی ‘اپنے بھائی بہن اور اپنے بچے’ سب لوگ اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ کھانا پینا بس الگ ہے۔
شیر عزیز کی وادی بہت دلچسپ خاتون تھیں۔ انہیں اردو نہیں آتی تھی اور ہم وخی زبان سے نابلد تھے۔ رابطے کا ذریعہ شیر عزیز تھا۔ ہنزہ کے بوڑھے لوگ بہت زندہ دل ہیں۔ ان کے چہرے جھریوں سے گھسے پٹے نہیں ہیں۔ ان کے منہ میں مصنوعی دانت بھی نہیں ہیں سچی بات ہے کہ ہنزہ کے بوڑھے جوانوں سے زیادہ قابل رشک تھے۔ سرخ و سفید ‘ملائم ملائم رخساروں والے میٹھی زبان میں باتیں کرتے تو یوں لگتا جیسے پھول گر رہے ہوں۔
دوپہر کا کھانا بہت پُر تکلف تھا۔ ہم نے قہوہ پینے کے بعد ظہر کی نماز پڑھی اور پھر شیر عزیز ہمیں سیر کروانے نکلا۔ ہماری سیر خوب لمبی رہی۔ قراقرم روڈ پر آئے۔ یہاں گوزمحلہ میں شیر عزیز کے چند دوست تھے۔ سب ملنے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ پڑھے لکھے ‘بے تکلف نوجوان جنہوں نے علاقائی مسائل پر خوب کھل کر باتیں کیں۔ شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت بھی زیر بحث رہی۔
پولو گراؤنڈ کے دائیں ہاتھ میر کا پرانا محل دیکھا۔ محل اب ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔پاس ہی آغا خان ہیلتھ سنٹر ہے۔ ہنزہ میں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل کو اولیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی تقریباً %۹۰ہے۔
پانی کا انتظام گلمت میں بہت بہتر ہے۔ پینے کے پانی کے لئے پائپ لائینیں بچھائی ہوئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے نالوں کی خاصی بہتات ہے۔
گلمت اپنے نام کی مانند اسم بامسمیٰ ہے۔ یعنی پھلوں کا باغ‘ سچی بات ہے وادی پریوں کا مسکن معلوم ہوتی تھی۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے‘ سرسبز و شاداب درخت ‘ان درختوں سے لٹکتے پھل‘ برف سے لدی پھندی چوٹیاں ‘ پہاڑوں کے بلند و بالا سلسلے یہ بتاتے تھے کہ جنت بھلا اس سے زیادہ خوبصورت کہاں ہو گی؟
پھر ہم نے آبشار کا پانی پیا۔ کیسا پانی تھا ٹھنڈا میٹھا؟ پیاس ہی نہیں بجھتی تھی۔
ہنزہ کے لوگ دراز عمر کیوں نہ ہوں گے کہ قدرت کا انمول عطیہ یہ پانی جانے اپنے اندر کون کون سی دھاتی معدنیات سمیٹے ہوئے ہے۔طاقتور اجزاء سے مالا مال یہ پانی انسانوں اور فصلوں کے لئے کیوں نہ حیات آفرین ہو گا۔
شیر عزیز نے ہمیں وہ جگہ بھی دکھائی جہاں پرانی شاہراہ ریشم کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اردگرد پہاڑیوں کھڑے تھے جیسے اونچی اونچی فصیلیں ہوں۔
‘‘مجھے کچھ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم پریاں ہوں اورجنوں و دیوؤں کی قید میں ہوں’’ شفقت نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی:
‘‘جان خود میں رہو۔ ایسی خوابناک باتیں سوچنے کا فائدہ‘ ہمارے شہزادے ہمیں اس قید سے چھڑانے کی بجائے شکرانے کے نفل ادا کریں گے۔ چلو جان چھٹی’’۔
گھر جانے سے پہلے ہم نے درختوں سے کچے سیب توڑ کر کھائے۔ خوبانیاں کھائیں۔ نوکیلے چٹانوں والے پھسو کونز Passu Cones دوبارہ جی بھر کر دیکھے۔ پھسو گلیشئر کا بھی نظارہ کیا۔ ہارس شو ہوٹل سے چائے پی۔
‘‘پسو یہاں سے صرف پندرہ میل ہے۔ کیوں نہ وہاں کا ایک چکر لگا لیں’’۔
میں نے شفقت کی طرف دیکھا۔ اس نے خونخوار نظروں سے مجھے گھورا اور بولی:
‘‘تم اول درجے کی کمینی عورت ہو۔ آگے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہو۔ تمہارا تو مفاد ہے۔ لکھنا ہے نا تمہیں ۔میں یونہی پیسہ اجاڑ رہی ہوں۔ آگے کیا ہے؟ ایسے ہی خوفناک ننگے بچھے پہاڑ ہونگے۔ ایسے ہی درخت اور وادیاں۔ بس بہتیری دیکھ لیں۔ واپسی کا سوچو اب’’۔
‘‘عجیب تلون مزاج ہو۔ ابھی پری کی صورت میں جنوں اور دیوؤں کی قیدی بن رہی تھی اور اب’’۔
شیر عزیز نے میری بات کاٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا
اگر آپ نے بتورہ گلیشر کا نظارہ نہ کیا اور پسو کی تاریخ ساز شخصیات غلام ہنر بیگ اور ہمایوں بیگ سے نہ ملیں تو آپ کا یہاں تک آنا بیکار ثابت ہوا۔
شفقت تلملا اٹھی۔ ‘‘کیوں بیکار ہوا؟ جی بھر کر حسن فطرت سے لطف اندوز ہوئی ہوں میں۔ خوب سیر کی ہے میں نے۔ باقی مجھے کوئی کتاب نہیں لکھنی کہ میں کوہ پیمائی کی تاریخ ساز شخصیات سے ملتی پھروں۔
وہ میز سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ اس کے اندازِ قامت میں جو تناؤ تھا وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہاں لچک کی قطعی گنجائش نہیں۔
میں چپ چاپ بیٹھی عالم تصور میں برف کے اس دیس کو دیکھ رہی تھی جو سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ درہ خنجر اب ‘خوابوں کی وہ جگہ جسے دیکھنے کی ہمیشہ سے بڑی آرزو تھی۔ مارکو پولو اورہیون سانگ کی یہ گزر گاہ اب مجھ سے کچھ زیادہ دور بھی نہ تھی۔ خیبر ‘مار خون ‘سوست کی وادیاں اور پھر سوست سے ۸۶ کلو میٹر پر خنجر اب۔ کہیں اندر سے میرے دل میں ایک تمنا نے سر ابھارا تھا۔
‘‘کاش مجھے چودھویں صدی کے اس عظیم سیاح ابن بطوطہ کے دوستوں جیسے ساتھی میسر آسکتے۔ میں گھر بار سے بے نیاز ہو سکتی۔’’
اس وقت مجھے تھامس جے کرومبی یاد آیا تھا۔ سیاحت کی دنیا میں کرومبی نے جو نئے انداز اپنائے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ ابن بطوطہ کو میں نے تھامس کرومبی کے حوالے سے ایک مختلف اندا زمیں پڑھا تھا۔
ابن بطوطہ نے اپنی جہاں گردی کی وضاحت نہیں کی۔ کیوں نہیں کی؟ یہ میں نہیں جانتی۔ پر اپنے بارے میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔
میں نئی دنیاؤں کے اسرار میں اُسے کھوجنے کی متمنّی ہوں۔ حسن و رعنائی کے شاہکار آنکھوں میں سمیٹ کر اس سے باتیں کرنے کی آرزو مند ہوں۔ پیشانی کو اجنبی جگہوں پر رکھ کر روح کی گہرائیوں سے اسے پکارنے کی خواہش مند ہوں۔ اے کاش میں آگے بڑھ سکتی۔ بہت آگے۔ کاشغر‘ یار فند اور سنکیانگ کی سمت‘ ہندوکش دروں سے نکل کر سمرقند و بخارا۔ قرطبہ و غرناطہ جا سکتی۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمتوں کے نشان کھوج سکتی۔
میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے تھے۔
شام ڈھلے گھر آئے۔ شیر عزیز کی والدہ شیر عزیز کی منگیتر کی باتیں کرنے لگیں۔ کہیں کہیں شیر عزیز بھی لقمے دینے لگا۔
‘‘آنٹی چار سال ہو گئے ہیں منگنی ہوئے۔ دیکھئے کتنا ظلم ہے یہ ؟میر اتو شادی کا چغہ بھی پرانا ہو گیا ہے۔
‘‘ہماری بھابھی بہت خوبصورت ہیں’’
ڈاکٹر شیر عزیز کی چھوٹی بہن زین کلاس تھری کی سٹوڈنٹ ہے۔ شیر عزیز کی منگیتر سوسن پشاور یونیورسٹی میں بی۔ ایس۔ سی آنرز کی طالبہ ہیں۔
شیر عزیز کا چھوٹا بھائی احمد بھی بھابھی کے ذکر پر بولے بغیر نہ رہ سکا تھا۔
‘‘آنٹی آپ ہمارے بھائی کی شادی پر ضرور آئیں۔ وخی شادی بہت دلچسپ ہوتی ہے’’۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
‘‘بھئی احمد ڈاکٹر شیر عزیز بلائے گا تو ضرور آئیں گے’’۔
رات بے حد خنکی لئے ہوئے تھی۔
ہر گھر کیطرح یہاں بھی وہ بڑا کمرہ اپنے روائیتی رنگوں سے سجا سنورا بہت اچھا لگا تھا۔ کھانا یہیں کھایا گیا کمرے کے بیچوں بیچ آگ جلتی تھی۔ اطراف میں افراد خانہ بیٹھے تھے۔ ایک سمت دادی ماں بیٹھی تھیں۔ سب سے پہلے کھانا ہمیں دیا گیا۔ ہمارے بعد مردوں کی باری تھی۔ عورتوں کو آخر میں ملا۔ کھانے کے بعد قہوہ چلا اور اس کے بعد موسیقی کی محفل سجی۔
گوجال بالا کی یہ رات میری زندگی کی چند خوبصورت راتوں میں سے ایک تھی۔ وخی زبان کی یہ شاعری ہماری سمجھ سے بالا تھی۔ پر آواز کا اُتار چڑھاؤ ‘تالیوں کا شور اور گانے والی کا دل کش چہرہ اور آواز سب نے مل جل کر سماں باندھ دیا تھا۔
میری رات خوابوں میں گزری۔ کہیں درہ خنجر اب میں گھومتے ہوئے۔ کہیں کا شغر کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہوئے۔
اگلے دن کوئی گیارہ بجے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ مجھے گنونی نہ دیکھ سکنے کا افسوس تھا کیونکہ یہاں بھی فصل ابھی پک رہی تھی۔ ویگن تیزی سے پہاڑی موڑ کاٹ رہی تھی۔ ڈرائیور لڑکا بروششکی گیت گا رہا تھا۔ ہوائیں تیز تھیں۔ سڑک پر چند بچے بھاگتے دوڑتے اور ایک دوسرے کے ساتھ چہلیں کرتے جا رہے تھے۔
تبھی ڈرائیور لڑکے نے پوچھا
‘‘آپ نے دریا سے سونا نکلتے دیکھا ہے کبھی؟’’
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب سونے کے نام پر چپ چاپ بیٹھی شفقت چلاّ کر بولی۔
‘‘کہاں نکلتا ہے؟ یہاں کہیں قریب ہی؟ ہائے دکھاؤنا’’۔
شفقت کا اضطراب قابل دیدنی تھا۔
لڑکے نے ویگن کا رخ ان کچے گھروں اور اونی خیموں کی طرف موڑ دیا جو کچھ فاصلے پر نظر آتے تھے۔
‘‘یہ خانہ بدوش لوگ ہیں۔ ان کا کام بس یہی ہے’’۔
ویگن رکی اور جب اس میں سے دو خواتین نکل کر باہر آئیں تو خیموں اور گھروں سے بچے عورتیں اور مرد سب آناً فاناً ہمارے گرد اکٹھے ہو گئے۔ لڑکے نے گوجالی زبان میں ان سے بات کی اور ہماری متعلق بتایا۔ مرد کچھ ار دو سمجھ اور بول سکتے تھے۔ شفقت اس درجہ بے چین تھی کہ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ دریا میں گھس کر سونا نکال لائے۔
سونا بھی کیا چیز ہے کہ اس کے پیچھے انسان پاگل ہوا پھرتا ہے۔ کیمیائی تجربات ‘دیسی اور ولایتی فارمولوں سے وہ اس پیلی دھات کو اپنا بنا لینا چاہتا ہے۔ مالا مال ہو جانے کا متمنی رہتا ہے۔
آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلتاہے کہ سونا کس جگہ ہے؟ میں نے پوچھا۔
‘‘آبائی پیشہ ہے ہمارا۔ تجربہ ہمیں سکھاتا ہے۔ قسمت یاوری کرے تو بہت کچھ حاصل ہو جاتاہے۔ بسا اوقات گلیشیروں کے نیچے سے بھی سونا نکل آتا ہے۔ پسو سے مشرق کی طرف شمشال ایک پُر خطر وادی ہے۔ اس کے نالہ شمشال سے کافی سونا نکلتاہے۔ ویسے اس میں خواری بہت ہے۔ بہت سے لوگ جو پہلے طلا گری کا کام کرتے تھے اب اسے چھوڑ گئے ہیں’’۔
میں چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح ہمیں دریا سے سونا نکال کر دکھائیں۔ فوٹو گرافی بھی مقصود تھی اور ذاتی مشاہدہ حاصل کرنا بھی تھا۔ مگر مرد پس و پیش کر رہا تھا۔ کچھ لڑکے نے زور دیا کچھ میں نے پیسوں کی پیشکش کی۔ چنانچہ ان کی عورتیں اور بچے تمام سامان اٹھا کر دریا کی سمت چل پڑے۔
تقریباً ایک فرلانگ چل کر وہ ایک ایسی جگہ رک گئے جہاں دریائے ہنزہ کا پاٹ چوڑا تھا اور پانی کا بہاؤ کناروں کی سمت سُست تھا۔ مرد جوُتے اتار کر پانی میں اترا۔ عورت نے اپنے سر سے لکڑی کی ایک بڑی سی ٹرے نماچیز اتار کر پتھروں پر رکھی۔ مرد نے کدال سے پتھر ہٹا کر اس ٹرے کو وہاں لٹکایا۔ یہ لمبوتری صورت کا ایک ایسا اوزار تھا جو دہانے اور پشت سے تنگ پر اطراف سے خاصی کشادگی لئے ہوئے تھا۔ عقبی ایک چوتھائی حصہ شہتوت کی شاخوں اور لوہے کی جالی سے چھت سی بنائے ہوئے تھا ۔ عورت نے سلور کے ایک بڑے سے کٹورے کے ساتھ جس کی چوبی مٹھ تھی دریا سے ریت نکال نکال کر اس جالی دار چھت پر انڈیلنا شروع کر دی۔ پانی بہہ کر واپس دریا میں مل رہا تھا ۔ ریت ٹرے میں اکٹھی ہو رہی تھی اور کنکر پتھر چھت پر جمع ہوتے جا رہے تھے۔
پھر عورت رک گئی۔ مرد نے ریت کو ہاتھوں سے پھرولا۔ وہاں جابجا خشخاص جتنے سنہری ذرے جگمگا رہے تھے۔
‘‘یہ سونا ہے۔ ہم اس میں ایک ایسا مادہ ملاتے ہیں جو ان ذروں کو یکجا کر دیتا ہے’’۔
اس وقت ہم دونوں دم بخود ان چمکیلے ذروں کو دیکھ رہی تھیں۔ جی چاہتا تھا دریائے ہنزہ میں چھلانگیں مار دیں۔ ریت اور لہروں میں ملا ہوا سارا سونا باہر نکال لائیں۔ کہیں ایسا ہو جائے تو کتنی ساری خواہش تکمیل پا جائیں۔ میں نے بے اختیار سوچا تھا۔ شفقت نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ پر اس کی نگاہوں سے چھلکتی گر سنہ سی چمک مجھے اس کے دل کا حال بتائے دیتی تھی۔
تھلپن میں چٹانی کتبے دیکھتے ہوئے میرا جی چاہا تھا کاش داسو کی اس عورت کی طرح مجھے بھی کوئی چودہ پندرہ کلو کا طلائی ہار یا کوئی زیور مل جائے۔ مہاراجہ اشوک کے زمانے کا۔ میں اسے اپنی چادر میں چھپا کر بھاگ جاؤں۔ کسی کو ہوا بھی نہ لگنے دوں۔ ٹوٹے ٹوٹے کر کے اس کو آہستہ آہستہ بیچوں اور بہت امیر ہو جاؤں۔
‘‘ہائے رے یہ سونا۔’’
آخر ہم ان برازیلیوں سے کیونکر مختلف ہو سکتے ہیں جنہیں دریائے امینرن کے طاس میں سیرا پلادا نامی جگہ پر سونے کی چٹانوں کا علم ہوا تو انہوں نے کھرپیوں اور کدالوں سے زمین کھود کھود کر چھ سو فٹ گہرا اور نصف میل قطر کا گڑھا بنا ڈالا۔
واپسی کے سفر میں تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ شاید افسوس اور پچھتاوا تھا کہ سونا ہاتھوں کی مٹھیوں سے نکل کر دریا میں گر گیا ہے۔ پھر شوخ وشنگ ڈرائیور لڑکے نے شاہ رستہ بانو کی عشقیہ داستان سنائی۔
ماضی کے ہنزہ کی شاہ رستہ بانو اپنی ریاست کے ایک رعنا جوان شاہ قلندر سے محبت کرتی تھی۔ پاؤں میں شاہی بیڑیاں تھیں۔ پر وہ انہیں خاطر میں نہ لاتی تھی۔ راجہ کو اس عشق کے بارے میں علم ہو گیا تھا۔ اس نے شاہ قلندر کے باپ کو بلوایا اور اُسے بیٹے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ دربار سجا۔ درباری حفظ مراتب بیٹھے۔ سازندوں نے ساز بجانا شروع کیا۔ شاہ قلندر کے باپ نے رقص کا آغاز کیا۔
باپ کے ہاتھوں میں بل کھاتی ‘لہراتی ‘قدموں کی تھاپ کے ساتھ تڑپتی اور لشکارے مارتی تلوار میں شاہ قلندر کو اپنی موت نظر آگئی تھی۔ باپ ناچتا ناچتا پاس پہنچا۔ بیٹا کھڑا ہوا۔ نگاہوں کا تصادم ہوا۔ شاہ قلندر کی آنکھوں میں رعد جیسے لشکارے تھے۔
‘‘گردن ایک ہی وار میں کٹ جانی چاہیے۔ اگر ایسانہ ہوا تو اپنی اور شاہ کی خیر منا لینا’’۔
مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ساز بند ہو گئے۔ ہر شخص دم سادھے بیٹھا تھا۔ باپ نے تلوار گھمائی۔ شاہ قلندر کی آدھی گردن کٹ گئی۔
‘‘بس’’
اس نے ہاتھ لہرایا اور جواباً ایک ساتھ دو گردنیں اتار دیں۔
میدان میں تین وجود ٹوٹے ہوئے بکھرے پڑے تھے۔ شاہ رستہ بانو بین کرتی وہاں آئی اور شاہ قلندر کی گردن اٹھا کر جنگلوں کی طرف نکل گئی۔
‘‘یہ کمبخت شاہ بھی کیسے خردماغ ہوتے ہیں۔ اپنی منجی کے نیچے کبھی سونٹا نہیں پھیرتے’’۔ شفقت نے تلخی سے کہا۔
ہوٹل میں پہنچے تو شام ہو گئی تھی۔ چائے پی۔ مغرب کی نماز پڑھی۔ جب اکبر حسین اکبر کے ہنزہ میں مقیم رشتے دار کا فون آیا۔
‘‘آپ ہر طور کل نگر کے لئے روانہ ہو جائیں۔ اکبر نلت میں آپ کا منتظر ہے’’۔
کیسی پریشان کن صورت حال نے آگھیرا تھا۔ رانی آف ہنزہ سے دس بجے کا وقت طے تھا ۔ادھر اکبر کا نگر دکھانے کے لئے بلاوا آگیا تھا۔ایک طرف رانی کا وہ افسانوی کردار تھا جس کے متعلق بچپن سے کہانیاں سن سن اور قدرے بڑے ہو کر پڑھ پڑھ کر ذہن نے اتنے روپ تراش رکھے تھے کہ ملاقات کے تصور سے ہی ایک پراسرار سا اشتیاق میرے رگ و پے میں دوڑ رہا تھا۔ گو بدلتے ہوئے حالات اور وقت نے رانیوں کا وہ افسانوی طلسم توڑ دیا تھا۔ مگر حقائق جاننے کے باوجود ذہن اس طلسم سے باہر نہیں نکل رہا تھا۔
دوسری جانب گلگت کی ایک اہم وادی تھی جسے دکھانے کے لئے ایک اخبار نویس بذات خود موجود تھا۔ جتنی تفصیلات اور سیر سپاٹا اکبر ہمیں کروا سکتا تھا اتنا کسی اور ذریعے سے ممکن ہی نہ تھا۔
اس وقت شفقت عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر بستر پر آنکھیں موندھے لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے صورت حال اس پر واضح کرتے ہوئے اس کی رائے لینی چاہی۔
‘‘عجیب ہو تم بھی۔ اکیسیویں صدی سر پر کوک رہی ہے اور تم مہارانیوں کے چکر میں پڑی ہوئی ہو۔ اپنے جیسے لوگوں کو دیکھو۔ نگر چلو۔ ایک خوبصورت اور حسین سی صورت دیکھنے کی بجائے نئے افق اور نئی زمینیں دیکھو۔
‘‘وہ حسین سی صورت دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تاریخ میں اس کا کردار ہے’’۔
میں نے دھیرے سے کہنا ضروری سمجھا تھا۔
‘‘تو پھر بیٹھی رہو یہاں’’ ۔شفقت جل کر بولی۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں